مریم افتخار
محفلین
آپ کے ہم نام نے بھی برسوں پہلے ایسا ہی کچھ کہا تھا.ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
اس شعر کی دھنائی ہمارے سعود بھیا نے یوں کر کے قلم توڑ دیا!ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
چلیں اب اس کی تشریح کریں۔
یہاں شاعر یا کاتب یا پھر دونوں سے کچھ غلطی ہوئی لگتی ہے۔ غالباً شاعر نے "بے زر" کو غلطی یا ضرورت شعری کے تحت "بے زار" کہہ دیا اور ان کے کل وقتی کاتب اسے "بیزار" لکھ گئے۔
خیر یہ شعر مشہور صرّاف مشتاق زر اندوزی کا ہے۔ قصہ یوں ہے کہ وہ کسی مغالطے کے تحت کسی کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور بعد میں پتہ چلا کہ معشوقہ محض آٹھ گرام سونے کی انگوٹھی، سوا دو تولہ چاندی کی پائل اور ایک سو بارہ روپے نقد سکہ رائج الوقت کی مالکہ ہیں۔ اس پر جناب نے کف افسوس ملتے ہوئے مندرجہ بالا اشعار کہے۔
ویسے تک بندی کی جائے تو:
جب یہ گیہوں ہے اور وہ ہے دھان
پھر یہ مکئی اور باجرہ کیا ہے
اگلا شعر:
تم تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟