محمد یعقوب آسی
محفلین
بہت مشکل کر دیا، جنابِ سخن وَر !
جمادات
جمادات
بہت مشکل کر دیا، جنابِ سخن وَر !
جمادات
عشق ہے ارض و سماوات، عشق ہے جمادات و نباتات
عشق ہے معراج انسانیت، عشق ہے اشرف المخلوقات
معراج
نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالب
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز
(چچا)
خاک
ہم عشق میں یوں بے باک ہوئے، سو بار گریباں چاک ہوئے
اب راہِ طلب میں خاک ہوئے، اس خاک کو تو برباد نہ کر
گریبان
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میںخاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں(غالب)۔ دائم
حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ!جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا(غالب)۔ حیف
حیف شرمندہ نہیں تُو ستم آراء ہوکر
ہم پہ کرتا ہے ستم یار ہمارا ہوکر
شرمندہ
ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنامبس کہ روکا میں نے اور سینے میں اُبھریں پَے بہ پَےمیری آہیں بخیئہ چاکِ گریباں ہو گئیں(چچا)آہ
ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہسوائے حسرتِ تعمیر۔ گھر میں خاک نہیں
(چچا)
گھر
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہسوائے حسرتِ تعمیر۔ گھر میں خاک نہیں
(چچا)
گھر
ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرےگھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتابحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا(غالب)۔بیاباں
ہنستی آنکھیں، نکھرا چہرا، اک مجبور بہانہ ہےویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوںشرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے
(فراز)
ویرانہ
آیا ہے ترے ہجر کے آزار کا موسموہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میںوہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا
(منصور آفاق)
موسم
آیا ہے ترے ہجر کے آزار کا موسم
پھر اترا مرے ذہن پہ اشعار کا موسم
آزار