عامر گولڑوی
محفلین
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھیکسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
شاعر کا نام نہیں معلوم
عمل
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
فطرت
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھیکسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
شاعر کا نام نہیں معلوم
عمل
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھیکسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
شاعر کا نام نہیں معلوم
عمل
یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہےعمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
فطرت
ہم تو مالک ہی کہیں گے کہ ہوں مالک کے حبیبیہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے
محبوب
زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کہتے ہیںعمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے ناری ہے
نوری
زمین روک پائی نہ رکا ہوں آسماں سےزمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کہتے ہیں
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے
اقبال
زمین
پہلی سیڑھی پر قدم رکھ آخری سیڑھی پہ آنکھزمین روک پائی نہ رکا ہوں آسماں سے
تری جستجو میں گزرا میں حدود لا مکاں سے
جستجو
آنکھیں تو کہیں تھیں دلِ غم دیدہ کہیں تھاپہلی سیڑھی پر قدم رکھ آخری سیڑھی پہ آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو
آنکھ
اونچا نہ کیاسر فلک ماہ جبیں نےآنکھیں تو کہیں تھیں دلِ غم دیدہ کہیں تھا
کس رات نظر کی ہے سوئے چشمکِ انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا
ماہ جبیں
تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیںآتي ہے دم صبح صدا عرش بريں سے
کھويا گيا کس طرح ترا جوہر ادراک!
علامہ اقبال
جوہر
میکدے کو جا کے دیکھ آؤں یہ حسرت دل میں ہےتربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
گِل
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکنسیکھ دنیا ہی میں زاہد حور سے ملنے کے ڈھنگ
ورنہ روئے گا کہ جنت میں بھی رسوائی ہوئی
جنت
حقیقت خرافات میں کھو گئیہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
حقیقت
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میںہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
حقیقت
ڈھونگ اور منافقت کی روایات پر ہنسوںحقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی
خرافات
اب کے ہوا لے ساتھ ہے دامن یار منتظرکبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
منتظر