دل کے موضوع پر اشعار!

حجاب

محفلین
دل کی بات زباں تک لانا کتنا مشکل ہے
حالِ دل اوروں کو سنانا کتنا مشکل ہے
ایک ہمیں ہے تیری چاہت اِک دنیا کی مجبوری
بیچ سمندر دیا جلانا کتنا مشکل ہے
تم دنیا کی شیدائی ہو میں سپنوں کا باشندہ
ساتھ ہمیں یوں تیرا نبھانا کتنا مشکل ہے
ایک نئی دنیا کی چاہت لے آئی ہے کتنی دور
واپس لوٹ کے جانا کتنا مشکل ہے۔
-----------------------------------------------------------
 

عمر سیف

محفلین
اپنا تو یہ کام ہے بھائی، دل کا خُون بہاتے رہنا
جاگ جاگ کر ان راتوں میں شعر کی آگ جلاتے رہنا
 

حجاب

محفلین
دل نے سوچا ہے کسی روز ملیں گے اُس کو
جس کی آنکھوں نے کئی بار مسیحائی کی
جس نے سوچوں میں میری یاد بسائی اکثر
جس کی نظروں نے بصد شوق پذیرائی کی
جس نے خلوت میں میرا عکس بنایا دل پر
جس نے مشکل میں میرا ساتھ ضروری جانا
جس نے سانسوں کا حسین گیت سنایا مجھ کو
جس نے رونق کو میرے بعد ادھوری جانا
دل نے چاہی تھی بہر طور رفاقت جس کی
اُس کی چاہت کو صبح و شام تلاشا میں نے
اپنے ہاتھوں پہ کبھی چند لکیریں ڈالیں
اپنی پلکوں سے کہیں سنگ تراشا میں نے
اُس کی خواہش میں کئی اور جزیروں پر بھی
اپنے قدموں کے نشاں ثبت کیئے ہیں میں نے
اُس کی حسرت میں ملے لوگ نجانے کتنے
اپنے سینے پہ کئی داغ لیئے ہیں میں نے
میں لیتی ہی رہی نام وفا میں اُس کا
میں نے کی بھی تو فقط ایک ہی خواہش اُس کی
ڈر ہے یہ بھی کہ مجھے لوگ کہیں نہ کافر
مجھ کو لے آئی کہاں آج پرستش اُس کی
اُس کو ملنے کا یہی ایک سہارا ڈھونڈا
اپنے سپنوں میں اُسے روز پکارا میں نے
اُس کے پہلو کی مہک جام بنا کر اپنا
اپنی رگ رگ میں وہی شخص اتارا میں نے
دل میں چاہت کے کئی تاج محل ٹوٹ گئے
جب وہ شانوں پہ لیئے لاش وفا کی آیا
اُس نے چاہا نہ کبھی پاس بلانا مجھ کو
مجھ پہ نافذ ہی رہا ایک تغافل اُس کا
پھر بھی سوچا کہ اگر آس دلاسہ ہے تو
اپنی دھڑکن میں ابھی اور سنیں گے اُس کو
اُس کو دیں گے نہ کبھی پشت پناہی اپنی
اپنے نغموں میں مگر یاد کریں گے اُس کو
اب کے دیکھا جو کہیں ہم نے سراپا اُس کا
جو ہیں تشنہ وہ سوالات کریں گے اُس کو
اب وہ منزل ہے اگر عشق سزا بھی ہو تو
اُس کے طالب تو سرِ عام چنیں گے اُس کو
جس کی آنکھوں نے کئی بار مسیحائی کی
دل نے سوچا ہے کسی روز ملیں گے اُس کو۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

تیشہ

محفلین
یوں چاہے خزاں کھڑی ہو دل میں
اک آس کی پنکھڑی ہو دل میں

کیا ناخن ِمہرومہ سے کٹتی
جس شب کی گرہ پڑی ہو دل میں

وہ سامنے ہو تو معرکہ اور
جنگ اسُ سے الگ لڑی ہو دل میں

اس نام پہ مسکرائے جانا
اشکوں کی مگر جھڑی ہو دل میں

مصلوب نہیں مگر یہ احساس
اک میخ ابھی گڑی ہو دل میں
 

تیشہ

محفلین
تمھارے پیار میں ہم کو اگرچہ خسارہ ہے
مگر اتنا خسارہ تو ہمیں دل سے گوارہ ہے

دھنک کے رنگ کھو بیٹھے ہوئی خوشبو فضا میں گم
کتابِ زندگی کا اس قدر ہی گوشوارہ ہے

یقین آتا نہیں تو پوچھ لو تم آسمانوں سے
ہمارا نام ہی تو چاند ہے روشن ستارہ ہے

تمھیں جانے نہ دوں گی زندگی بھر دل کے ایواں سے

تمھارا عکس میں نے شیشئہ دل میں اتارا ہے
 

حجاب

محفلین
آپ کو دل کے اُجڑنے کا بھلا کیا احساس
آپ گذرے ہی نہیں ہیں کسی ویرانے سے۔
 

حجاب

محفلین
اثر دل پر کرے شکوہ،شکایت ہو تو ایسی ہو
گلے لگ کر کوئی روئے ندامت ہو تو ایسی ہو
مجھے کانٹا چُبھے اور تیری آنکھوں سے لہو ٹپکے
تعلق ہو تو ایسا ہو،محبت ہو تو ایسی ہو۔
 

عمر سیف

محفلین
تنہائیوں میں بھی دلِ تنہا نہیں لگتا
اور بھیڑ میں چہرہ بھی شناسا نہیں لگتا
وہ جانتا ہے رسم و رہِ دنیا نبھانا بھی
اک ہم سے ملنا ہی اسے اچھا نہیں لگتا
 

نوید صادق

محفلین
کون آسیب آ بسا دل میں
کر لیا ڈر نے راستہ دل میں

اے مرے کم نصیب دل! کچھ سوچ
ہے کوئی تیرا آشنا دل میں

کم ہے جس درجہ کیجئے وحشت
گونجتا ہے دماغ سا دل میں

عکس بن بن کے مٹتے جاتے ہیں
رکھ دیا کس نے آئنہ دل میں

میں ہوں، ماضی ہے اور مستقبل
کم ہے فی الحال حوصلہ دل میں

آخر آخر نوید صادق بھی
آن بیٹھا، رہا سہا، دل میں

(نوید صادق)
 
Top