شمشاد
لائبریرین
صیاد ہمکو لے تو گیا لالہ زار مین
پردہ قفس کا پر نہ اُٹھایا بہار مین
گنتا نہین جو اپنے غلامون مین مجھکو تو
لاتا نہین مین اپنے تئین بھی شمار مین
دل لیوین جس غریب کا اُس سے نہ پھر ملین
دیکھ عجب خدائی بتون کی دیار مین
آنا جو ہو تو ویسی ہی کہ اور نہین تو خیر
دل کو مرے جلا نہ عبث انتظار مین
تھا ہجر ہی بھلا کہ ہمین تھی امید وصل
پھر ہجر کا خیال بندھا وصل یار مین
دیوانے گاہ رخ کے رہے گاہ زلف کے
یہ عمر کٹ گئی اسی لیل و نہار مین
فرہاد و قیس و وامق و محمود ہون جدھر
ہم بھی رہین الٰہی اُنھون کی قطار مین
سو بار یونہین کہتا رہا ہان بھلا بھلا
سچا ہوا نہ پر کبھی قول و قرار مین
پھر اب جو وعدہ کرتا ہے تو کہہ تو اے عزیز
لاؤن مین کیونکہ بات تری اعتبار مین
ابتو غبار دل سے کہین صاف کر کہ بس
باقی نہین ہے خاک بھی اس خاکسار مین
گلشن مین بھی نہوویگی ایسی بہار تو
جیسے کہ ہے بہار دلِ داغدار مین
کل مین کہا بتان سے کہ دل لے چکو مرا
آوے قرار تا کہین اس بیقرار مین
کہنے لگا دوانا ہے چل چل خبر لے تو
لاتا ہے کون تیرے تئین یان شمار مین
بے اختیار اپنا تو جی لگ پڑے ہے وان
رہتا ہے ہمکو دیکھ کے جو اختیار مین
یون دل جو آپ سے کوئی دیوے تو لطف کیا
آ جائے ہان ہمارے جو کوئی رہگذار مین
تو تو ہم اُسکا دین و دل و صبر لوٹ لین
پھر سو مین خواہ ہوے کہ یا وہ ہزار مین
پوچھا جو مین سبب تو کہا مول لیکے صید
گر ذبح کیجیے تو نہین اعتبار مین
اُڑتے ہوے کو جب تئین لاوین نہ دام مین
تب تک مزا ہمین نہین آتا شکار مین
یہ گرد باد خاک پہ میرے نہین حسن
مین ڈھونڈھتا ہون آپ کو اپنے غبار مین