تو اب میرے دل پہ جبر کیسا؟ یہ دل تو حد سے گزر چکا ہے
عمر سیف محفلین جون 2، 2007 #483 دلوں کے سودے میں نقصان ہو بھی سکتا ہے شعور تھا تو سہی میرے کام آیا نہیں
محمد وارث لائبریرین جون 2، 2007 #484 دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا، جل گیا (قبلہ و کعبہ)
شمشاد لائبریرین جون 2، 2007 #485 یہ لوگ تماشا ہیں تو پھر ان سے جنوں میں کوئی بھی بیاں دل کی حکایت نہیں کی جائے (نوشی گیلانی)
عمر سیف محفلین جون 2، 2007 #486 اگر یقین ہو انصاف کا تو پھر اس کا دلوں کی دھجیاں جسموں کے تار دکھلاؤں
محمد وارث لائبریرین جون 2، 2007 #487 اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا پھر ہجر کی لمبی رات میاں، سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی جو دل میں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کیا، گھبرانا کیا ابنِ انشا
اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا پھر ہجر کی لمبی رات میاں، سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی جو دل میں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کیا، گھبرانا کیا ابنِ انشا
عمر سیف محفلین جون 2، 2007 #488 دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی اب تو ہم لوگ گئے دیدہء بےخواب سے بھی
نوید صادق محفلین جون 2، 2007 #489 ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا شاعر: میر تقی میر
محمد وارث لائبریرین جون 2، 2007 #490 دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر حریمِ کبریا سے آشنا کر جسے نان جویں بخشی ہے تو نے اسے بازوے حیدر بھی عطا کر اقبال
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر حریمِ کبریا سے آشنا کر جسے نان جویں بخشی ہے تو نے اسے بازوے حیدر بھی عطا کر اقبال
شمشاد لائبریرین جون 2، 2007 #492 یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی پڑی ہُوئی تھیں مُجھے کِتنی عادتیں اُس کی (نوشی گیلانی)
نوید صادق محفلین جون 2، 2007 #493 باندھتے ہیں اپنے دل میں زلفِ جاناں کا خیال اس طرح زنجیر پہناتے ہیں دیوانے کو ہم شاعر: ناسخ
نوید صادق محفلین جون 2، 2007 #495 دل سے آنکھوں میں لہو آتا ہے شاید رات کو کش مکش میں بے قراری کی یہ پھوڑا چِھل گیا شاعر: میر
عمر سیف محفلین جون 2، 2007 #496 کھلا ہے دل کا دریچہ اسی کی دستک پر جو مجھ کو میری نگاہوں سے دیکھتا بھی ہے
شمشاد لائبریرین جون 2، 2007 #498 وہ جن کے آنچلوں سے زندگی تخلیق ہوتی ہے دھڑکتا ہے ہمارا دل ابھی تک ان حسینوں میں (قتیل شفائی)