مٹے مٹے سے لفظ دل کی کیفیت بتا گئے
تمہارا خط تھا آنسوؤں سے جا بجا دھلا ہوا
ظفر جس سے خفا ہوئے کئی برس گزر گئے
ہے اُس کا نام اب بھی میرے ہاتھ پر لکھا ہوا۔
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں
ہر حسنِ سادہ لوح نہ دل میں اُتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں۔