شمشاد
لائبریرین
اس دل مین اپنی جان کبھی ہے کبھی نہین
آباد یہ مکان کبھی ہے کبھی نہین
غیرون کی بات کیا کہون اُسکی تو یاد مین
اپنا بھی مجھکو دھیان کبھی ہے کبھی نہین
وہ دن گئے جو کرتے تھے ہم متصل فغان
اب آہِ ناتوان کبھی ہے کبھی نہین
جس آن مین رہے تو اُسے جان منتنم
یان کی ہر ایک آن کبھی ہے کبھی نہین
ایام وصل پر تو بھروسا نہ کیجیو
یہ وقت میری جان کبھی ہے کبھی نہین
عادت جو ہے ہمیشہ سے اُسکی سو ہے غرض
وہ ہمپہ مہربان کبھی ہے کبھی نہین
اس دوستی کا تیری تلون مزاجی سے
اپنے تئین گمان کبھی ہے کبھی نہین
مغرور ہو جیو نہ اس اوج و حشم پہ تو
یان کی یہ عز و شان کبھی ہے کبھی نہین
عاشق کہین ہوا ہے حسن کیا ہے اسکا حال
یہ آپ مین جوان کبھی ہے کبھی نہین