ذکر ایک پرُ اثر مختصر ملاقات کا

سیما علی

لائبریرین
ماشاء اللہ آپ سے تو محفل کی خوبصورتی اور رونق ہے۔ میں نے ہر موضوع پر برجستہ شگفتہ تبصرہ کرتے کسی خاتون کو دیکھا تو وہ آپ ہی ہیں۔ ماشاء اللہ
آپ سب کی محبت ورنہ پرُانے مراسلے دیکھیں ہم بہت سوچ کے لکھتے تھے اور رفتار بھی بہت کم تھی ڈر بھی لگتا تھا کچھ غلط نہ لکھ دیں اتنے اُردو داں ہیں اور ہم ٹہرے اچھے الفاظ سے نابلد کچھ غلط لکھ دیا تو!!!!!!؟
 

سیما علی

لائبریرین
دل میں ذہن میں قرار پکڑ لیتی ہے۔ ورنہ اخلاق سدھارنے کی دوسری دوا با اخلاق لوگوں کی صحبت
قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہوجاتا ہے۔ پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے!!!!؟؟اسے وہی بہتر جانتا ہے، ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے، اس کے لیے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔
یاد رکھیں کہ ہم تقدیر کے نہیں بلکہ احکامِ شرع کے پابند ہیں۔ کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا، اس لیے کہ ہمیں شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے اور اس شرعی حکم کو ہم بخوبی جانتے ہیں۔ تقدیر کا تعلق علمِ غیب سے ہے جو ہمارے بس میں نہیں پھر جو چیز ہم جانتے ہیں اور جس کا حکم بھی ہمیں دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے، اگر ہم اس کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علمِ الٰہی کا جسے ہم جانتے ہی نہیں، بہانہ بنا کر غلط راہ اختیار کر رہے ہیں کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا تو ہمیں کیسے پتہ چل گیا کہ ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ کیا ہم نے لوحِ محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے اور جس کے انجام سے باخبر ہیں، اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
بقول علامہ اقبال

تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اور یہی سیرت میں سنوار کا سبب ہیں

منقول
 

فاخر رضا

محفلین
آپ کا مطلب کہ ایس آئی یوٹی والے نے صحیح کہا تھا؟
نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ جب کسی اسپتال جائیں تو وہاں سے مکمل علاج کرانے کی کوشش کیجیے. ڈاکٹر بدل بدل کے مسائل بڑھ سکتے ہیں. ہر ڈاکٹر کو مسئلہ سمجھنے میں وقت لگ سکتا ہے اور اس طرح آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے
 
قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہوجاتا ہے۔ پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے!!!!؟؟اسے وہی بہتر جانتا ہے، ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے، اس کے لیے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔
یاد رکھیں کہ ہم تقدیر کے نہیں بلکہ احکامِ شرع کے پابند ہیں۔ کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا، اس لیے کہ ہمیں شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے اور اس شرعی حکم کو ہم بخوبی جانتے ہیں۔ تقدیر کا تعلق علمِ غیب سے ہے جو ہمارے بس میں نہیں پھر جو چیز ہم جانتے ہیں اور جس کا حکم بھی ہمیں دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے، اگر ہم اس کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علمِ الٰہی کا جسے ہم جانتے ہی نہیں، بہانہ بنا کر غلط راہ اختیار کر رہے ہیں کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا تو ہمیں کیسے پتہ چل گیا کہ ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ کیا ہم نے لوحِ محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے اور جس کے انجام سے باخبر ہیں، اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
بقول علامہ اقبال

تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اور یہی سیرت میں سنوار کا سبب ہیں

منقول
بہت ہی خوب لکھا آپ نے
 
نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ جب کسی اسپتال جائیں تو وہاں سے مکمل علاج کرانے کی کوشش کیجیے. ڈاکٹر بدل بدل کے مسائل بڑھ سکتے ہیں. ہر ڈاکٹر کو مسئلہ سمجھنے میں وقت لگ سکتا ہے اور اس طرح آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے
آپ کے کہنے کے مطابق ڈاکٹر ایک ہی رکھنا چاھئیے
 
نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ جب کسی اسپتال جائیں تو وہاں سے مکمل علاج کرانے کی کوشش کیجیے. ڈاکٹر بدل بدل کے مسائل بڑھ سکتے ہیں. ہر ڈاکٹر کو مسئلہ سمجھنے میں وقت لگ سکتا ہے اور اس طرح آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے
آپ کی بات صحیح ہے ہر ڈاکٹر اپنی رپورٹیں ہی دیکھتا ہے اگر اُسے کسی اور کی رپورٹ دکھا بھی دو تب بھی وہ رپورٹ دوبارہ کرواتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ جب کسی اسپتال جائیں تو وہاں سے مکمل علاج کرانے کی کوشش کیجیے. ڈاکٹر بدل بدل کے مسائل بڑھ سکتے ہیں. ہر ڈاکٹر کو مسئلہ سمجھنے میں وقت لگ سکتا ہے اور اس طرح آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے
کچھ لوگ اس کو بھی طریقۂ علاج گردانتے ہیں ہم نے وہاں بھی دِکھایا اور وہاں بھی دکھایا کچھ فائدہ نہیں ہوا اور کچھ تو خود ہی تشخیص کرلیتے ہیں۔کہ اُنہیں کوئی خطرناک بیماری لاحق ہوگئی ہے:):)
 
Top