ذکر ایک پرُ اثر مختصر ملاقات کا

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ایک ہماری مِس تھیں وہ صورت سے بھی کچھ خاص نہیں تھیں اُن کو جب غصہ آجاتا تھا تو جو ہاتھ میں ہو وہ ہی پھینک کر مارتی تھیں ایک دن ایک لڑکا پیچھے والی کرسی پر بیٹھا تھا صحیح سے پڑھ نہیں رہا تھا مِس نے ایک بار سمجھایا دوبار سمجھایا پھر وہیں سے ڈنڈا پھینک کر مارا اُس بچے کا سرپھٹ گیا
یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔

لیکن مس کی صورت کا کیا تذکرہ اس میں۔ اس کی سمجھ نہیں آئی۔
 
زمین پر بیٹھ کر دسترخوان بچھاکر مٹی کے برتن ہوں اور بسم اللہ پڑھ کر کھائیں پھر دیکھیں کتنا لطف آئے گ

میرے عزیز زمین پر تو دسترخوان بچھائیں گے تو بڑا ہی بُرا معلوم ہوگا چادر یا دری وغیرہ تو بچھانے میں کوئی حرج نہیں ہے

آپ بھی کبھی ایک بات کرتے ہیں تھوڑی دیر اس سے مکر جاتے ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
بے شک دعا سے فرق پڑتا ہے پر دوا بھی ضروری ہے

صحیح فرمایا سیما آپا۔ دعا ہی اصل میں دوا ہے۔ مثلا فجر میں دعا کی یا اللہ مجھے با صبر و با اخلاق بنا۔ یہ بات دل سے جب زبان پر آتی ہے تو ذہن میں سارا دن رچی بسی رہتی ہے۔ جب دعا کی تکرار ہوتی ہے تو دل میں ذہن میں قرار پکڑ لیتی ہے۔ ورنہ اخلاق سدھارنے کی دوسری دوا با اخلاق لوگوں کی صحبت یا ان سے بات چیت یا انکی کتب رسائل و ویڈیوز دیکھنا ہے۔

اس کے علاوہ اور کچھ ہو تو بتائیں۔ آپکے تجربے سے کچھ سیکھیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
دعا ہی اصل میں دوا ہے۔ مثلا فجر میں دعا کی یا اللہ مجھے با صبر و با اخلاق بنا۔ یہ بات دل سے جب زبان پر آتی ہے تو
امام ابن حجر عسقلانی، فتح الباری میں علامہ طیبی کا قول نقل کرتے ہیں:

هُوَ إِظْهَارُ غَایَةِ التَّذَلُّلِ وَالِافْتِقَارِ إِلَی اﷲِ وَالِاسْتِکَانَةِ لَهُ.

’’اللہ کی بارگاہ میں غایت درجہ تواضع، محتاجی اور عاجزی وانکساری کا اظہار کرنا دعا کہلاتا ہے۔‘‘
اور یہی عاجزی انسان کو سنوارنے کا سبب بنتی ہے
پروردگار سے ہر دم دعا ہے کہ وہ ہم میں عاجزی اور انکساری کا عنصر نمایاں کردے ۔۔آمین
(عسقلانی، فتح الباری، 11: 95)
 
Top