مریم افتخار
محفلین
جاسم محمد اس شعر کہ تشریح آپ کریں.قورمے کے تھال میں ہم کو نظر آیا کباب
گلشنِ اردو میں کھل آیا ہے انگلش کا گلاب
(فقیر سعادت علی ثانی مرادآبادی)
جاسم محمد اس شعر کہ تشریح آپ کریں.قورمے کے تھال میں ہم کو نظر آیا کباب
گلشنِ اردو میں کھل آیا ہے انگلش کا گلاب
(فقیر سعادت علی ثانی مرادآبادی)
شاعر کہہ رہا ہے کہ اب دیسی مٹھائی کی دکان سے ولایتی چاکلیٹ بھی ملے گی۔قورمے کے تھال میں ہم کو نظر آیا کباب
گلشنِ اردو میں کھل آیا ہے انگلش کا گلاب
یہ دھنائی تو نہیں ہوئی، یہ تو صرف ڈرائی کلین کر کے ٹرخا دیا گیا ہے۔شاعر کہہ رہا ہے کہ اب دیسی مٹھائی کی دکان سے ولایتی چاکلیٹ بھی ملے گی۔
اس شعر میں شاعر غیر شادی شدہ افراد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی بلکہ پیتل، تانبا، لوہا وغیرہ قسم کے اور بہت سے روپ ایک ساتھ رکھتی ہے. جب تم سب میرے جیسی غلطی کرنے لگو تو دیکھ پرکھ کر کرنا!اگلا شعر
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
گھر کی ملازمہ چوروں کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ آدھی رات کو اس نے گھر کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ لیکن چور کسی اور گھر کا صفایا کر کے چلے گئے۔اس شعر میں شاعر غیر شادی شدہ افراد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی بلکہ پیتل، تانبا، لوہا وغیرہ قسم کے اور بہت سے روپ ایک ساتھ رکھتی ہے. جب تم سب میرے جیسی غلطی کرنے لگو تو دیکھ پرکھ کر کرنا!
اگلا شعر:
تمام رات میرے گھر کا ایک در کھلا رہا
میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا
اس شعر کے دوسرے مصرع میں گور ٹائپو ہے. شاعر دراصل مشرقی پابندیوں سے تنگ آ کر گورے کے پاس گیا تاکہ باقی کی زندگی سکون کی گزر سکے مگر گورے نے وہاں حشر بپا کر کے اس کی ناک میں دم کیے رکھا.وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے
شاعر بچپن سے ہی کھسکا ہوا تھا۔ اسے بھولنے کی بیماری بھی تھی۔ لیکن اس بار تو حد ہو گئی۔ بیوی نے دہی لینے کے لیے بھیجا تو جھاڑو لے آیا۔ اب اسی جھاڑو سے شاعر کی دھنائی ہو رہی ہے تو وہ بیوی کو منانے کے لیے یہ شعر پڑھ رہا ہے۔بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے اگر ہم شرمندہ سے ہو رہے ہیں مگر ہمیں لگتا ہے کہ کسی فصل کی کٹائی کی بات ہو رہی ہے اور یہ وہ کھیت ہے جس سے دہقاں کو بھی روزی میسر نہیں ہوتی.شاعر پرلے درجے کا کم چور اور سُست روی کا شکار ہے، غالباً بھنگ یا افیون کا نشہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بس یار کا ہی خیال رہتا ہے اور مجھے باقی جہان سے کیا اور بہانہ عشق کا بنا کر دوسروں کو ٹرخا رہا ہے۔
ہے عجب نظام زکوٰۃ کا مرے ملک میں مرے دیس میں
اسے کاٹتا کوئی اور ہے اسے بانٹتا کوئی اور ہے
(ضیاء الحق قاسمی)
اس شعر کا شاعر اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جب خود شناسی اور محبوب شناسی کی تمام گرہیں کھل چکی ہوتی ہیں. شاعر کو معلوم ہے کہ محبوب کو اسے منانے سے کوئی غرض نہیں اس لیے خود ہی الو بن کر محبوب کے آنے کے راستہ ہموار کرتے ہوئے خود کو مزید الو بنایا جا رہا ہے.میں نے یہ کہا کب کہ منانے کے لیے آ
مجھ کاٹھ کے الو کو پھنسانے کے لیے
شاعر دراصل پانی سے محبت کی بڑی بڑی بڑھکیں تو مارتا ہے مگر کشتی ذرا سے گہرے پانی میں جانے لگے تو مگرمچھ سے ڈرتا ہے. شاعر کو معلوم نہیں تھا کہ آنکھوں کے پانی کے نیچے ہڑپنے کے لیے کوئی مگرمچھ نہیں ہوتا بلکہ ڈسنے کے لیے دل کا ناگ ہوتا ہے. تاہم، شاعر کی بچت ہوگئی، پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں!آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا