لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
(فیض احمد فیض)
میری تیری نگاہ میں جو لاکھ انتظار ہیں
جو میرے تیرے تن بدن میں لاکھ دل فِگار ہیں
جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے سب قلم نظار ہیں
جو میرے تیرے شہر کی ہر اِک گلی میں
میرے تیرے نقشِ پا کے بے نشاں مزار ہیں
جو میری تیری رات کے ستارے زخم زخم ہیں
جو میری تیری صبح کے گلاب چاک چاک ہیں
یہ زخم سارے بے دوا ، یہ چاک سارے بے رفو
کسی پہ راکھ چاند کی کسی پہ اوس کا لہو
یہ ہیں بھی یا نہیں بتا
یہ ہے کہ محض جال ہے
میرے تمہارے عنکبوتِ وہم کا بُنا ہوا
جو ہے تو اس کو کیا کریں
نہیں ہے تو بھی کیا کریں
بتا ، بتا ، بتا ، بتا !!!!!!!!!!!!!!!( فیض )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
بارشوں کے موسم میں بارشیں تو ہوتی ہیں
دل کے بھیگ جانے کی خواہشیں تو ہوتی ہیں
وصل کے اجالوں کی اوڑھنی میں چھپ کر بھی
ہجر کے اندھیروں کی وحشتیں تو ہوتی ہیں