کتنے دل تھے جو ہو گئے پتھردل
تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا
وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا
داغ
پتھر
صنم خانے سے اٹھ کعبے گئے ہمکتنے دل تھے جو ہو گئے پتھر
کتنے پتھر تھے جو صنم ٹھہرے
صنم
اعتبارِ وعدہ ہائے مردمَ دنیا غلطکتنے دل تھے جو ہو گئے پتھر
کتنے پتھر تھے جو صنم ٹھہرے
صنم
یارب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتاضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
احسان دانش
گرچہ سو بار غم ہجر سے جاں گزری ہے.یارب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پہ ہے وہ دستِ دعا ہوتا
تیرے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہےوہ مزہ دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے صاحب
مرے دونوں پہلوؤں میں دل بے قرار ہوتا
پہلو
میں تری سلطنت حسن کا باشندہ ہوںتیرے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے
میری دنیا ہے یہی مجھ کو یہیں رہنا ہے!!!!!
دنیا
میں تری سلطنت حسن کا باشندہ ہوں
مجھ کو دنیا میں کہیں اور نہیں رہنا ہوں
حسن
محترمہ مومن فرحین صاحبہحسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اڑ کے چلا پروانہ بھی
قوت تعمیر تھی کیسی خس و خاشاک میںمحترمہ مومن فرحین صاحبہ
آپ نے لفظ نہیں دیا (شعلہ) میں نے خود چُن لیا
بدن ملبوس میں شعلہ سا اک لرزاں قرین جاں
دل خاشاک بھی شعلہ ہوا جلتا رہا میں بھی
اکرم نقاش
خاشاک
اسیری نے چمن سے میرے دل گرمی کو دھو ڈالاقوت تعمیر تھی کیسی خس و خاشاک میں
آندھیاں چلتی رہیں اور آشیاں بنتا گیا
جاں نثار اختر
آشیاں
برق سے کھیلنے طوفان پہ ہنسنے والےاسیری نے چمن سے میرے دل گرمی کو دھو ڈالا
وگرنہ برق جاکر آشیاں میرا جلا آوے
(میر تقی میر)
برق
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہےبرق سے کھیلنے طوفان پہ ہنسنے والے
ایسے ڈوبے ترے غم میں کہ ابھر بھی نہ سکے
ڈوبے
ابو محمد سحر
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
احمد مشتاق
خامشی