محمد تابش صدیقی
منتظم
لاجواب۔اُن کی ممانی جان کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
ٹوپی اُتار دیجئے ، ٹوپی اُتار دی گئی
لاجواب۔اُن کی ممانی جان کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
ٹوپی اُتار دیجئے ، ٹوپی اُتار دی گئی
اس کی بھی دھنائی ہوجائے
دیوارجوگری میرے کچےمکان کی
لوگوں نے آنے جانے کارستہ بنالیا
کروڑوں میں گلشن کا بنایا سینما ہےگلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
آپ اس شعر کی حسب مرضی دھنائی کر سکتے ہیں۔
شاعر کو حکومت نے دکان کھولنے کی اجازت دے دی ہے مگر گاہک کو گھر سے پاؤں نکالنے کی نہیں دی. شاعر صبح سے شام دکان میں پڑی اشیاء سے مٹی صاف کرتے ہوئے یہ گنگناتا ہے تاکہ عوام یا صحافیوں میں سے کوئی تو سن لے تاہم شاعر کو علم نہیں کہ کورونا کی آڈیبل فریکوئنسی کیا ہے!احمد فراز کی مشہور غزل کا ایک شعر :
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
اس کی دھنائی تو ٹنگائی سے قبل ہی ہو چکی!ہوئے مر کے ہم جو پیچھے، ہوئے کیوں نہ بس کے نیچے
نہ کہیں جنازہ اٹھتا، نہ کوئی مزار ہوتا
شاعر کہہ رہا ہے کہ تجھ سے مایوس ہو کر بس کے نیچے آنے کے لیے کھڑا ہوگیا مگر عین اسی لمحے میری اور تیری زندگی کے پہلے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا. بس کے نیچے آنے سے شاید بچ جاتا، اب کورونا سے مرا تو تجھے رحم بھی نہ آئے گا!ہوئے مر کے ہم جو پیچھے، ہوئے کیوں نہ بس کے نیچے
نہ کہیں جنازہ اٹھتا، نہ کوئی مزار ہوتا
اس شعر میں شاعر اپنی کپکپی کی حالت کی وضاحت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ معلوم نہیں میں خوشی سے کانپ رہا ہوں یا شدتِ غم سے. ہوا بھی کچھ کم سرد نہیں، تیرا (ڈراؤنا) خیال بھی مزید کپکپی طاری کر رہا ہے. میں یہ سوچ سوچ کر مزید کانپ رہا ہوں کہ آخر مجھے کانپنے کی درست وجہ کا علم کیوں نہیں ہو رہا!کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
پروین شاکر مرحومہ اگر زندہ ہوتیں تو انہوں نے آپ کو چھوڑنا نہیں تھا۔ بہر حال آگے چلتے ہیں۔اس شعر میں شاعر اپنی کپکپی کی حالت کی وضاحت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ معلوم نہیں میں خوشی سے کانپ رہا ہوں یا شدتِ غم سے. ہوا بھی کچھ کم سرد نہیں، تیرا (ڈراؤنا) خیال بھی مزید کپکپی طاری کر رہا ہے. میں یہ سوچ سوچ کر مزید کانپ رہا ہوں کہ آخر مجھے کانپنے کی درست وجہ کا علم کیوں نہیں ہو رہا!