سید شہزاد ناصر
محفلین
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غالب
اطفال
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غالب
اطفال
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گاابھی سورج نہیں ڈوبا ذرا سی شام ہونے دو
میں خود ہی لوٹ جاؤں گا مجھے ناکام ہونے دو
شام
اے فقیرو! گلی کے اسگلکیبدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
فقیر
آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفالبازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غالب
اطفال
اسے کہتے ہیں صحیح معنوں میں بے ایمانٹی۔
اکڑ بکڑ بمبے بو۔۔۔
اکڑ بکڑ بمبے بو۔۔۔
مجھے سمجھ نہیں آیا کس لفظ سے اگلا شعر لکھوں تو اس لیئے اکڑ بکڑ کر رہی تھی۔اسے کہتے ہیں صحیح معنوں میں بے ایمانٹی۔
میں خالی ہات ہی جا پہنچا اُس کی محفل میںاس نقشِ پا کے سجدہ نے بھی کیا کیا کیا ذلیل
کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گئے
قابل رشک ہے پندارِ تعیش کے لیےہم اداس تھے کچھ اور اداس ہوگئے
اس بار وہ جو آئے مری محفل میں
اداس
وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوزاداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئی
بہار ایک خلش سی دلوں میں چھوڑ گئی
خلش
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیاکوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
دل