کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کے مانند
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پہ نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سناتے تھے جو ہم سے دور تھے لیکن
ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت جب کریں کے ساتھ
آنگن میں اُتارتی تھی تو تم کہتے تھے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم کو
جگنو کی تِتلیاں کے دیس جانا ہے
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بولتی ہے ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
اب
باسی