زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
صبی (کُودک، طفل) > صِبْیان
قرنِ ہفتمِ ہجری میں ابونصر فراہی نے 'صِبْیان' یعنی بچّوں کو عربی کے ابتدائی الفاظ سکھانے کے برائے 'نصاب الصِّبْیان' کے نام سے ایک منظوم کتاب لکھی تھی جو قدیم مدارس و مکاتب میں بِسیار مشہور رہی ہے اور اِس پر کئی شرحیں اور اِس کی تقلید میں کئی دیگر نظمیں لکھی جا چکی ہیں۔ فارسی کے زیرِ تسلط ہر دیار میں صدیوں تک اِس کو درسی کتاب کے طور پر بچوں کو تدریس کرایا جاتا رہا ہے۔
اِس کتاب کو یہاں سے بارگیری کیا جا سکتا ہے۔
تہرانی گفتاری فارسی سیکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایران کے عالی و برتر سینما تک رسائی ممکن ہو جا تی ہے۔ ابھی دو روز قبل ہی سالانہ کین فلم جشنوارے میں اصغر فرہادی کی فلم 'فروشندہ' نے بہترین فلم نامے اور بہترین مرد اداکار کے دو انعام حاصل کیے ہیں۔
اِس ایرانی فارسی فلم نے حالا بہترین غیر ملکی فلم کا آسکر انعام بھی جیت لیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کلاسیکی فارسی میں دعائیہ کلمات میں فعلِ مضارع کے آخری حرف سے ماقبل الف کا اضافہ کیا جاتا ہے۔۔جیسے خدا اسے روزی دے کو "خدا او را روزی رساناد"۔ بہ ہمیں طور، خدا اسے کامیاب کرے کو "خدا اُو را کامیاب کناد" مستعل ہے۔ کیا یہ فعلِ دعا بھی متروک ہوچکا ہے؟
اِس دعائیہ فعل کا عام استعمال متروک ہو چکا ہے۔ اب اِس کا استعمال صرف چند عبارتوں میں نظر آتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کے دست سے کوئی کارِ خوب ظاہر ہو تو تحسین کی غرَض سے 'دست مریزاد!' کہتے ہیں یعنی [خدا کرے کہ تمہارا] دست کسی آزار و رنجش سے دوچار نہ ہو!
'زنده باد' وغیرہ میں نظر آنے والا 'باد' در حقیقت 'بُواد' کا مُخفّف ہے اور اِس میں بھی الفِ دعائی کا استعمال ہوا ہے۔
نیز، 'خدایش بیامرزد' کی بجائے گاہے 'خدایش بیامرزاد' بهی نظر آ جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی نے یہ سوال پوچھا ہے:

اے بسا ناوردہ استثنا بگفت
جانِ او با جانِ استثنا ست جفت

اس شعر کا ترجمہ کیسے ہوگا؟

جواب:
'استثناء' اصطلاحاً ان شاء اللہ کہنے کو کہتے ہیں، اور یہاں یہ لفظ اِسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
مولانا رومی نے اپنی مثنوی کے دفترِ اول کے آغاز میں ایک حکایت بیان کی ہے کہ ایک شاہ کی محبوب از جاں کنیز بیمار ہو گئی، جس کے بعد اُس نے علاج کے لیے چند طبیبوں کو جمع کیا۔ اُن طبیبوں نے شاہ سے کہا:
جمله گفتندش که جان‌بازی کنیم
فهم گِرد آریم و انبازی کنیم
هر یکی از ما مسیحِ عالَمی‌ست
هر الم را در کفِ ما مرهمی‌ست

جملہ طبیبوں نے شاہ سے کہا کہ ہم علاج کے لیے جاں بازی کریں گے۔ اپنا فہم و عقل یکجا کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک مسیحِ عالَم ہے، اور ہمارے کف میں ہر الم کا مرہم ہے۔

لیکن ہوا یہ کہ وہ غرور میں 'ان شاء اللہ' کہنا بھول گئے، جس کی وجہ سے اُن کے علاج کا فائدہ نہ ہوا۔ مولانا داستان کو پیش بڑھاتے ہیں:
گر خدا خواهد نگفتند از بطر
پس خدا بنمودشان عَجزِ بشر

اُنہوں نے غرور کے باعث 'اگر خدا چاہے' (ان شاء اللہ) نہ کہا، پس خدا نے اُنہیں بشر کی عاجزی دکھا دی۔

لیکن مولانا بعد ازاں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں اُن کی مراد صرف زبان سے 'ان شاء اللہ' نہ کہنا نہیں، بلکہ اُن کی مراد تو چیزے دیگر ہے:
ترکِ استثنا مرادم قَسوَتی‌ست
نه همین گفتن که عارِض حالتی‌ست

ای بسا ناورده استثنا به گفت
جانِ او با جانِ استثناست جفت

'ان شاء اللہ' کو ترک کرنے سے میری مراد سختیِ قلب ہے، صرف یہ زبانی کہنا نہیں کہ یہ تو ایک عارضی حالت ہے۔ کیونکہ کتنے ہی اشخاص ایسے ہیں جو زبان پر 'ان شاء اللہ' نہیں لاتے لیکن اُن کی جان روحِ 'ان شاء اللہ' کے ساتھ ہمیشہ متّصل رہتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی نے سوال پوچھا ہے:
خوش باش کہ در ازل بپرداختہ اند
حالِ من و تو بے من و تو ساختہ اند
شطرنجِ قضا و لعبتینِ تقدیر
نردِ من و تو بے من و تو باختہ اند

خوش ہو جا کہ بہ وقتِ ازل انھوں نے سب کچھ سنوار لیا ہے۔
میرا اور تیرا حال میرے اور تیرے بغیر تیار کر لیا ہے۔
قضا کی شطرنج اور تقدیر کی لعبتین(اس لفظ کا مطلب نہیں مل رہا) میں میرا اور تیرا نرد کھیل دیا ہے(ہماری چال چل دی ہے)۔

شیخ احمد جام

کیا ترجمہ درست ہے؟

جواب:
مجھے یہاں پر اِس رباعی کی یہ شکل نظر آئی ہے، جس میں مصرعِ سوم کا متن بہتر ہے:
خوش باش که در ازل بپرداخته‌اند
نردِ من و تو بی من و تو ساخته‌اند
بر نطعِ قضا به کعبتینِ تقدیر
نردِ من و تو بی من و تو باخته‌اند

اور وہاں اِس رباعی کو اوحدالدین کرمانی سے منسوب کیا گیا ہے۔

آپ کا ترجمہ تقریباً درست ہے۔ جہاں مجھے بہتری کی گنجائش نظر آ رہی ہے وہ بتا دیتا ہوں۔
'پرداختن' کا ایک معنی آراستہ کرنا اور ترتیب دینا بھی ہے، لیکن مجھے فرہنگوں میں اِس مصدر کے معانی کے طور پر 'کسی کام کو انجام تک پہنچا دینا' اور 'کسی کام سے فارغ ہو جانا' بھی نظر آئے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ فعل مصرعِ اول میں اِس معنی میں استعمال ہوا ہو۔
'لُعْبَت' فارسی زبان میں عموماً عروسک (گڑیا) کے لیے، یا پھر کسی بھی دیگر بازیچے یا اسبابِ بازی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میں اوّل نظر میں 'لعبتِین' کو 'لعبت' کی جمعِ سالم سمجھا تھا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عربی میں 'لعبت' مؤنث اسم ہے اور عربی قاعدے سے اِس کی جمعِ سالم 'لعبات' ہونی چاہیے تھی۔ پھر مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ 'لُعبتَین' (دو لعبت) یعنی مجرور تثنیہ ہو، لیکن اِس صورت میں بھی معنی واضح نہیں ہو رہا تھا۔ امّا، جو متن مصرعِ سوم کا مجھے دوسری جگہ نظر آیا ہے، اُس سے مفہوم کی وضاحت ہو گئی ہے۔ 'نَطْع' بساط و فرش کو کہتے ہیں، جبکہ 'کَعبَتَین' سے مراد وہ دو مُکَعَّب ہیں جن کی چھ سمتوں پر ایک سے چھ تک کے نقطے بنے ہوتے ہیں اور جنہیں اردو میں عموماً 'چھکا' اور فارسی میں معمولاً 'طاس' کہا جاتا ہے۔
'نَرْد' ایک قدیم بازی کا نام ہے جو دو طاسوں کی مدد سے کھیلی جاتی ہے اور جس کا انگریزی نام 'بیک گیمن' ہے۔
'باختن' کا ایک معنی کھیلنا یا بازی کرنا بھی ہے، لیکن یہ مصدر زیادہ تر 'ہار جانے، لُٹا دینے، شکست کھا جانے' کے معانی میں استعمال ہوتا ہے اور اول الذکر معنی معاصر فارسی میں قدیمی ہو چکا ہے، اور اُس کے لیے عام طور پر 'بازی کردن' کام میں لایا جاتا ہے۔

بر نطعِ قضا به کعبتینِ تقدیر
نردِ من و تو بی من و تو باخته‌اند

شاعر اِن دو اختتامی مصرعوں میں کہہ رہا ہے کہ 'وہ قضا کی بساط پر تقدیر کے طاسوں سے میرا اور تمہارا نرد میری اور تمہاری غیر موجودگی میں ہار چکے ہیں'۔
 
تا چه خواهی خریدن ای معذور
روز درماندگی به سیم دغل

سعدی شیرازی

تا کے کیا معنی ہیں اس شعر میں؟
قاضی سجاد حسین کی تالیف کردہ گلستانِ سعدی میں اس شعر میں "معذور" کی جگہ "مغرور" ہے

اس کا ترجمہ قاضی سجاد حسین نے اس طرح کیا ہے:
اے مغرور آخر تو کیا خریدے گا ضرورت کے دن کھوٹی چاندی سے
یہاں چہ بمعنیٰ کیا ہے یہاں
 
قاضی سجاد حسین کی تالیف کردہ گلستانِ سعدی میں اس شعر میں "معذور" کی جگہ "مغرور" ہے

اس کا ترجمہ قاضی سجاد حسین نے اس طرح کیا ہے:
اے مغرور آخر تو کیا خریدے گا ضرورت کے دن کھوٹی چاندی سے
یہاں چہ بمعنیٰ کیا ہے یہاں
یعنی تا کو نظرانداز کر دیا ہے۔ شعر کا مفہوم تو واضح ہے لیکن تا کا استعمال سمجھ نہیں آ رہا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا چه خواهی خریدن ای معذور
روز درماندگی به سیم دغل

سعدی شیرازی

تا کے کیا معنی ہیں اس شعر میں؟
دیارِ آلِ عثمان کے بوسنیائی ادیب احمد سُودی بوسنوی اپنی شرحِ گلستانِ سعدی میں اِس بیت کی ذیل میں لکھتے ہیں:
"تا حرفِ تعجب در عجبا معناسنه"
ترجمہ: "تا حرفِ تعجب ہے یاللعجب کے معنی میں"


لغت نامۂ دہخدا کے مطابق لفظِ 'تا' سے گاہے مندرجۂ ذیل معانی بھی نکلتے ہے:
چلو انتظار کرتا ہوں، منتظر رہنا چاہیے، چلو دیکھتے ہیں کہ، دیکھنا چاہیے کہ، خدا جانتا ہے کہ، ہم نہیں جانتے کہ، یا للعجب وغیرہ

پھر درج کردہ مثالوں میں سعدی کی موردِ بحث بیت بھی شامل ہے۔

اِس 'تا' کے استعمال کی ایک مثال دیکھیے:
زاهد شرابِ کوثر و حافظ پیاله خواست
تا در میانه خواستهٔ کردگار چیست
(حافظ شیرازی)

ترجمہ: زاہد نے شرابِ کوثر کی خواہش کی، جبکہ حافظ نے پیالے کی۔۔۔ دیکھتے ہیں کہ اِن میں سے کِردِگار کی مشیّت کیا ہے۔

عبدالحسین جلالیان جلالی نے اپنی شرحِ دیوانِ حافظ میں یہاں 'تا' کا معنی 'باید دید که' (دیکھنا چاہیے کہ) لکھا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تا چه خواهی خریدن ای معذور
روز درماندگی به سیم دغل

سعدی شیرازی

تا کے کیا معنی ہیں اس شعر میں؟
ملّا غیاث الدین رامپوری اپنی کتاب 'بهارِ باران: شرحِ گلستانِ سعدی' میں لکھتے ہیں:
"لفظ تا برای تنبیه و آگاهی‌ست"
ترجمہ: لفظِ تا تنبیہ و آگاہی کے برائے ہے۔

جبکہ ایرانی شارح خلیل خطیب رہبر نے اپنی شرحِ گلستان میں بیتِ ہٰذا کی توضیح کرتے ہوئے 'تا' کی جا پر 'نمی‌دانم' استعمال کیا ہے۔ یعنی میں نہیں جانتا کہ۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
قاضی سجاد حسین کی تالیف کردہ گلستانِ سعدی میں اس شعر میں "معذور" کی جگہ "مغرور" ہے
گلستانِ سعدی کی ایک شرح میں نظر آیا ہے کہ یہاں 'مغرور' غرور کرنے والے اور متکبّر شخص کے معنی میں نہیں، بلکہ فریب خوردہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ندای مستطاب رسید که «سخن کوتاه، مختصر و مفید بگویید، ببینم اعمالِ خوب و بدِ او کدام بر دیگری میچربد»-با صدایی که از زورِ احترام در تنبوشهِ حلقومشان مانند آب گره خورده میلرزید، گفتند الهی، با ذره و مثقالِ همه را در ترازوی حساب کشیدیم و جمله را چنانکه موبلای درزش نمیرفت سنجیدیم، تقریباََ مساوی و یکسان بود
مو لایِ درزِ چیزی نرفتن
'دَرْز' شگافِ باریک یا دراڑ کو کہتے ہیں، جبکہ عامیانہ لفظ 'لا' یہاں پر کسی چیز کے اندرونی حصے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا 'مو به لایِ درزش نمی‌رفت' کا لفظی ترجمہ 'اُس کی درز میں بال کا در آنا بھی ممکن نہ تھا' ہے۔ محاورتاً یہ عامیانہ ایرانی محاورہ کسی چیز کے بالکل دقیق و صحیح و منطقی و بے اعتراض ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یا بہ الفاظِ دیگر، اگر مردُم ایران کہنا چاہ رہے ہوں کہ کوئی چیز غلطی اور نَقص سے بالکل مبُرّا ہے تو اُس کے برائے وہ یہ محاورہ کام میں لاتے ہیں۔
یہ ایک عامیانہ گفتاری محاورہ تھا، لیکن اب ایرانی تحریروں میں بھی اِس کا استعمال نظر آتا ہے۔ ویسے بھی سید محمد علی جمال زادہ اپنی داستانوں میں گفتاری الفاظ، محاورے، تعبیرات اور ضرب الامثال استعمال کرنے کے لیے مشہور تھے۔ امّا، ایران کے بجز کسی فارسی گو ملک میں یہ محاورہ رائج نہیں ہے۔

"جمله را چنانکه مو به لای درزش نمی‌رفت سنجیدیم"
یہاں گویندہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے جملہ چیزوں کو بہت دقّت و توجہ و باریک بینی کے ساتھ وزن کیا ہے۔

ایک جا پر نظر آیا ہے کہ غزنوی دور کے تاریخ نویس ابوالفضل بیہقی (م ۱۰۷۷ء) نے اپنی کتاب 'تاریخِ بیہقی' میں اِس سے مماثلت رکھنے والا ایک محاورہ 'مو در کارِ کسی نخزیدن' (کسی کے کام میں بال نہ رینگنا) استعمال کیا ہے:
"وز بومنصور مستوفی شنودم، و او آن ثقه و امین بود که موی در کار او نتوانستی خزید..."
یعنی ابومنصور مستوفی کے ثِقہ و امین و راست گو ہونے میں کوئی حَرف نہیں تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دروغی که حالِ دلت خوش کند
به از راستی کت مشوش کند


وہ جھوٹ جو تیرے دل کے حال کو اچھا بنائے اس سچ سے بہتر ہے جو تجھے پریشان کرے۔

سعدی شیرازی

ویسے تو یہ بیت مجھے یوں بھی درست معلوم ہو رہی ہے، لیکن صرف اطلاعاً عرض ہے کہ لغت نامۂ دہخدا میں 'حالِ دلت' کی بجائے 'حالا دلت' درج ہے، جبکہ گنجور پر درج نسخہ بدل 'حالی دلت' ہے۔ توجہ رہے کہ یہاں یہ 'حالی' بھی 'حالا' کی طرح 'اِس وقت' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اِس بیت میں شیخ سعدی شیرازی 'خوش' اور 'مشوّش' کو ہم قافیہ لائے ہیں، کیونکہ جن الفاظ میں 'خ' کے بعد واوِ معدولہ آتی ہے، مثلاً خوش، خواب، خواهر، خود وغیرہ، اُن الفاظ میں ابتداءً اُس واو کا تلفظ ہوتا تھا، اِسی لیے اُن کے املاء میں واو آتا ہے۔ یعنی مذکورہ الفاظ کو بالترتیب خْوَش/xwaş، خْوَاب/xwâb، خْوَاهرxwâhar، خْوَد/xwad تلفظ کیا جاتا تھا۔

شعرِ کہن میں اِس طرح کے قافیے کی ایک اور مثال دیکھیے:
پس حکیمش گفت، کای سلطانِ مِه
آن کنیزک را بدین خواجه بدِه
تا کنیزک در وصالش خوش شود

آبِ وصلش دفعِ آن آتش شود

(مولانا جلال‌الدین رومی)
پس حکیم نے [شاہ] سے کہا کہ: اے سلطانِ بزرگ! وہ کنیز اِس خواجہ کو عطا کر دو۔ تاکہ کنیز اِس کے وصال میں خوب و خوش ہو جائے اور اِس کے وصل کا آب اُس آتش کو خاموش کر دے۔
آن کنیزک را بدین خواجه بدِه
معاصر فارسی میں اِس لفظِ 'خواجه' کا واو بھی ساکت رہتا ہے۔

میں اِس بارے میں قبلاً لکھ چکا ہوں:
واوِ معدولہ کی حکایت یہ ہے کہ جب فارسی زبان لکھی جانی شروع ہوئی تھی تو اُس وقت یہ واو تلفظ کیا جاتا تھا۔ یعنی خواہر کو xâhar کی بجائے xvâhar پڑھا جاتا تھا۔ اسی لیے ایسے الفاظ کے املا میں واو شامل ہے۔ لیکن بعد میں اگرچہ اِس واو کا تلفظ مفقود ہو گیا، لیکن الفاظ کا املا وہی رہا جو شروع سے تھا۔
فردوسی نے مندرجۂ ذیل شعر میں دانہ کَش اور خوش کو ہم قافیہ باندھا ہے کیونکہ اُن کے زمانے میں لفظِ خوش کا قدیم تلفظ خوَش زندہ تھا۔ لیکن اب خوش کا واؤ ساکت ہے۔
میازار موری که دانه‌کَش است
که جان دارد و جانِ شیرین خوَش است

یہ بھی دیکھیے:
Persian Online – Grammar & Resources » The Silent Letter vāv
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لیکن کیا اس سے خوش کا وزن فعَل نہیں ہو جائے گا؟
ایسا اُس وقت ہوتا اگر قدیم زمانے میں 'خوش' کا تلفظ خُوَش/xuvaş ہوتا، لیکن اِس کا تلفظ خْوَش/xwaş تھا، جس کا وزن میرے خیال سے 'فا' ہی ہے۔
اِن الفاظ کے حرفِ 'خ' پر کوئی حرَکت نہیں تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
گلستانِ سعدی کی ایک شرح میں نظر آیا ہے کہ یہاں 'مغرور' غرور کرنے والے اور متکبّر شخص کے معنی میں نہیں، بلکہ فریب خوردہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
غُرُور، مَغْرُور
اگرچہ فارسی، ترکی، اور اردو میں 'غُرور' عموماً 'تکبّر' کے معنی میں رائج ہے، لیکن لغت نامۂ دہخدا کے مطابق یہ لفظ فارسی کے ادبیاتِ کہن میں 'فریب' کے معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے:

تشنگانِ امیدِ فضلِ تو را
ننماید جهان سرابِ غرور
(مسعود سعد سلمان لاهوری)

تمہارے فضل کی امید کے تَشنوں کو جہان سرابِ فریب نہیں دِکھاتا۔

تا دل به غرورِ نفسِ شیطان ندهی
(سعدی شیرازی)

زنہار! ننفسِ شیطان کے فریب کو دل مت سپرد کر دینا۔۔۔

عربی فرہنگوں میں اگرچہ 'عُجْب و تکبّر' کے معانی بھی اِس لفظ کے ذیل میں درج نظر آئے ہیں، لیکن اِس کا اساسی معنی 'فریب' ہی نظر آیا ہے۔ قرآنی عربی میں بھی لفظِ ہٰذا 'فریب' کے معنی میں استعمال ہوا ہے:
"وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ"
اور دنیاوی زندگی بجز متاعِ فریب نہیں ہے۔

مولانا رومی بھی اپنی ایک عربی رباعی کے مصرعے میں اِس لفظ کو 'فریب' کے مفہوم میں لائے ہیں:
"العَالَمُ کُلُّهُ خِدَاعٌ وَغُرُور"
دنیا تماماً حیلہ گری و فریب ہے۔

برادرِ معظّم سید عاطف علی بہتر بتا سکتے ہیں کہ جدید عربی میں یہ لفظ اور اِس کے مُشتَقّات اکثراً کس معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔

چونکہ اسمِ فعل 'غرور' کا مفعول 'مغرور' ہے، لہٰذا اگر فارسی میں 'غرور' فریب کا ضمنی معنی دیتا ہو تو 'مغرور' بھی فریب خوردہ کا معنی دے گا، اور اِس معنی میں وہ فارسی میں کئی بار استعمال ہوا بھی ہے۔ مثلاً مندرجۂ ذیل مصرعوں میں لفظِ 'مغرور' کو 'فریب خوردہ' کے معنی میں تفسیر کیا جا سکتا ہے:

"ای دل تو به هر خیال مغرور مشو"

"دنیا مطلب، مباش مغرور ازو"

"هان مشو مغرور زآن گفتِ نکو
زآنکه دارد صد بدی در زیر او"

"شد دلم مغرورِ آن گفتارِ جان‌افزایِ تو"


شخصِ متکبّر کو بنیادی طور پر شاید اِس لیے 'مغرور' کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بزرگی کے فریب میں مبتلا ہوتا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ معاصر فارسی میں 'مغرور' معمولاً 'متکبّر' کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن لغت نامۂ دہخدا میں اِس لفظ کا اساسی معنی 'فریب خوردہ' درج ہے، جبکہ فرہنگِ معین و فرہنگِ عمید میں 'متکبّر' کی بجائے 'فریب خوردہ' ہی درج ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غُرُور (عربی)
۱. فریفتن؛ فریب؛ ۲. کِبْر و کلانی، تکبُّر، هوابلندی، بالیدن به چیزِ باطل.

غرورِ حُسن اجازت مگر نداد، ای گل،
که پُرسشی نکنی عندلیبِ شیدا را.
(حافظ)

می‌کَشَد سررشتهٔ کارِ غرور آخر به عَجز،
گر همه امروز شمشیر است، فردا سوزن است.
(بیدل)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ دوم، صفحه ۶۵۹]

مَغْرُور (عربی)

۱. فریفته‌شده، فریب‌خورده به چیزِ باطل.

مار به گفتارِ روباه مغرور شد.
(عوفی)

چهارم آ‌ن که به تلطّف و چاپلوسیِ دشمن مغرور نگردد.
(احمدِ دانش)

۲. باغُرور، باتکبُّر، هوابلند، خودپسند.

تو مغرورِ خویشی، ندانی همی،
که جمشید را نیست زین‌ها غمی.
(فردوسی)

تُرا عیب کردم به دیوانگی،
که مغرور بودم به فرزانگی.
(خواجو)

مردُمانِ باقوّت بودند و به شوکتِ خود مغرور بودند.
(مجمع‌الانساب)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ اول، صفحه ۶۶۹]
 

حسان خان

لائبریرین
ایرانی فرہنگوں میں اِن الفاظ کا تلفظ 'ف' پر زیر اور زبر دونوں کے ساتھ درج ہے، لیکن ایران میں عموماً یہ الفاظ 'ف' پر زبر کے ساتھ تلفظ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، ماوراءالنہری فارسی میں یہ الفاظ 'ف' پر زیر کے ساتھ لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ یعنی ایران اور ماوراءالنہر میں 'فریب' کا عمومی تلفظ بالترتیب 'farîb' اور 'fireb' ہے۔
امروز معلوم ہوا ہے کہ ماوراءالنہری فارسی میں 'تکبّر' اور 'متکبّر' کے معنی میں بالترتیب 'هوابلندی' اور 'هوابلند' بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ایرانیوں کی گفتار و نَوِشتار میں مَیں نے کبھی اِن تراکیب کا استعمال نہیں دیکھا۔
می‌کَشَد سررشتهٔ کارِ غرور آخر به عَجز،
گر همه امروز شمشیر است، فردا سوزن است.
(بیدل)
قابلِ توجہ ہے کہ اِس ماوراءالنہری فارسی فرہنگ میں بیدل دہلوی کی ابیات بھی شاہدِ معنی کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔
'کلان' (بزرگ) اور 'کلانی' (بزرگی) ایران میں متروک ہو چکے ہیں، لیکن افغانستان اور ماوراءالنہر میں اِن کا استعمال جاری ہے۔ ظاہراً، ماوراءالنہری فارسی میں 'کلانی' تکبّر کے مجازی معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عرق از چک و چاکِ شان روان بود
عَرَق = پسینہ
چَک = نِچلا فَک (جبڑا)؛ ذقن، زنخدان، چانہ (ٹھوڑی)

چاک = یہاں 'گریبان' کے معنی میں استعمال ہوا ہے

یعنی اُن کے چہرے اور گریبان سے پسینہ بہہ رہا تھا۔


میرا خیال ہے کہ 'چک' ایک گفتاری ایرانی لفظ ہے اور افغانستان و تاجکستان میں رائج نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چاک = یہاں 'گریبان' کے معنی میں استعمال ہوا ہے
ایرانی فارسی میں گریبان کے برائے عموماً 'یقه' استعمال ہوتا ہے، جس کا ایک کمتر موردِ استعمال املاء و تلفظ 'یخه' ہے۔
یہ ترکی زبان سے فارسی میں آیا لفظ ہے۔ استانبولی تُرکی میں گریبان کو 'یاقا (یاکا)' جبکہ 'آذربائجانی تُرکی میں 'یاخا' کہتے ہیں۔ اُزبکی تُرکی میں 'یاقه' کہا جاتا ہے۔
ماوراءالنہری فارسی کی فرہنگ 'فرہنگِ تفسیریِِ زبانِ تاجیکی' میں بھی 'یخه' اور 'یقه' درج ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ مردُم تاجکستان اغلباً 'گریبان' ہی استعمال کرتے ہیں۔
لغت نامۂ دہخدا میں 'یاقه' املاء بھی ثبت ہے، لیکن معاصر فارسی میں یہ املاء استعمال نہیں ہوتا۔ امّا، عربی زبان میں یہی املاء مستعمَل ہے۔
'وائٹ کالر' کی اصطلاح کے مترادف کے طور پر ایرانی فارسی میں 'یقه‌سفید' رائج ہے۔
 
آخری تدوین:
Top