شمشاد
لائبریرین
دامن کو اُسکے کھینچین اغیار سب طرف سے
اور آہ ہم یہ کھینچین آزار سب طرف سے
جب کام دل نہ ہرگز حاصل ہوا کہین سے
دل کو اُٹھا کے بیٹھے ناچار سب طرف سے
جی چاہتا ہے اُسکے کوچہ مین بیٹھ رہیے
کر ترک آشنائی یکبار سب طرف سے
تجھ پاس بھی نہ آوین ہم اب تو جائین کیدھر
تو نے تو ہمکو کھویا اے یار سب طرف سے
مژگان سے اُسکے کیونکر دل چھٹ سکے ہمارا
گھیرے ہوے ہین اُسکو وے خار سب طرف سے
پردے ہزار ہووین حائل پہ حسن اُسکا
دیتا ہے طالہون کو دیدار سب طرف سے
کونا بھی ایک دل کا ثابت نہین یہ کسنے
اس گھر کو کر دیا ہے مسمار سب طرف سے
نالہ ضعیف اپنا پہونچیگا کیونکہ وانتک
کی ہے بلند اُسنے دیوار سب طرف سے
اکبار تو عزیزان تم مل کے حال میرا
کر بیٹھو اُسکے آگے اظہار سب طرف سے
دیوانہ ہو کے چھوٹا دنیا سے ورنہ یاران
ہوتے گلے کے میرے تم ہار سب طرف سے
وے دن بھی آہ کوئی کیا تھے کہ جن دنون مین
دل کو خوشی تھی اپنے دلدار سب طرف سے
بس تیرے غم مین آ کر اب خاک ہو گئے ہم
دل بجھ گیا ہمارا کبار سب طرف سے
ذکر وفا ؤ اُلفت مت چھیڑ بس حسن اب
جی ہو رہا ہے اپنا بیزار سب طرف سے