دیئے گئے شعر کی دھنائی کریں

حاظرین و ناظرین! اب اشعار کی دھنائی فقط تشریح کے ہتھیار سے نہیں کی جائے گی بلکہ آپ کے قیمتی وقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مناسب تلخیص سے آراستہ بھی کِیا جائے گا!
 
اگلا شعر

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
اس شعر میں شاعر غیر شادی شدہ افراد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی بلکہ پیتل، تانبا، لوہا وغیرہ قسم کے اور بہت سے روپ ایک ساتھ رکھتی ہے. جب تم سب میرے جیسی غلطی کرنے لگو تو دیکھ پرکھ کر کرنا! :)

اگلا شعر:
تمام رات میرے گھر کا ایک در کھلا رہا
میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا
 

La Alma

لائبریرین
اس شعر میں شاعر غیر شادی شدہ افراد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی بلکہ پیتل، تانبا، لوہا وغیرہ قسم کے اور بہت سے روپ ایک ساتھ رکھتی ہے. جب تم سب میرے جیسی غلطی کرنے لگو تو دیکھ پرکھ کر کرنا! :)

اگلا شعر:
تمام رات میرے گھر کا ایک در کھلا رہا
میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا
گھر کی ملازمہ چوروں کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ آدھی رات کو اس نے گھر کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ لیکن چور کسی اور گھر کا صفایا کر کے چلے گئے۔
 

La Alma

لائبریرین
وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے
 

شمشاد خان

محفلین
وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے

یہ شاعر اتنا تن آسان ہے کہ اٹھ کے پانی بھی نہ پیتا تھا۔ اب محشر میں جب کُل آدم اکٹھی ہو گی، تو شور تو ہو گا ہی، اس سے اتنا بھی برداشت نہیں ہو رہا۔ ہڈ حرام لگتا ہے پورا۔

بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
(ساحر لدھیانوی)
 
وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے
اس شعر کے دوسرے مصرع میں گور ٹائپو ہے. شاعر دراصل مشرقی پابندیوں سے تنگ آ کر گورے کے پاس گیا تاکہ باقی کی زندگی سکون کی گزر سکے مگر گورے نے وہاں حشر بپا کر کے اس کی ناک میں دم کیے رکھا.

اگلا شعر
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
 

شمشاد خان

محفلین
شاعر کسی بہت ہی پرانے اور پھٹیچر سے ٹرک میں بیٹھا ہے جو بار بار خراب ہو کر رک جاتا ہے، لوگوں کو اکٹھا کر کے دھکا لگانے کا کہتا ہے لیکن مجال ہے کہ ٹرک ایک انچ بھی آگے بڑھے، اسی لیے وہ اپنے آپ کو کوہ گراں سمجھتا ہے، اور جو ٹرک چل پڑے تو کسی کے اوپر سے ہی گزر جائے تو اس کی تو جان گئی ناں۔ اب وہ ہر قدم پر یادگار یا مزار تو بنانے سے رہا۔

بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
(ساحر لدھیانوی)
 

La Alma

لائبریرین
بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
شاعر بچپن سے ہی کھسکا ہوا تھا۔ اسے بھولنے کی بیماری بھی تھی۔ لیکن اس بار تو حد ہو گئی۔ بیوی نے دہی لینے کے لیے بھیجا تو جھاڑو لے آیا۔ اب اسی جھاڑو سے شاعر کی دھنائی ہو رہی ہے تو وہ بیوی کو منانے کے لیے یہ شعر پڑھ رہا ہے۔
 

شمشاد خان

محفلین
شاعر پرلے درجے کا کم چور اور سُست روی کا شکار ہے، غالباً بھنگ یا افیون کا نشہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بس یار کا ہی خیال رہتا ہے اور مجھے باقی جہان سے کیا اور بہانہ عشق کا بنا کر دوسروں کو ٹرخا رہا ہے۔

ہے عجب نظام زکوٰۃ کا مرے ملک میں مرے دیس میں
اسے کاٹتا کوئی اور ہے اسے بانٹتا کوئی اور ہے
(ضیاء الحق قاسمی)
 
شاعر پرلے درجے کا کم چور اور سُست روی کا شکار ہے، غالباً بھنگ یا افیون کا نشہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بس یار کا ہی خیال رہتا ہے اور مجھے باقی جہان سے کیا اور بہانہ عشق کا بنا کر دوسروں کو ٹرخا رہا ہے۔

ہے عجب نظام زکوٰۃ کا مرے ملک میں مرے دیس میں
اسے کاٹتا کوئی اور ہے اسے بانٹتا کوئی اور ہے
(ضیاء الحق قاسمی)
اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے اگر ہم شرمندہ سے ہو رہے ہیں مگر ہمیں لگتا ہے کہ کسی فصل کی کٹائی کی بات ہو رہی ہے اور یہ وہ کھیت ہے جس سے دہقاں کو بھی روزی میسر نہی‍ں ہوتی. :)

آگے بڑھتے ہیں:
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
 

شمشاد خان

محفلین
شاعر اکثر مختلف بازیوں پر شرطیں لگاتا رہتا ہے، اس دفعہ وہ کسی عشق کی بازی پر شرط لگا رہا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں جیت گیا تو کیا کہنے اور اگر ہار گیا تو میں نے کون سا مان لینا ہے، کیونکہ کاں چٹا ای اے۔

میں نے یہ کہا کب کہ منانے کے لیے آ
مجھ کاٹھ کے الو کو پھنسانے کے لیے آ
(محمد یوسف پاپا)
 
میں نے یہ کہا کب کہ منانے کے لیے آ
مجھ کاٹھ کے الو کو پھنسانے کے لیے
اس شعر کا شاعر اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جب خود شناسی اور محبوب شناسی کی تمام گرہیں کھل چکی ہوتی ہیں. شاعر کو معلوم ہے کہ محبوب کو اسے منانے سے کوئی غرض نہیں اس لیے خود ہی الو بن کر محبوب کے آنے کے راستہ ہموار کرتے ہوئے خود کو مزید الو بنایا جا رہا ہے. :)
اگلا شعر:

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
 

شمشاد خان

محفلین
شاعر کہتا ہے کہ میں جو کچھ بھی دیکھتا ہوں اگر بتا دوں تو کسی نے ماننا ہی نہیں۔ ایک دفعہ اس نے ایک بڑی شخصیت کو جرم کرتے دیکھا تھا اور اس نے جا کر پولیس والوں کو بتا دیا تھا، لیکن پولیس والے مانے ہی نہیں، الٹا اس شخصیت نے اس کی ڈنڈوں اور جوتوں سے خبر گیری کی تھی، اس کے بعد اس نے نصیحت پکڑ لی تھی جو ایسا کہہ رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے مزید کہہ رہا ہے کہ اگر یہی کچھ ہوتا رہا تو دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔

آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
(بشیر بدر)
 
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
شاعر دراصل پانی سے محبت کی بڑی بڑی بڑھکیں تو مارتا ہے مگر کشتی ذرا سے گہرے پانی میں جانے لگے تو مگرمچھ سے ڈرتا ہے. شاعر کو معلوم نہیں تھا کہ آنکھوں کے پانی کے نیچے ہڑپنے کے لیے کوئی مگرمچھ نہیں ہوتا بلکہ ڈسنے کے لیے دل کا ناگ ہوتا ہے. تاہم، شاعر کی بچت ہوگئی، پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں!

اگلا شعر:
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
 
Top