خیال کیسے بھی ہوں متعبر نہیں کھلتے
دیار جبر میں دل کے ہنر نہیں کھلتے
کھلا نہیں ہے طلسم مسافت ہستی
اک عمر ساتھ چلیں ہمسفر نہیں کھلتے
نہ آنکھ میں کوئی منظر نہ لب پہ کوئی صدا
اتار دل پہ کوئی اسم در نہیں کھلتے
نہال دل پہ خزاں رکُ گئی ہے کس سے کہوں
میرے رفیق میرے چارہ گر نہیں کھلتے ۔ ۔ ۔ ،