مرے وہم وگماں سے بھی زیادہ ٹوٹ جاتا ہے
یہ دل اپنی حدوں میں رہ کے اتنا ٹوٹ جاتا ہے
میں روؤں تو درودیوار مجھ پہ ہسننے لگتے ہیں
ہنسوں تو میرے اندر جانے کیا کیا ٹوٹ جاتا ہے
میں جس لمحے کی خواہش میں سفر کرتا ہوں صدیوں سے
کہیں پاؤں تلے آکر وہ لمحہ ٹوٹ جاتا ہے
نجانے کتنی مدت سے ہے یہ دل میں یہ عمل جاری
ذرا سی ٹھیس لگتی ہے ذرا سا دل ٹوٹ جاتا ہے
دل ناداں!! ہماری تو نمو ہی نامکمل تھی
تو حیرت کیا جو بنتے ہی ارادہ ٹوٹ جاتا ہے ،