دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

دیکھکر باغ مین نگار کا رنگ
کٹ گیا رشک سے بہار کا رنگ

کچھ جو ٹھہرے تو تجھکو بتلا دون
اِس دلِ زار و بیقرار کا رنگ

رشک کھاوے ہے ابر ژالہ بار
دیکھ کر چشم اشکبار کا رنگ

ہجر کی شب ندیکھی ہو جسنے
وہ حسن دیکھے زلف یار کا رنگ​
 

شمشاد

لائبریرین

ہے بیکسی کے غم سے یہ ازبس بتنگ دل
کرتا ہے اپنے جی ہی سے پھر پھر کے جنگ دل

ہوتے ہی اُسکے سامنے کُچھ چُپ ہی رہگیا
رکھتا تھا اپنے جی میں یہ کیا کیا اُمنگ دل

کیا خاک اسے زیادہ طپش ہو گی عشق کی
دیکھے تو ہے ہمیشہ سے آتش کے رنگ دل

اس خو گرفتہ غم سے نپوچھ عیش کا نشان
رکھتا ہے اسکے نام سے بھی ابتو ننگ دل

مت سمجھیو تو داغ یہ ہین اسکی چشم وا
از بسکہ ہو رہا ہے تجھے دیکھ دنگ دل

رو رو کے مین ہی شمع صفت گُھل گیا حسن
پگھلا نہ میرے حالپہ ٹک بھی وہ سنگ دل​
 

شمشاد

لائبریرین

نتو آہ و نالہ ہی نکلے ہے نہ اُٹھے ہے کل سے صداے دل
تو خبر تو سینہ مین لے حسن کہین چل بسا نہو ہاے دل

جل ہی بجھتے کاشکے ایکبار تو جلنا ہوتا نہ ہر گھڑی
کوئی شعلہ دیتی قضا سے بلا ہمارے سینہ مین جائے دل

نہو تیغِ نالہ کے سامنے مرے غیر سینہ کوئی سپر
ںہ خدنگ آہ کے روبرو ہو نشانہ کوئی سوائے دل

جیئے کوئی کیونکہ بھلا تو کہیو اب ان بلاون کے ہاتھ سے
تری چشم ہے سوئے بلا جان تری زلف ہے سو بلائے دل

ٹک ایک آن ہی مین ادا و غمزے سے اُسکے کیسا یہ ملگیا
تجھے ہم نہ کہتے تھے اے حسن سو یہ دیکھی تو نے وفائے دل​
 

شمشاد

لائبریرین

بندھ گیا جسکا تیرے داغ سے دل
نہ کھلا اُسکا سیر باغ سے دل

جاگتے ہین نصیب آج ترے
اُسکے کوچہ مین سو فراغ سے دل

پیتے پیتے مدام خونِ جگر
بھر گیا آخر اس ایاغ سے دل

رشک صد شمع سو زہر ہو ہے
لگ گیا ہے یہ کس چراغ سے دل

رہ گئے جستجو سے ہم تری
نہ پھرا پر ترے سراغ سے دل

مُنھ لگایا ہے ٹک جو اُسنے حسن
آج پھرتا ہے کس دماغ سے دل​
 

شمشاد

لائبریرین

نہ غرض مجھکو ہے کافر سے نہ دیندار سے کام
روز و شب ہے مجھے اُس کاکل خمدار سے کام

باغ میں کوئی نہ لیجاؤ قفس کو میرے
مجھ کو گرفتار کے تئین کیا گل و گلزار سے کام

رستمی اپنی پر اب کیون نکرے رستمِ ناز
نہ پڑا اُسکو کبھی شوخ کی تلوار سے کام

تارِ کاکل کو ترے جانے ہین اک دین اپنا
اور نہ تسبیح سے مطلب ہے نہ زنار سے کام

دیکھیئے حق مین مرے کیا کرے اللہ حسن
آ پڑا ابتو مجھے اُس بتِ عیار سے کام​
 

شمشاد

لائبریرین

کیا کہین پوچھ مت کہین ہین ہم
تو جہان ہے غرض وہین ہین ہم

کیا کہین اپنا ہم نشیب و فراز
آسمان گاہ گہ زمین زمین ہین ہم

وہم مین اپنے تھے بہت کچھ لیکن
خوب دیکھا تو کچھ نہین ہین ہم

ہمکو ناکارہ جان مت لے لے
تیرے ہی نام کے نگین ہین ہم

مین جو پوچھا کہان ہو تم تو کہا
تجھکو کیا کام ہے کہین ہین ہم

اپنے عقدے کسی طرح نہ کھلے
کس دل آزار کی جبین ہین ہم

ہم نہ تیرِ شہاب ہین نہ سموم
نالہ و آہِ آتشین ہین ہم

بود و نابود مین غرض اپنے
جس طرح سے کہ ہمنشین ہین ہم

کیا کہین پوچھ مت بقول ضیاؔ
ایکدم ہین سو واپسین ہین ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

شمع سان شب کے میہمان ہین ہم
صبح ہوتے تو پھر کہان ہین ہم

تم بن اے رفتگانِ ملکِ عدم
ہستی اپنی سے سرگران ہین ہم

باغبان ٹک تو بیٹھنے دے کہین
آہ گم کردہ آشیان ہین ہم

دیکھتے ہین اُسی کو اہلِ نظر
گو نہان ہے وہ اور عیان ہین ہم

نہ کسی کی سُنین نہ اپنی کہین
نقشِ دیوار بوستان ہین ہم

جنس آسودگی نہین ہم پاس
درد اور غم کے کاروان ہین ہم

دل سے نالہ نکل نہین سکتا
یان تلک غم سے ناتوان ہین ہم

کیا کہین ہم حسن بقول ضیاؔ
جس طرح سے کہ اب یہان ہین ہم

داغ ہین کاروانِ رفتہ کے
نقشِ پائے گذشتان ہین ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

خانہ ویرونو کو ابتو کرتے ہو ناشاد تم
ملک دل کو کسکے کرتے ہو میان آباد تم

تم تو چھوٹے ہمصفیرو موسمِ گل مین بھلا
ہم تمھارے غم سے چھوٹے اور ہوے آزاد تم

ساتھ پھرنے سے ہمارے ابتو ہو ناخوش ولے
کوئی دن مین اس سین کو بھی کرو گے یاد تم

بس وہی اک نالہ بھر کر چپ رہا سو چپ رہا
اب بھی سنتے ہو کہین دل کی مری فریاد تم

خاک اُڑاتے اور ہم سر پھوڑتے آوین کدھر
اُٹھ گئے ہو کس طرف اے قیس اور فرہاد تم

اپنے کہنے مین تو دل مطلق نہین کس سے کہین
کیا کرین اے ناصحو کچھ تو کرو ارشاد تم

ملک خوبانین ملا انصاف کس کس کا حسن
کب تلک کرتے پھرو گے داد اور فریاد تم​
 

شمشاد

لائبریرین

فائدہ آنے سے ایسے آ کے پچتائین ہین ہم
اُٹھ گئے جب یان کے گذرے آہ تب آئین ہین ہم

اور کچھ تحفہ نتھا جو لاتے ہم تیرے نیاز
ایک دو آنسو تھے آنکھون مین سو بھر لائین ہین ہم

طرفہ حالت ہے نہ وہ آتا ہے نہ جاتا ہے جی
اور یہان بیطاقتی سے دل کی گھبرائین ہین ہم

جس طرف جاتے وہان لگتا نہین کیا کیجیئے
اس دلِ وحشی کے ہاتھوں سخت اُکتائین ہین ہم

دیکھیے اب کیا جواب آوے وہان سے ہمنشین
نامہ تو لکھکر حسن کا اُسکو پہونچائین ہین ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

زلف سے تھا ہی پہ کاکل نے دیا غم پر غم
پیچ پر پیچ پڑا در ہوا خم ہر خم

ندیان خون کی غمزون نے بہا دین دل مین
قاصدِ اشک مرے کہتے ہین آدم پر دم

کوہ و صحرا مین جو کل جا کے ترے بن رویا
سیل پر سیل چلے اور بہایم پریم

ایک تو تلخی جان تسپہ ترا زہر فراق
اس دلِ زار کو ملتا ہی رہا سم پر سم

اُس پریرو کی حسن پر ہوئی ہے شیخ نظر
کچھ تو کر تو بھی دعا پڑھ کے اُس آدم پر دم​
 

شمشاد

لائبریرین

نزع مین دیکھ کے تو مجھکو نرو دم پر دم
مرتے مرتے بھی مجھے اور ندے غم پر غم

تند خوئی کو ترے دیکھ کے ظالم نہوئے
ایک عالم ہی ہوا تجھسے تو برہم پر ہم

پیچ در پیچ تری زلف ہوئی ہے جب سے
رشتہ جان مین مرے پڑ گئے ہین خم پر خم

داغ دل ہے وہ کہ ہر ایک کو ہے اسکی فکر
کون اس زخم پہ رکھتا نہین مرہم پر ہم

یہ جو کہتے ہین نہین سو تو نہین لیکن حسن
رشتہِ دوستی بھی ہوتا ہے محکم پر کم​
 

شمشاد

لائبریرین

سوز دل کا ذکر اپنے مُنھ پر جب لاتے ہین ہم
شمع سان اپنی زبان سے آپ جل جاتے ہین ہم

دمبدم اُس شوخ کے آزُردہ ہو جانے سے آہ
جب نہین کچھ اپنا بس چلتا تو گھبراتے ہین ہم

بیٹھنے کو تو نہیں آئے ہین یان اے باغبان
کیون خفا ہوتا ہے اتنا ہمسے تو جاتے ہین ہم

دل سے ہم چھٹ جائین یا دل ہمسے چھٹ جاوے کمین
اسکے اُلجھیڑے سے ابتو سخت اُکتاتے ہین ہم

دل خدا جانے کدھر گم ہو گیا اے دوستان
ڈھونڈھ تے پھرتے ہین کبسے اور نہین پاتے ہین ہم

دونون دیوانے ہین کیا سمجھین گے آپس مین عبث
ہمکو سمجھاتا ہے دل اور دل کو سمجھاتے ہین ہم

یاد مین اُس گلبدن کی آج کل تو اے حسن
باغ مین پھر پھر کے اپنے دل کو بہلاتے ہین ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

بس دل کا غبار دھو چکے ہم
رونا تھا جو کچھ سو رو چکے ہم

تم خواب مین بھی نہ آئے پھر ہائے
کیا خواب مین عمر کھو چکے ہم

ہونے کے رکھین توقع اب خاک
ہونا تھا جو کچھ سو ہو چکے ہم

کہسار پہ چلکے روئیے اب
صحرا تو بہت ڈبو چکے ہم

پھر چھیڑا حسن نے اپنا قصہ
بس آج کی شب بھی سو چکے ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

جگرِ سوختہ ہین اور دلِ بریان ہین ہم
شعلہ کی طرح سدا دیدہ گریان ہین ہم

متصل لختِ جگر کرتے ہین آنکھون سے سدا
آہ کس عاشقِ غمدیدہ کی مژگان ہین ہم

کبھی ہنستے ہین کبھی روتے ہین جلتے ہین کبھی
گل ہین شبنم ہین کہ یا آتشِ سوزان ہین ہم

ہم مین ہی عالم اکبر ہوے گو جرم صغیر
مظہرِ جلوہ حق حضرتِ انسان ہین ہم

دہر پر شور ہے ہاتھون سے ہمارے اے آہ
آفرنیش مین مگر نالہ و افغان ہین ہم

فکر جمعیت دل ہمکو کہان آہ حسن
خاطر آشفتہ گیسوےِ پریشان ہین ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

دل غم سے ترے لگا گئے ہم
کس آگ سے گھر جلا گئے ہم

ماتم کدہ جہان مین چون شمع
رو رو کے جگر بہا گئے ہم

مانندِ حباب اس جہان مین
کیا آئے تھے اور کیا گئے ہم

کھویا گیا اسمین گو دل اپنا
پر یار تجھے تو پا گئے ہم

آتا ہے یہی تو ہمکو رونا
یون موت کا غم بھلا گئے ہم

افسانہ سر گذشت چون شمع
رو رو کے بہت سُنا گئے ہم

تھا ہم مین اور اُسمین وہ جو پردہ
سو اُسکو حسن اُٹھا گئے ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

جب اُدھر دے بندہ پرور اپنے لاتے ہین قدم
اپنے ہم آنکھون سے تب اُنکے لگاتے ہین قدم

اُسکے جب کوچہ مین جاتے ہین تو ہے وان کی چال
سو بہانے کرتے ہین جب اک اُٹھاتے ہین قدم

کیون نہ ہم اپے قدمبوس آپ ہون اے ہمنشین
جانتا ہے تو یہ کس کوچہ سے آتے ہین قدم

ناتوانی سے کبھی یارب نہووین یہ دوچار
گرد اُسکے یہ مجھے لیکر پھر آتے ہین قدم

گرم رو ہین وہ جو اس میدان کے مانندِ شمع
مجھکو آوارہ یہ پھر پھر کر بناتے ہین قدم

یہ تو انکا سر پہ ہے احسان میرے اے حسن
مجھکو کس کس ملک کی سیرین دکھاتے ہین قدم​
 

شمشاد

لائبریرین

آن کر غمکدہ دھر مین جو بیٹھے ہم
شمع سان اپنے تئین آپ ہی رو بیٹھے ہم

عشق کے ہاتھ سے کشتیِ شکستہ کی طرح
آپ اپنے تئین رو رو کے ڈبو بیٹھے ہم

گر یہی تیرے اشارے مین تو مجلس سے تری
کوئی نہ کوئی آ کے اُٹھا دیویگا گو بیٹھے ہم

تم جو اُٹھنے کو ہوے تھے تو چلے تھے ہم بھی
اب جو یون آپ کی مرضی ہے تو لو بیٹھے ہم

سینہ خالی نہین ہوتا ہے نہ تھمتے ہین اشک
کب سے روتے ہین دلِ خونشدہ کو بیٹھے ہم

غیر کہتے ہین کہ ہم بیٹھنے دیوینگے نہ یان
ابتو اس ضد سے جو کچھ ہووے سو ہو بیٹھے ہم

اشک آنکھوں سے تو معدوم ہوے تھے کد کے
ہاتھ اب گریہ خونی سے بھی دھو بیٹھے ہم

اور تو کچھ نہین یان اتنا خفا ہوتے ہو کیون
کیا ہوا آپ کے نزدیک جو ہو بیٹھے ہم

آرزو دل کی برائی نہ حسن وصل مین اور
لذتِ ہجر کو بھی مفت مین کھو بیٹھے ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

جب سے تیرے در پہ آ بیٹھے ہین ہم
اپنے جیسے ہاتھ اُٹھا بیٹھے ہین ہم

اُٹھ گئے اس بزم سے کیا کیا رفیق
بیخر افسوس کیا بیٹھے ہین ہم

دیکھیے مارے پڑین یا بچ رہین
اُس نگہ سے دل لگا بیٹھے ہین ہم

برق مت ہو تند گُل کی آگ سے
خانمان اپنا جلا بیٹھے ہین ہم

ناصحا جا اسگھڑی مت بول تو
جان سے اپنی خفا بیٹھے ہین ہم

چون چراغِ صبح گاہی اے نسیم
عازم ملک فنا بیٹھے ہین ہم

اُٹھین گے آخر گو کوچے سے ترے
رہنے دے اکدم ذرا بیٹھے ہین ہم

کیون نہ ہم افسوس سے روئین حسن
خاک مین دل کو ملا بیٹھے ہین ہم​
 

شمشاد

لائبریرین

صیاد کی مرضی ہے کہ اب گل کی ہوس مین
نالے نکرین مرغ گرفتار قفس مین

اک وقت مین تھی نالہ مجنون سے ہم آواز
اب تک ہے اثر اسلیئے آوازِ جرس مین

اِس ملنے سے ہو دل کو بھلا کیونکہ تسلی
اکبار کہین چھپ کے ملے لاکھ برس مین

رسمین ہین عجب ملک مین خوبان کے یہ ہمدم
سم دیتے ہین الفت مین جسے چاہے ہین رس مین

دم رُکتا ہوا آتا ہے لب تک مرے غم سے
عقدے ترے ہین بسکہ مرے تارِ نفس مین

دل اپنا انھین باتون سے اُٹھ جاتا ہے تجھسے
جا بیٹھے ہے تو مل کو جو ہر ناکس و کس مین

وہ اور زمانہ تھا کہ کوبان مین تھی اُلفت
ایسا نظر آتا نہین اب ایک بھی دس مین

پھر کل کے تو وعدے کی قسم کھانے لگا آج
کیا بھول گئین اپنی تجھے کل کی وہ قسمین

اشکون سے نہو کیونکہ حسن رازِ دل افشا
پانی کے چھڑکنے ہی سے بو ہوتی ہے خس مین​
 

شمشاد

لائبریرین

گل ہی زخمی بہار کے ہاتھون
دل ہے صد چاک یار کے ہاتھون

دمبدم قطع ہوتی جاتی ہے
عمر لیل و نہار کے ہاتھون

جان بلب ہو رہا ہون مثلِ حباب
مین ترے انتظار کے ہاتھون

ایکدم بھی ملا نہ ہمکو قرار
اِس دلِ بیقرار کے ہاتھون

اپنی سرگشتگی کبھی نہ گئی
گردشِ روزگار کے ہاتھون

اِک شگوفہ اُٹھے ہے روز نیا
اِس دلِ داغدار کے ہاتھون

دلپہ کیا کیا ہوے ہین نقش و نگار
ناوکِ دلفگار کے ہاتھون

ہو رہا ہے خراب خانہ دل
دیدہ اشکبار کے ہاتھون

گر کبھی لگ گیا ترا دامن
میری مشتِ غبار کے ہاتھون

چھوٹنا ہے پھر اِسکا امرِ محال
اس ترے خاکسار کے ہاتھون

اِک دلِ خار خار ہون مین حسن
اپنے اِس گلعذار کے ہاتھون​
 
Top