شمشاد
لائبریرین
کمی جس جا کرے بارش تو یہ کہدیجو دہقان کو
کہ اپنی کشت پر لیجائے میری چشم گریان کو
بھلا اے اشک دریا جوش کیا کہیے تری دولت
جو سنتے تھے سو دیکھا اپنی آنکھون ہمنے طوفان کو
زمین پر اُگنے سے سنبل کے ہمکو یون ہوا ظاہر
کہ گاڑا ہے فلک نے یان کسی خاطر پریشان کو
بھڑک معلوم ایسے رنگ گل مین باغبان سچ کہ
لگی ہے آگ نالہ سے یہ کسکی اس گلستان کو
کھلے ہے وہ صبا سے اور یہ تیری تیغ کے دم سے
مقابل گل سے کیونکر کیجے اپنے زخم خندان کو
نہین ملتا کوئی ہمدم کہ نالے کیجئے ملکر
لگی قسمت سے میری یک قلم آتش فشان کو
دلِ صد پارہ میرے کی تو پہلے فکر کر ناصح
رفو کیجو پھر اسکے بعد تو چاکِ گریبان کو
حسن جی چاہتا ہے روئے پڑھ کوئی غزل ایسی
بھرا ہو جسکے ہر مصرع مین سوز و درد حرمان کو