شمشاد
لائبریرین
ہے جاے حذر ڈریو ذرا چشم بتان سے
ہر پل مین نیا فتنہ اک فتنہ اک اُٹھتا ہے یہان سے
دل پاس نہین میرے نہ کچھ کہ مجھے ناصح
اسوقت تو بیزار ہون مین اپنی بھی جان سے
وان کی نہ سرائت نہ یہان آگ بجھائی
کچھ ہمکو تو حاصل نہوا اشک روان سے
اُٹھنا ترے کوچہ ہی سے دشوار ہے ورنہ
آسانی تو اُٹھنا ہے بہت ہمکو جہان سے
کسکا کرین ہم شکوہ کہ چون شمع یہان تو
جو سر پہ بلا آئی سو اپنی ہی زبان سے
آنا تو یہانکا کیا موقوف ہے تمنے
پر خیر و خبر اپنی تو بھیجا کرو وان سے
نہ رنگ ہی مُنھ پر ترے نہ دل ہے ترے پاس
سچ کہیو حسن آج تو آتا ہے کہان سے