دشت ِ افسردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں
وہ کسی خواب ِگریزاں میں ملا ہے سو کہاں
ہم تیری بزم سے اٹھے بھی تو خالی دامن
لوگ کہتے ہیں کہ ہر دکھ کا صلہ ہے سو کہاں
آنکھ اسی طور برستی ہے تو دل رستا ہے
یوں تو ہر زخم قرینے سے سلا ہے سو کہاں
جلوہ ء دوست بھی دھندلا گیا آخر کو فراز
ورنہ کہنے کو تو غم' دل کی جلا ہے سو کہاں ۔ ۔