زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
ما داستان کربلا را از روز تاسوعا می دانیم و عصر عاشورا ختمش می کنیم , بعد دیگر نمی دانیم چه شد ! همین طور هستیم تا اربعین ( آنجا شله ای می دهیم و بعد قضیه دیگر بایگانی ست ! )
ہم داستانِ کربلا کا آغاز روزِ تاسوعا (نو محرم) سے تصور کرتے ہیں اور اور عاشورا (دس محرم) کی (نمازِ) عصر پر ختم کرتے ہیں، اور ہم نہیں جانتے کہ پس ازاں کیا ہوا؟ اربعین تک بھی اسی طرح ہم ہوتے ہیں(وہاں ہم شولہ دیتے ہیں اور پھر معاملہ ختم ہوجاتا ہے)
'شُلہ' یا 'شُلّہ' مشہد اور اطراف کے علاقوں کی ایک غذا ہے جو گوشت، دالوں، سبزیوں اور چاولوں سے تیار ہوتی ہے۔ وہاں عموماً محرّم اور اربعین کے ایّام میں اِسے نذری غذا کے طور پر پکایا جاتا ہے۔ 'شله‌ای می‌دهیم' میں اِسے نذر کے طور پر دینے کی جانب ہی اشارہ ہے۔
پاکستان کے بھی بعض خاندانوں میں اِس نام کی ایک غذا پکائی جاتی ہے، اور میں اِس وقت تک اُس کا نام 'شعلہ' یا 'شولہ' سمجھتا آیا تھا کیونکہ یہاں اِسی طرح اُس کا نام تلفظ کرتے ہیں، لیکن حالا معلوم ہوا ہے کہ یہ لفظ در حقیقت 'شُلہ' ہے۔
فارسی ویکی پیدیا پر اِس غذا کے بارے میں خوانیے۔

'بایگانی' فارسی میں دستاویزخانہ، محفوظات یا آرکائیوز کو کہتے ہیں۔ مصنّف کہنا چاہ رہے ہیں کہ اربعین کے بعد مردُم عاشورا کے مسئلے کو 'بایگانی' میں، یعنی پسِ پُشت ڈال کر سالِ آیندہ تک کے لیے فراموش کر دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک ایرانی اخبار کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ ایرانی فارسی میں گاڑیوں کے 'گیئر' کے لیے فارسی اصطلاح 'دَنْدہ' رائج ہے۔
اردو میں ہم گئیر کے لیے گراری استعمال کرتے ہیں ۔ ساخت کی مناسبت سے کیوں کہ گراریوں میں دانتوں کی مشابہت ہے اس لیے غالبا دندہ رائج ہوا ہو۔ لہذا انتہائی مناسب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اردو میں ہم گئیر کے لیے گراری استعمال کرتے ہیں ۔ ساخت کی مناسبت سے کیوں کہ گراریوں میں دانتوں کی مشابہت ہے اس لیے غالبا دندہ رائج ہوا ہو۔ لہذا انتہائی مناسب ہے۔
'دنده' فارسی میں 'پسلی' کو بھی کہتے ہیں۔

پس نوشت: ماوراءالنہری فارسی میں 'پسلی' کے لیے تُرکی الاصل لفظ 'قَبُرغَہ' رائج ہے، اور افغانستان کی تحریروں میں بھی یہ لفظ نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آن را از معنی انداختیم
اسے بسیار سادہ کردیا ہے
نیٹ پر ایک جگہ 'از معنی انداختن' کا معنی 'حد سے زیادہ سادہ کر دینا' نظر آیا ہے، لیکن سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے یہاں اِس کا مفہوم یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ: ہم نے اُس واقعے کی معنائیت ختم کر دی ہے۔
'از معنی انداختن' کا لفظی ترجمہ 'معنی سے گرانا' ہو گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
این که تو داری قیامت است نه قامت
وین نه تبسّم که معجز است و کرامت
(سعدی شیرازی)
یہ جو تمہارے پاس ہے، قامت نہیں بلکہ قیامت ہے؛ اور یہ تبسّم نہیں بلکہ معجزہ اور کرامت ہے۔
چشمِ مسافر که بر جمالِ تو افتاد
عزمِ رحیلش بدل شود به اقامت
(سعدی شیرازی)

جس مسافر کی نظر تمہارے جمال پر پڑ جائے، اُس کا عزمِ سفر اقامت میں بدل جائے۔
مجھے سعدی شیرازی کے دیوان میں ایک غزل 'مفتعلن فاعلاتُ مفتعلن فع' کے وزن میں نظر آئی ہے جو فارسی شاعری میں کمتر استعمال ہوئی بحروں میں شامل ہے۔ بہر حال، ایک ویڈیو نظر آئی ہے جس میں اِس بحر کے آہنگ کو سمجھایا گیا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
مفتعلن فاعلات مفتعلن فع
 
مجھے سعدی شیرازی کے دیوان میں ایک غزل 'مفتعلن فاعلاتُ مفتعلن فع' کے وزن میں نظر آئی ہے جو فارسی شاعری میں کمتر استعمال ہوئی بحروں میں شامل ہے۔ بحر حال، ایک ویڈیو نظر آئی ہے جس میں اِس بحر کے آہنگ کو سمجھایا گیا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
مفتعلن فاعلات مفتعلن فع
سبک ہندی کے شعرا نے بھی اس کا کافی استعمال کیا ہے۔
غالب نے عرفی کی ایک غزل کا جواب لکھا تھا "گر منِ فرہنگ بودمی چہ غمستی" لیکن یہ غزل عرفی کے تصحیح شدہ دیوان میں نظر نہیں آئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
سبک ہندی کے شعرا نے بھی اس کا کافی استعمال کیا ہے۔
غالب نے عرفی کی ایک غزل کا جواب لکھا تھا "گر منِ فرہنگ بودمی چہ غمستی" لیکن یہ غزل عرفی کے تصحیح شدہ دیوان میں نظر نہیں آئی۔
اِس بحر کو حافظ اور رومی نے بھی استعمال کیا ہے، بلکہ چند معاصر فارسی شاعروں میں بھی اِس کے استعمال کی مثالیں نظر آئی ہیں۔ اِسے میری کم علمی سمجھیے کہ اِس بحر سے میری درست آشنائی اِمروز ہوئی ہے۔ ویسے بھی علمِ عروض کے بارے میں میری معلومات فقط اِتنی ہی ہیں کہ میں شعر کا وزن میں یا بے وزن ہونا سمجھ جاتا ہوں۔ اِس کے علاوہ دیگر چیزوں سے میں ناواقف ہوں۔ :)
 
اِس بحر کو حافظ اور رومی نے بھی استعمال کیا ہے، بلکہ چند معاصر فارسی شاعروں میں بھی اِس کے استعمال کی مثالیں نظر آئی ہیں۔ اِسے میری کم علمی سمجھیے کہ اِس بحر سے میری درست آشنائی اِمروز ہوئی ہے۔ ویسے بھی علمِ عروض کے بارے میں میری معلومات فقط اِتنی ہی ہیں کہ میں شعر کا وزن میں یا بے وزن ہونا سمجھ جاتا ہوں۔ اِس کے علاوہ دیگر چیزوں سے میں ناواقف ہوں۔ :)
غالب کی ایک اردو غزل بھی ہے اس بحر میں
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
 

حسان خان

لائبریرین
غالب کی ایک اردو غزل بھی ہے اس بحر میں
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
گنجور پر موجود جو ابیات اِس بحر میں ہیں وہ یہاں سے دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ نظر آیا ہے کہ رُودکی سے لے کر بعد کے ادوار کے کئی شاعروں نے اِس بحر میں طبع آزمائی کی ہے۔ یعنی اِس بحر کا استعمال دوسری بحروں کے مقابلے میں یقیناً کم رہا ہے، لیکن یہ اُس قدر کم بھی استعمال نہیں ہوئی جس قدر میں قبلاً سمجھ رہا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
"اس [کھوار] زبان وادب پر فارسی کے اثرات بھی نمایاں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پورا خطۂ چترال اور گلگت بلتستان زمانہ قدیم سے فارسی تہذیب کے زیر سایہ رہا۔ دور جدید تک تو ریاست چترال، ریاست غذر و یاسین، گلگت و ہنزہ کی سرکاری زبان فارسی تھی اور اکثر علمی مواد اب بھی فارسی زبان میں موجود ہے۔ کھوار ثقافت نے کئی ایک صاحب دیوان فارسی شعراء و مصنفین پیدا کیے جن میں فارسی اور کھوار زبان کے نابغۂ روزگار شاعر مرزا محمد سِیَر (بابا سِیَر)، چترال میں تاریخ نویسی کا ایک اہم نام "تاریخ چترال" (فارسی) کے مصنف مرزا محمد غفران قابل ذکر ہے جو اس علاقے کی زرخیز ادبی ورثے کی نمائندگی کرتی ہے البتہ چترال کا پاکستان سے الحاق کے بعد اس خطے سے فارسی کا عمل دخل ختم ہو گیا۔ جس کی وجہ سے نئی نسل کو نہ صرف اپنی قدیم ادبی ذخیرے سے محروم ہونا پڑا بلکہ رفتہ رفتہ علاقے کا قدیم ثقافتی ورثہ بھی ختم ہو گیا۔"
(کریم اللہ)
ماخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"بابا سِیَر نے اپنے اچھوتے خیالات کے اظہار کے لیے فارسی زبان کو کیوں منتخب کیا؟ یہ تقریباً تمام اہلِ علم و قلم پر واضح ہے کہ جس زمانے میں بابا سِیَر زندہ تھے وہ ایسا زمانہ تھا کہ چترال میں دفتری زبان بھی فارسی تھی اور جن ممالک سے اُس دور کے حکّام کا واسطہ و رابطہ تھا وہاں کی زبان بھی فارسی ہی تھی نیز اُس دور میں چترال کے بے قاعدہ اور مقامی درسگاہوں میں فارسی زبان کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دینی کتب بھی فارسی میں دستیاب تھیں، اس لیے دینی سبق حاصل کرنے میں بھی فارسی زبان کا اہم کردار تھا۔ ہر خاص و عام کو دینی علم کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی کے لیے فارسی کا دامن پکڑنا تھا، اس لیے اُس زمانے میں چترال کے عام لوگ بھی فارسی زبان سے کم و بیش واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کھوار زبان پر دوسری زبانوں کی بہ نسبت فارسی زبان کا زیادہ اثر نظر آتا ہے۔"
(مولانا نگاہ 'نگاہ')
'دیوانِ بابا سِیَر: مع اردو ترجمہ و تشریح' کے حصّے 'عرضِ مؤلف' سے ماخوذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"۔۔۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ریاست چترال کی علمی اور سرکاری زبان ایک طویل عرصے تک فارسی رہی ہے۔ اس عرصے میں یہاں فارسی کے کئی شعراء اور ادیب پیدا ہوئے، جنہوں نے نظم و نثر میں خاطر خواہ تخلیقی کام کیا۔ اگرچہ بلحاظ حجم یہ کام اتنا زیادہ نہیں تاہم معیار کے لحاظ سے اس کی اہمیت کسی اور علاقے کے ادب سے کم نہیں۔ اس کی مثال میں ہم محمد سِیَر کے دیوان اور ناصرالملک کی 'صحیفۃ التکوین' کو پیش کر سکتے ہیں۔
فارسی کا چلن چترال میں برص‍غیر کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ دیر تک رہا، کیونکہ اس علاقے کے روابط جنوب کی نسبت شمال کے فارسی بولنے والے علاقوں سے زیادہ تھے۔۔۔"
(فضل رقیب)
ماخذ
 
کسی چیز کے باعث نالہ کرنا
چند نالم از جفا و جورِ تو؟
بس کن و بر من جفا چندین مکن
(فخرالدین عراقی)
نالم ز چرخ اگر نہ بر افغاں خورم دریغ
گریم بہ دہر اگر نہ بہ طوفاں خورم دریغ

اس شعر کا کیا ترجمہ ہوگا؟
 

حسان خان

لائبریرین
نالم ز چرخ اگر نہ بر افغاں خورم دریغ
گریم بہ دہر اگر نہ بہ طوفاں خورم دریغ

اس شعر کا کیا ترجمہ ہوگا؟
شاید اِس کا ترجمہ یوں کرنا ممکن ہو:
اگر میں فریاد پر آہِ حسرت نہ کھینچوں تو میں چرخ کے باعث نالہ کروں گا؛ اگر میں طوفان پر حسرت و افسوس نہ کروں تو میں زمانے پر گریہ کروں گا۔
 
اگر میں غلط ہوں تو لطفاََ درستگی کردیں۔۔
افغان فارسی میں لفظ پریشان میں حرفِ پ پر پیش ہوتا ہے، ایرانی فارسی میں زیر اور تاجیک فارسی میں زبر ہوتا ہے۔
افغانستان میں خداحافظی کے لئے "بامانِ خدا" مستعمل ہے، ایران میں "خدا حافظ" اور تاجیکستان میں "خیر" مستعمل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
افغان فارسی میں لفظ پریشان میں حرفِ پ پر پیش ہوتا ہے، ایرانی فارسی میں زیر اور تاجیک فارسی میں زبر ہوتا ہے۔
مردُمِ ایران بھی اِس لفظ کا تلفظ 'پ' پر 'زبر' کے ساتھ کرتے ہیں۔
افغانستان میں خداحافظی کے لئے "بامانِ خدا" مستعمل ہے، ایران میں "خدا حافظ" اور تاجیکستان میں "خیر" مستعمل ہے۔
تاجیکستان میں بھی 'خدا حافظ' کا استعمال نظر آتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایرانی فارسی میں 'مشرقِ وُسطیٰ' یا 'شرقِ اوسط' کے لیے 'خاورِ مِیانہ' رائج ہے۔ 'خاور' مشرق کو کہتے ہیں جبکہ 'میانہ' کا معنی 'وسطی' ہے۔ جبکہ افغان فارسی میں 'شرقِ میانہ' زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ تاجک فارسی میں 'شرقِ میانہ' اور 'خاورِ میانہ' دونوں کا استعمال نظر آیا ہے، لیکن اُس میں بھی الحال ایران کی طرح 'خاورِ میانہ' زیادہ مستعمَل ہے۔
فارسی میں، خصوصاً افغان فارسی میں، 'شرقِ اوسط' کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی نظر آ جاتی ہے۔
بہر حال، یہ چیز یقینی ہے کہ اِن میں سے کوئی بھی اصطلاح استعمال کی جائے، دیارِ فارسی زبان کا ہر فرد معنی سمجھ جائے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"موضوع دیگر شایان بررسی همانا پیدا آمدن زبان و شعر نو فارسی است در ماوراءالنهر و نه در آستان فارس. ماوراءالنهر در قلمرو ساسانیان نبود و مردم آن نیز مانند بیرونی نام‌آور، پس از فتوحات اسلام ناچار بودند هم فارسی و هم عربی را بیاموزند. ایرانیان شرقی ضرورت درآمیختن این دو زبان را دریافتند و در نتیجه یک زبان فارسی نو اسلامی درآمیخته با عربی پدید آمد. در غرب ایران نیز زبان عربی و فارسی در سخن گفتن به کار می‌رفتند اما فارسی چون هنوز با زبان پهلوی که زبان رسمی شدهٔ آیین زرتشتی بود پیوندی داشت، نوشته ‌نمی‌شد. زبان عربی در کنار فارسی زبان اسلام بود ولی این دو زبان همواره جدا ماندند. از این‌ها گذشته شرق به فرمان یک دودمان بومی یعنی سامانیان درآمده بود در صورتی که غرب ایران به بغداد نزدیک‌تر بود. چون سلجوقیان ایران را یک‌پارچه ساختند و آناطولی را نیز گرفتند، زبان و فرهنگ فارسی نو را که در زمان سامانیان پا گرفته بود همه جا با خود بردند."

کتاب: عصر زرّین فرهنگ ایران/The Golden Age of Persia
نویسنده: ریچارد نلسون فرای/Richard Nelson Frye
مترجم: مسعود رجب‌نیا

"یقیناَ ایک اور قابلِ مطالعہ موضوع ماوراءالنہر میں - نہ کہ صوبۂ فارس میں - زبان و شعرِ فارسیِ نو کا ظاہر ہونا ہے۔ ماوراءالنہر ساسانیوں کی قلمرو میں نہ تھا، اور اُس کے مردُم کو بھی نامور البیرونی کی طرح فتوحاتِ اسلام کے فارسی و عربی دونوں ہی کو سیکھنا پڑتا تھا۔ مشرقی ایرانیوں نے اِن دو زبانوں کو مخلوط کرنے کی ضرورت کا اِدراک کر لیا اور نتیجتاً عربی سے مخلوط ایک نئی اسلامی فارسی زبان وجود میں آ گئی۔ مغربی ایران میں بھی زبانِ عربی و فارسی کا گفتار میں استعمال ہوتا تھا، لیکن چونکہ فارسی کا ذرا تعلق ہنوز زرتشتی دین کی رسمی زبان پہلوی کے ساتھ تھا، اِس لیے وہ لکھی نہیں جاتی تھی۔ فارسی کے پہلو میں عربی زبان اسلام کی زبان تھی لیکن یہ دو زبانیں ہمیشہ جدا رہیں۔ اِن کے علاوہ، شرقِ ایران ایک مقامی خاندان یعنی سامانیوں کے زیرِ فرمان آ گیا تھا در حالیکہ غربِ ایران بغداد سے قریب تر تھا۔ جب سلجوقیوں نے ایران کو متحد کیا اور اناطولیہ کو بھی حاصل کر لیا تو وہ نئی فارسی زبان و ثقافت کو، کہ جس نے سامانیوں کے زمانے میں قدم جمائے تھے، اپنے ہمراہ ہر جا لے گئے۔"

یاددہانی: مصنف نے یہاں 'ایران' کو تاریخی خطۂ ایران کے معنی میں استعمال کیا ہے، اور جہاں مصنف نے مغربی ایران میں 'فارسی' کا ذکر کیا ہے وہاں اُن کی مراد سامانی دور میں آغاز ہونے والی 'فارسیِ دری' نہیں ہے، بلکہ یہاں اُن کے پیشِ نظر وہ لہجے اور زبانچے ہیں جو فارسیِ دری کے رواج کے قبل موجودہ ایران میں بولے جاتے تھے اور جو پہلوی زبان سے قُربت رکھتے تھے۔ موجودہ ایران میں فارسیِ دری سلجوقی دور میں ماوراءالنہر اور خُراسان کی سَمت سے آئی تھی اور ایران میں فارسیِ دری یعنی اسلامی دور کی فارسیِ نو کے رواج میں سلجوقیوں کا بسیار اہم کردار ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دامُلّا
ماوراءالنہر اور افغانستان میں دینی پیشواؤں کو تعظیماً 'دامُلّا' کہا جاتا ہے۔ تاجک محقق مرحوم محمد جان شکوری بخارایی کے ایک مضمون 'تذکارِ اشعار، تذکرۂ منظومِ صدرِ ضیا' میں اِمروز نظر آیا ہے اُن کے مطابق اِس لفظ میں موجود 'دا' چینی زبان سے ماخوذ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"واژه 'داملا' معنای ملای بزرگ دارد (دا-دَه به زبان چینایی به معنای بزرگ بوده است و واژهٔ داملا شاید در کاشغر و اویغورستان پیدا شده بعد به ورارود و افغانستان کنونی آمده باشد)."
ترجمہ: "لفظِ 'دامُلّا' کا معنی مُلّائے بزرگ ہے (دا/دہ چینی زبان میں 'بزرگ' کے معنی میں استعمال ہوتا آیا ہے اور لفظِ 'دامُلّا' شاید کاشغر اور اویغورستان میں مُختَرَع ہو کر بعد میں ماوراءالنہر اور حالیہ افغانستان میں آ گیا ہو)۔"

× ماوراءالنہری اور افغان فارسی میں 'چینی' کے علاوہ 'چینایی' بھی استعمال ہوتا ہے۔
 
Top