دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

ہمسے کر تو کہ یا نکر اخلاص
ہمکو ہے تجھسے یار پر اخلاص

اپنے مخلص کی بات کا ہرگز
مت بُرا مان ہے اگر اخلاص

میرے اور اُسکے کیونکہ صحبت ہو
پنبہ سے کب رکھے شرر اخلاص

خون ہو کر بھی تیری طرف بہے
تجھسے رکھے تھے دل جگر اخلاص

ہے غنیمت رہے جو کوئی دن
ہم مین اور اُسمین یکدگر اخلاص

وہ نہین وقت اب کہ ہر یک مین
دیکھتے تھے جدھر تدھر اخلاص

اس زمانہ مین اے حسن مت پوچھ
ہے محبت کہان کدھر اخلاص​
 

شمشاد

لائبریرین

جی لگا کر تجھسے جو کچھ کی سو کی دلنے غرض
ورنہ یان کسکو پڑی تھی تیرے ملنے کی غرض

ٹک کرم ایدھر بھی کیجو اے نسیمِ صبحدم
غنچہ دل بھی رکھے ہے تجھسے کھلنے کی غرض

اور تو ایسا نہ تھا کوئی جو دل کو لے گیا
کی نکی چوری تو یان اس تیرے ملنے کی غرض

تیرے در پر خاک کو بھی میرے اشکون نے رکھا
یہ وفاداری تو میرے اب گلی نے کی غرض

مر گیا ہوتا نہوتی قہر مین شامل جو مہر
صحتِ دل اس دواے معتدل نے کی غرض

ہل رہا ہے اشک مژگان سے جدا ہو کس طرح
طفل کو ہوتے ہی گہوارے مین ہلنے کی غرض

زخم دل ناخن سے غم کے یون چھلے تو کیا حسن
گر نمک ہوتا تو لذت ہوتی چھلنے کی غرض​
 

شمشاد

لائبریرین

نہ باغ سے غرض ہے نہ گلزار سے غرض
ہے بھی جو کچھ غرض تو ہمین یار سے غرض

پھرتے ہین ہمتو دید کو تیرے ہی در پہ کچھ
رستے سے ہے نہ کام نہ بازار سے غرض

کہنے سے کیا کسی کے کوئی کچھ کہا کرے
ہمکو تو ایک اُسکی ہے گفتار سے غرض

جی ان دنون مین آپ سے بھی ہے خفا و لیکن
بیزار جو نہین ہے تو دلدار سے غرض

پھر پھر کے آج پوچھتے ہو دل کا حال کیون
ہے خیر تمکو کیا دلِ بیمار سے غرض

آنیکا وعدہ کر کہ نکر ہمکو اب ترے
اقرار سے نہ کام نہ انکار سے غرض

ہمکو بھی دشمنی سے ترے کام کچھ نہین
تجھکو اگر ہمارے نہین پیار سے غرض

سر رشتہ جسکے ہاتھ لگا عشق کا اُسے
تسبیح سے نہ شوق نہ زنار سے غرض

دیندار جو رکھے نہ حسن مجھسے کام تو
کافر ہون مین بھی رکھون جو دیندار سے غرض​
 

شمشاد

لائبریرین

ہمنے لکھ لکھ کے بھیجے کیا کیا خط
اُسنے پر ایک بھی نہ بھیجا خط

ایسی قسمت کہان ہے اے قاصد
آ چکا یان اور اُسنے لکھا خط

میرے نامہ کو دیکھکر مت پھینک
یہ سمجھ ابتو منھ پر آیا خط

کل جو قاصد نے روبرو اُسکے
کسی حکمت سے جا کے پھینکا خط

لیکے جو ہین وہ خط کو پڑھنے لگا
دشمن اک بولا ہے یہ کیسا خط

لگا کہنے مجھے نہین معلوم
میری جانے بلا ہے کسکا خط

تو لکھے ہے حسن عبث نامہ
اُسکو دیوے گا کون تیرا خط​
 

شمشاد

لائبریرین

جانان سے دل حسن کا کہین ہین پھرا غلط
جسنے یہ حرف منھ سے نکالا کیا غلط

کیا پیش جاوے بات کسی کی ترے حضور
جو بات کہتے ہین سو تو کہتا ہے کیا غلط

بیگانہ تو تو ایسا ہی نکلا کہ کیا کہون
سمجھے تھے اپنا تجھکو تو ہم آشنا غلط

پوچھا جو مین حسن سے کہ آیا ہے تیرا یار
افواہ یون اُڑاہی یہ سچ ہے کہ یا غلط

ہنس کر کہا تب اُسنے کہ ایسے کہان نصیب
باندھا ہے مجھپہ یارون نے یہ طوطیا غلط

وے یار جنکے چہل ہے اکثر مزاج مین
ہنسنے کے واسطے انھون نے کہدیا غلط​
 

شمشاد

لائبریرین

گُل کے انے سے کب مین تھا محظوظ
ترے آنے سے اب ہوا محظوظ

رات مطرب پسر نے اک نغمہ
ایسا چھیڑا کہ کر دیا محظوظ

وصل کے خط کر ہمتو مرتے تھے
ہجر نے خوب پر کیا محظوظ

کس گرفتار کا سُنا نالہ
دل چمن مین ہوا جو نا محظوظ

یاد مین تیرے اے حمیدہ صفات
دل رہے ہے مرا سدا محظوظ

اپنی وارستگی سے طبع کی مین
جس طرح مین رہا رہا محظوظ

عشق مین تو بتون کے صادق ہی
تجھکو رکھے حسن خدا محظوظ​
 

شمشاد

لائبریرین

قیامت سنگدل کو دل دیا تو نے خدا حافظ
حسنؔ پہ بار غم ناحق لیا تو نے خدا حافظ

کہین ٹپکے نہ آنکھونسے جو ہو افشائے راز اے دل
بہت خونِ جگر اپنا پیا تو نے خدا حافظ

یہ ثابت پھر نہین رہتا نظر آتا مجھے ناصح
عبث چاکِ گریبان کو سیا تو نے خدا حافظ

کسی کی چشم سرمہ سا کاہون کب یار مین عاشق
عبث باندھا ہے مجھپر طوطیا تو نے خدا حافظ

ندینا تھا تجھے دل اے حسن اُس شوخ دلبر کو
کدھر آئی طبیعت کیا کیا تو نے خدا حافظ​
 

شمشاد

لائبریرین

اوراق دلپہ لکھا ہے الفت کا میرے لفظ
ہمنے پرھا ہے دلسے محبت کا تیرے لفظ

محشر کے حرف خوف کو پڑھ لے ہے سربسر
آتا ہے جسکو یاد مروت کا تیرے لفظ

تو یون کہے نہ دیکھون قیامت کو تیرا مُنھ
کیونکر یہ نکلا مُنھ سے قیامت کا تیرے لفظ

حک ہو گیا ہے حرف ملاقات دلسے تب
جب آ گیا ہے بزم مین عصمت کا تیرے لفظ

حرف دوئی لکھون مین کہان اب کہ سر بسر
ہر لوح دلپہ ثبت ہے وحدت کا تیرے لفظ

جس لفظ سے کہ دل ہو مری جان باغ باغ
سو جانتا ہے کیا ہے وہ شفقت کا تیرے لفظ

تجھسا نہو نہ اسکو کرے رام اے حسن
جاری ہے ہر زبانپر کرامت کا تیرے لفظ​
 

شمشاد

لائبریرین

جب چمن سے ہو انگار وداع
ساتھ اُسکے ہوئی بہار وداع

دل سے رخصت ہوا وہ یون جیسے
شہر سے ہووے شہر یار وداع

نام ہر دم وداع کا تو نہ لے
ہو جیو کاش ایکبار وداع

اہل مجلس سے وقت صبح ہوئی
شمع رو رو کے زار زار وداع

دل سے ہوئے ندین وداع اُسکو
ہو اگر ہمسے وہ ھزار وداع

آج جاتا ہے اپنے گھر وہ شوخ
تم بھی ہو صبر اور قرار وداع

دل مین ٹھہری ہے اب یہی کہ حسن
ہم نہون گے جو ہو گا یار وداع​
 

شمشاد

لائبریرین

لازم نہین کہ ہو مے یہان خوانخواہ شمع
کافی ہے بس جو ایک ہے تو رشک ماہ شمع

کیونکر نہ دل خراب ہو سوزش مین آہ سے
رکھتی ہے باد تند سے حال تباہ شمع

جلتی ہے اور روتی ہے پھر کسکے واسطے
رکھتی نہین جو سوختگان پر نگاہ شمع

شعلہ اُٹھے ہے دلسے شب و روز ہمنشین
جلتی ہے اپنے بزم مین شام و پگاہ شمع

وہ تیرہ بخت ہون کہ حسن میری بزم مین
داغِ سیہ چراغ ہے اور دودِ آہ شمع​
 

شمشاد

لائبریرین

ہے سُرخ میرے خون سے جو تیری نگار تیغ
مانند شاخ گُل کے رکھے ہے بہار تیغ

مت پونچھ ابروِ عرق آلود ہاتھ سے
لازم ہے احتیاط کہ ہے آبدار تیغ

خطرہ نہین ہے زخم سے مجھکو برگ گُل
لا لا ڈرا تو سر پہ مرے گو ہزار تیغ

چلتی نہیں ہے عاشقِ مسکین پہ جبتلک
قبضہ مین تیرے بھی نہین رکھتی قرار تیغ

نالہ بھی میرا کیا ہے غضب ہے کہ جسکی آہ
رکھتی ہے حکم دلکے لئے برق وار تیغ

پیاری وفا کو دیکھ کے میری ہزار بار
جاتی ہے میرے سر پہ تری وار وار تیغ

دو چار سر قدم ہی پہ آ لگتے ہین حسن
نکلے ہے گھر سے ہاتھ مین جب لیکے یار تیغ​
 

شمشاد

لائبریرین

مشتعل یون ہوا ہے دلکا داغ
جس طرح سے بھڑک اُٹھے ہے چراغ

زلف کی کش مکش ہی مین رہے ہم
ایک دن بھی ندیکھا روئے فراغ

دل خدا جانے کس طرف کو گیا
کس سے ہم لیوین اُسکا آہ سراغ

نا صحامت بکا مجھ چل جا
بات کہنے کا اب نہین ہے دماغ

یار جب ہوئے تب ہو لطف حسن
ورنہ بیفائدہ ہے سیر باغ​
 

شمشاد

لائبریرین

سبکو ہی منظور اُس رخسار گلگون کی طرف
دیکھتا ہے کون میری چشم پر خون کی طرف

ساتھ ناقہ کے خدا جانے کدھر رم کر گئی
گرد محمل بھی نہ پہونچی آہ مجنون کی طرف

جان و دل مین بے طرح بگڑی ہے تیرے عشق مین
کیجیے دل کی طرف یا جان محزون کی طرف

زلف و رخ ہے روز و شب کیا دیکھتے رہتے ہو تم
منصفی سے ٹک تو دیکھو اپنے مفتون کی طرف

خضر تک کیجو مدد تو بھی کہ تا بھولے نہ راہ
ناقہ لیلٰی چلا ہے آج مجنون کی طرف

گرچہ ہین تیری ہی گردش سے نگہ کی ہم خراب
پر اشارہ اسکا کر دیتے ہین گردون کی طرف

کیونکہ آوے چین تیرے وحشیونکو بعد مرگ
خاک ہو کر جب تلک جاوین نہ ہامون کی طرف

نام مین بھی ہے عیان عاشق کی آشفتہ سری
دیکھتے تو ہو گے اکثر بید مجنون کی طرف

بسکہ اُسکی زلف کے آشفتہ ہین ہم ای حسن
شعر مین بھی دھیان ہے پیچیدہ مضمون کی طرف​
 

شمشاد

لائبریرین

کہتا ہے کوئی شمع اسے کوئی داغ عشق
دل ہے مرا الٰہی کہ یہ چراغ عشق

کب ہے دماغ گلشنِ دنیا کی دید کا
رہتی ہے ہمکو رات دن اب سیر باغ عشق

اُس رشک مہ نے ٹک جو لگایا ہے مُنھ ہمین
پہونچا ہے آسمان پر اپنا دماغ عشق

آنکھوں سے ہمکو حسن نے تیرے بتا دیا
پایا نہین کچھ آپ سے ہمنے سراغ عشق

جی آ رہا ہے غم سے کسی کے لبون پر آہ
لبریز ہو رہا ہے ہمارا ایاغ عشق

ہم خاک ہو گئے نہ گئی پر ہوائے دوست
حاصل ہوا نہ مر کے بھی ہمکو فراغ عشق

کیا سمجھے لطفِ نکہتِ گل اور خراش خار
دیکھا نہووے جسنے حسن باغ و راغ عشق​
 

شمشاد

لائبریرین

مثلِ پتنگ ہووے گا آخر نثار عشق
مر جائے گا تڑپ کے دل بیقرار عشق

جی چاہتا ہے گرد اُسی کے پڑے رہین
بھاتا ہے جیسے ہمکو سوادِ دیار عشق

مت چشم کم سے دیکھیو داغون کو میرے تو
پھولی ہے باغِ دل مین یہ اپنے بہار عشق

ہنسیو نہ میری جان کسی آن مین کبھی
دیکھے کبھی کسی کو جو زار و نزار عشق

مجنون کی خاک کو نہ کہین خاک قیس کی
پتلا یہ تب تھا عشق کا اب ہے مزار عشق

فرہاد نے تو سر سے اُٹھایا پہاڑ کو
پر اُٹھ سکا نہ اُس سے کسی طرح بار عشق

چشمِ سفید و بخت سیہ یہ نہین حسن
عشاق اسکو کہتے ہین لیل و نہار عشق​
 

شمشاد

لائبریرین

دل بچھڑ کر جو چلا اُس بتِ مغرور تلک
دیکھتا مین بھی گیا اُسکے تئین دور تلک

جان جاوے کہ نہ جاوے رہے سر یا نرہے
چھوڑنے کے نہین ہم تجھکو تو مقدور تلک

اب نہین وقت تغافل کا سن اے یار عزیز
پہونچیو جلد ذرا اِس دلِ رنجور تلک

ہم بھی تب تک ہین کہ یان جلوہ ہے جب تک تیرا
ہستیِ سایہ بھی سچ پوچھو تو ہے نور تلک

زخم دل عشق کے گھر کا تو در دولت ہے
بھیج مرہم کو نہ ہمدم مرے ناسور تلک

قاصد و نامہ و پیغام کی مت کہ کہ صبا
ابتو وانسے نہین آتی دلِ مہجور تلک

مر گئے دن ہی کو ہم ہجر مین صد شکر حسن
کام پہونچا نہ ہمارا شب دیجور تلک​
 

شمشاد

لائبریرین

جب تلک تیر آوے ہے نخچیر تلک
لے یہ نخچیر ہی آ پہونچا ترے تیر تلک

دست و پا مارے بہتے چاہ زنخ مین دلنے
ہاتھ لیکن نگیا زلف کی زنجیر تلک

شکر صد شکر کہ عقدے یوہین حل ہوتے گئے
کام پہونچا نہ ہمارا کبھی تدبیر تلک

اُسکی صورت کا دوانا ہون کہ جسکا خط و خال
نگیا مانی و بہزاد کی تحریر تلک

ہے یہی شوق شہادت کا اگر دل مین تو عشق
لے ہی پہونچیگا ہمین بھی تری شمشیر تلک

اِک مسلمان کا جی جاتا ہے الفت مین تری
جا کہے کوئی یہ اُس کافر بے پیر تلک

جب تلک زر ہے تو سب کوئی ہے پھر کوئی نہین
سچ ہے مکھی بھی رہے ہے شکر و شیر تلک

اس طرح بیٹھ گیا خانہ دل میرا کہ بس
کام پھر اُسکا نہ پہونچا کبھی تعمیر تلک

خون ہو ہو کے ٹپکتا ہے یہ سو رنگ سے دل
تا کسی رنگ مین پہونچے تری تصویر تلک

میں بھی اک معنیِ پیچیدہ عجب تھا کہ حسن
گفتگو میری نہ پہونچی کبھی تقریر تلک​
 

شمشاد

لائبریرین

ٹک دیکھ لین چمن کو چلو لالہ زار تک
کیا جانے پھر جئین نہ جئین ہم بہار تک

قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمین کہ ہم
پھر جیتے جی پہونچ نہ سکے اپنے یار تک

لیجاؤن اب مین یانسے کہان اپنا آشیان
دشمن ہے اس چمن مین مرا خار خار تک

دست ستم دراز کیا جب جنون نے
چھوڑا نہ میرے پاس گریبانکا تار تک

پھر بھی ٹک اتنا اُسکو تو کہدیجیو صبا
جاوے اگر ہمارے تغافل شعار تک

جینے کی صورت اُسکی ٹھہرتی ہے کوئی دم
اسوقت مین بھی پہونچو جو اُس بیقرار تک

کہ اس زمین مین ایک غزل اور بھی حسن
ہے تیری طبع کہنے پر ابتو ہزار تک​
 

شمشاد

لائبریرین

آباد شہر دل تھا اُسی شہر یار تک
اب کوئی آ پھرے نہ اِس اُجڑے دیار تک

جب تک ہے انتظار تبھی تک ہون جون حباب
ہے زندگی مری ترے ہی انتظار تک

دیکھا جو وان نہ اُسکو گمان سو طرف گیا
آئے نہوتے کاشکے ہم کوے یار تک

مر کر بھی بیکسی ہی سے ہم آشنا رہے
آیا قدم کسی کا نہ اپنے مزار تک

دلبر تلک وہ پہونچے بھلا کیونکہ ہمنشین
پہونچے نہ اپنے جو دلِ زار و نزار تک

غافل سمجھ کے پیجیو جامِ شراب عشق
آخر کو کام پہونچے ہے اسکا خمار تک

پہچان جائیگا کہین وہ تجھکو درد مند
حسرت سے تو حسن نہ اُسے بار بار تک​
 

شمشاد

لائبریرین

رکھتا ہے صلح سب سے دل اُسکا پہ مجھسے جنگ
غیرون کے حق مین موم ہے اور میرے حق مین سنگ

کیسا وصال کسکا فراق اور کہانکا عشق
تھی عالمِ جوانی کے بس یہ بھی ایک ترنگ

کیا تب ملیگی آہ مجھے آرزوے دل
مر جائیگی تڑپ کے مرے جیکی جب اُمنگ

حیران مین اپنے حال پہ چون آئینہ نہین
عالم کے منھ کو دیکھ کے مین رہگیا ہون دنگ

آتا ہے کیا نظر اسے شعلہ مین شمع کے
دیتا ہے جان بوجھ کے کیون اپنا جی پتنگ

لیتا تھا نام غیر نکل ایا میرا نام
آخر جھلک گیا ہے محبت کا رنگ ڈھنگ

واقف نہین نشان سے مین اُس یار کے حسن
جسکے لئے اُڑا دیا سب اپنا نام و ننگ​
 
Top