محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
افغانستان میں خداحافظی کے لئے "بامانِ خدا" مستعمل ہے، ایران میں "خدا حافظ" اور تاجیکستان میں "خیر" مستعمل ہے۔
ہم نے اسلام آباد میں افغانیوں کو "برو بخیر" کہتے ہوئے سنا ہے
افغانستان میں خداحافظی کے لئے "بامانِ خدا" مستعمل ہے، ایران میں "خدا حافظ" اور تاجیکستان میں "خیر" مستعمل ہے۔
بلے۔۔یہ بھی مستعمل ہے اور بامانِ خدا بھی استعمال ہوتا ہے۔بلکہ بروبخیر(یا "برین بخیر") کے بعد آخری کلمہ یہی بامانِ خدا ہوتا ہے۔ہم نے اسلام آباد میں افغانیوں کو "برو بخیر" کہتے ہوئے سنا ہے
'افغانی' افغانستان کے سکۂ رائج الوقت کا نام ہے۔ مردُمِ افغانستان کو 'افغان' کہتے ہیں، اور اِسے ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ہم نے اسلام آباد میں افغانیوں کو "برو بخیر" کہتے ہوئے سنا ہے
یعنی یوں کہیں گے کہ ہم نے اسلام آباد میں افغانوں کو "برو بخیر" کہتے ہوئے سنا ہے'افغانی' افغانستان کے سکۂ رائج الوقت کا نام ہے۔ مردُمِ افغانستان کو 'افغان' کہتے ہیں، اور اِسے ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔
کیا یوں ترجمہ کیا جا سکتا ہے کہشاید اِس کا ترجمہ یوں کرنا ممکن ہو:
اگر میں فریاد پر آہِ حسرت نہ کھینچوں تو میں چرخ کے باعث نالہ کروں گا؛ اگر میں طوفان پر حسرت و افسوس نہ کروں تو میں زمانے پر گریہ کروں گا۔
لب از شِیرِ مادر شُستنفردوسی طوسی شاہنامہ میں سلطان محمود غزنوی کی مدح میں کہتے ہیں:
چو کُودک لب از شِیرِ مادر بشُست
به گهواره، محمود، گوید نخُست
(فردوسی طوسی)
جب بچّہ شیرخوارگی کا زمانہ ختم کر لیتا ہے تو وہ گہوارے میں سب سے قبل 'محمود' کہتا ہے۔
(یعنی جب بچّہ بولنا سیکھتا ہے تو اُس کی زبان پر سب سے قبل 'محمود' کا نام آتا ہے۔)
'دریغ خوردن' کا معنی افسوس و حسرت کھانا اور متأسف ہونا ہے۔کیا یوں ترجمہ کیا جا سکتا ہے کہ
اگر مجھے فریاد کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو چرخ کے باعث نالہ کروں اور اگر طوفان آنے کا غم نہ ہو تو زمانے کے باعث نالہ کروں۔
یعنی ستم ہائے زمانہ چرخ سے زائد ہیں۔
اردو میں 'دادن' کے بُنِ مضارع 'دِه' کا تلفظ کلاسیکی اور تاجکستانی فارسی جیسا ہے، اور ہر مورد میں اِس کا اور اِس سے ترکیب پانے والے الفاظ کا تلفظ دال پر زیر ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔
آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں اُن میں دال پر زبر ہی ہے۔ میرا اشارہ فرمان دہ، نقصان دہ، نجات دہندہ، رائے دہندگان وغیرہ الفاظ کی جانب تھا، جن کا تلفظ دال پر زیر کے ساتھ ہوتا ہے، اور جو مصدرِ 'دادن' (دینا) سے تعلق رکھتے ہیں۔ہم تو اردو کے الفاظ کشادہ، آزمودہ ، خمیدہ بوسیدہ، فرمودہ وغیرہ کو "د" پر زبر کے ساتھ پڑھتے تھے!
تنها نه من جنونیِ ابرویِ اُوستم
آن ماهِ نو که دید که عقلش نزایلید
(طرزی افشار)
صرف میں ہی اُس کے ابرو کا جنونی نہیں ہوں۔۔۔ ایسا کون ہے جس نے اُس ماہِ نو کو دیکھا ہو اور اُس کی عقل زائل نہ ہو گئی ہو؟
× 'زایلیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدر ہے۔
قویمازیدم که بیر قدم از پیِ دلبران رود
اولسایدی اگر کونُل در کفِ اختیارِ من
(طرزی افشار)
اگر دل میرے کفِ اختیار میں ہوتا تو میں اُسے دلبروں کے پیچھے ایک قدم بھی نہیں جانے دیتا۔
× اِس بیت میں استعمال ہونے والے تُرکی الفاظ:
قویمازیدم = میں نہیں اجازت دیتا، میں نہیں ہونے دیتا
بیر = ایک
اولسایدی = اگر ہوتا
کونُل = دل
× صفوی دور کے شاعر طرزی افشار آذربائجانی تُرک تھے۔
با منِ دلخسته ای دلدار جنگیدن چرا
تو غزالِ گلشنِ حُسنی پلنگیدن چرا
(طرزی افشار)
اے دلدار! مجھ دل خستہ کے ساتھ جنگ کرنا کس لیے؟ تم گُلشنِ حُسن کے غزال ہو، تیندوا بننا کس لیے؟
× 'پلنگیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدر ہے۔
با مسلمانانِ مسکین کافریدن بهرِ چه
با گرفتارانِ مُستَضعَف فرنگیدن چرا
(طرزی افشار)
[اے محبوب!] مسکین مسلمانوں کے ساتھ کافرانہ رویہ اپنانا کس لیے؟ ضعیف و ناتواں اسیروں کے ساتھ فرنگیانہ رویہ اپنانا کس لیے؟
× 'کافریدن' اور 'فرنگیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
مینگاهی بر من و میالتفاتی با رقیب
با منِ یکرنگ ای رعنا دورنگیدن چرا
(طرزی افشار)
تم نگاہ مجه پر کرتے ہو لیکن اِلتِفات تم رقیب کے ساتھ کرتے ہو؛ اے رعنا! مجھ یک رنگ کے ساتھ دو رنگی کس لیے؟
× 'نگاهیدن'، 'التفاتیدن' اور 'دورنگیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
افتاده دل به دامکِ وحشینگاهکی
بیرحمکی، ستمگرکی، دلسیاهکی
(طرزی افشار)
میرا دل ایک وحشی نگاہ [محبوب] کے دام میں گرفتار ہو گیا ہے، جو بے رحم ہے، ستم گر ہے اور دل سیاہ ہے۔
× 'ک' حَرفِ تصغیر ہے۔
از حُسنکِ تو ذرّهاَکی کم نمیشود
گر بِنْگری به سُویَکِ ما گاهگاهکی
(طرزی افشار)
اگر تم گاہ گاہ ہماری جانب نگاہ کر لو تو تمہارے حُسن سے ایک ذرّہ بھی کم نہ ہو جائے گا۔
× 'ک' حَرفِ تصغیر ہے۔
نمیهندم نمیرُومم برایِ جِیفهٔ دنیا
نَیَم چون شاعرانِ دیگر ابله، میصفاهانم
(طرزی افشار)
میں دنیا کی مُردار لاش کے لیے ہند اور رُوم نہیں جا رہا؛ میں دیگر شاعروں کی طرح احمق نہیں ہوں، میں اصفہان جا رہا ہوں۔
× 'هندیدن'، 'رومیدن' اور 'صفاهانیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
به عزمِ آستان بوسیدنِ شه میصفاهانم
پَیِ کُحلیدن از آن خاکِ درگه میصفاهانم
(طرزی افشار)
میں شاہ کا آستانہ بوسنے کے ارادے سے اصفہان جا رہا ہوں؛ میں اُس درگاہ کی خاک کو سرمۂ چشم بنانے کے لیے اصفہان جا رہا ہوں۔
× بوسنا = چومنا، بوسہ دینا
× 'صفاهانیدن' اور 'کُحلیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
کیفیّتِ عشقت فُقَها را نبُوَد یاد
هرچند که در مدرَسهها کَیف و کَمیدند
(طرزی افشار)
تمہارے عشق کی کیفیّت فقیہوں کو یاد نہیں ہے؛ ہرچند کہ اُنہوں نے مدرَسوں میں [چیزوں کے] چون و چند پر بحثیں [فراواں] کی ہیں۔
× 'کیف و کمیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدرِ مرکّب ہے۔
محرابِ ابروانِ بتی قبلهایدهام
مِنّت خدای را که نمازم نباطلید
(طرزی افشار)
میں نے ایک بُت کی ابروؤں کی محراب کو قبلہ بنایا ہے؛ خدا کا شکر کہ میری نماز باطل نہ ہوئی۔
× 'قبلهایدن' اور 'باطلیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
بحریست کار و بارِ جهان پُر ز شور و شر
خُرّم شِناوری که از این بحر ساحلید
(طرزی افشار)
دنیا کا کار و بار اور مُعاملہ شور و شر سے پُر ایک بحر ہے؛ خوشا وہ شِناور کہ جو اِس بحر سے ساحل تک پہنچ گیا۔
× شِناور = تیراک
× 'ساحلیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدر ہے۔
جس طرح اردو میں نظری لحاظ سے کس بھی اِسم یا صفت کے ساتھ 'نا' متّصل کر کے مصدر بنایا جا سکتا ہے مثلاً 'فارسیانا، عجمنا، عربنا، کرکٹنا، فٹبالنا، بہترنا، نِجاتنا، لِباسنا، حکومتنا' وغیرہ، اُسی طرح فارسی میں بھی اِس چیز کا امکان موجود ہے کہ کسی بھی اسم یا صفت کے آخر میں مصدر ساز لاحقہ 'یدن' لگا کر مصدرِ جعلی اختراع کر دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو اور فارسی ہر دو زبانوں میں مصدرِ جعلی زیادہ استعمال نہیں ہوتے، بلکہ اُن کی بجائے مرکّب مصادر ہی رائج ہیں اور شعر و ادب کی معیاری زبان میں بھی مرکّب مصادر ہی بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ لیکن فارسی شاعری کی تاریخ میں 'طرزی افشار' کے نام سے ایک منفرد شاعر گذرے ہیں، جن کی تمام شاعری ہی مصادرِ جعلی کے دلچسپ فن کارانہ و ظریفانہ استعمال اور شعری زبان کی معیار شکنی سے عبارت ہے۔ اُنہوں نے تقریباً ہر بیت میں اپنے اختراع کردہ مصادر کو استعمال کیا ہے۔ اور اگرچہ وہ فارسی میں شعر کہنے والے واحد آذربائجانی تُرک نہیں ہیں، لیکن اُنہوں نے فارسی شعروں میں اپنی مادری زبان تُرکی کا بھی آزادانہ استعمال کیا ہے، حتیٰ کئی بار کسی تُرکی لفظ کی مدد سے فارسی کا مصدر جعل کیا ہے۔ یہ چیز بہ ہر حال یقینی ہے کہ اُن جیسی منفرد طرز اور غیر معیاری زبان والا فارسی شاعر کوئی دیگر نہیں گذرا ہے۔ اُن کا دیوان یہاں سے خوانا اور بارگیری کیا جا سکتا ہے۔اگر میحریرم اگر میپَلاسم
به هر حال میشُکرم و میسِپاسم
(طرزی افشار)
خواہ میں ریشمی لباس پہنوں یا خواہ دُرُشت پَشمی لباس پہنوں؛ میں ہر حال میں [خدا کا] شکر کرتا اور سپاس کہا ہوں۔
× دُرُشت =کُھردرا؛ پَشْمی = اُونی
× 'حریریدن'، 'پلاسیدن'، 'شُکریدن' اور 'سپاسیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
اردو میں عموماً صرف عاشق و معشوق ہی ایک دوسرے کو 'جان' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ لیکن فارسی گو معاشروں میں دو قریبی دوست بھی اُنس و صمیمیت ظاہر کرنے کے لیے ایک دوسرے کے لیے اِس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اگر میں اپنے محترم دوست اریب آغا کو اریب جان کہہ کر پکاروں تو فارسی گو معاشروں میں یہ ایک بالکل عام بات سمجھی جائے گی۔
ماوراءالنہر کی دونوں قومیں تاجک و اُزبک خدا کو محبّت کے ساتھ پکارنے کے لیے اُس کے ساتھ بھی 'جان' کا لاحقہ لگاتی ہیں۔ مثلاً:متشکرم برادر جانِ من۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں بزرگ افراد محبت میں اپنے چھوٹوں کے نام کے ساتھ جان اور گل کا لاحقہ لگاتے ہیں۔
افغانوں میں بھی یہ چیز مرسوم ہے، لیکن ایرانیوں میں اِس کا استعمال کم ہے۔مرا دادی عجب یاری، خُداجان،
عجب شوخِ ستمگاری، خُداجان.
دلم را دادَمَش بِگْرفت و بِگْریخت،
رسان او را به من باری، خُداجان.
(صَفَر ایوبزادهٔ محزون)
اے خدا جان! تم نے مجھے ایک عجب یار دیا؛ اے خدا جان! ایک عجب شوخ و ستم گار [دیا]۔ میں نے اُسے اپنا دل دیا، اُس نے لیا اور [مجھ سے دُور] فرار کر گیا؛ اے خدا جان! اُسے ایک بار مجھ تک پہنچا دے۔
× شاعر کا تعلق تاجکستان سے ہے۔
واوِ معدولہ کی حکایت یہ ہے کہ جب فارسی زبان لکھی جانی شروع ہوئی تھی تو اُس وقت یہ واو تلفظ کیا جاتا تھا۔ یعنی خواہر کو xâhar کی بجائے xvâhar پڑھا جاتا تھا۔ اسی لیے ایسے الفاظ کے املا میں واو شامل ہے۔ لیکن بعد میں اگرچہ اِس واو کا تلفظ مفقود ہو گیا، لیکن الفاظ کا املا وہی رہا جو شروع سے تھا۔
فردوسی نے مندرجۂ ذیل شعر میں دانہ کَش اور خوش کو ہم قافیہ باندھا ہے کیونکہ اُن کے زمانے میں لفظِ خوش کا قدیم تلفظ خوَش زندہ تھا۔ لیکن اب خوش کا واؤ ساکت ہے۔
میازار موری که دانهکَش است
که جان دارد و جانِ شیرین خوَش است
اردو شاعر امام بخش ناسخ بھی قدیم فارسی کی پیروی میں ایک بیت میں 'خوش' کا قافیہ 'مہ وش' لائے ہیں:میرا خیال ہے کہ اِس بیت میں شیخ سعدی شیرازی 'خوش' اور 'مشوّش' کو ہم قافیہ لائے ہیں، کیونکہ جن الفاظ میں 'خ' کے بعد واوِ معدولہ آتی ہے، مثلاً خوش، خواب، خواهر، خود وغیرہ، اُن الفاظ میں ابتداءً اُس واو کا تلفظ ہوتا تھا، اِسی لیے اُن کے املاء میں واو آتا ہے۔ یعنی مذکورہ الفاظ کو بالترتیب خْوَش/xwaş، خْوَاب/xwâb، خْوَاهرxwâhar، خْوَد/xwad تلفظ کیا جاتا تھا۔
شعرِ کہن میں اِس طرح کے قافیے کی ایک اور مثال دیکھیے:
پس حکیمش گفت، کای سلطانِ مِه
آن کنیزک را بدین خواجه بدِه
تا کنیزک در وصالش خوش شود
آبِ وصلش دفعِ آن آتش شود
(مولانا جلالالدین رومی)
پس حکیم نے [شاہ] سے کہا کہ: اے سلطانِ بزرگ! وہ کنیز اِس خواجہ کو عطا کر دو۔ تاکہ کنیز اِس کے وصال میں خوب و خوش ہو جائے اور اِس کے وصل کا آب اُس آتش کو خاموش کر دے۔
"اکثر پشتونوں کو اپنی قبائلی وابستگی کا بہت زیادہ احساس ہوتا ہے، اگرچہ کابُل اور ہِرات نقلِ مکانی کر جانے والے بہت سے پشتونوں کا اپنے قبیلوں سے تعلق منقطع ہو جانے کے بعد اُن کی زندگی سے قبائلی نظام ختم ہو چکا ہے۔ اِن نژادی پشتونوں میں سے کئی افراد اب پشتو نہیں بولتے، اگرچہ وہ پشتون کے طور پر اپنی شناخت کراتے ہیں۔ ایسے پشتون افغانستان میں دری، جبکہ پاکستان میں اردو اور بلوچی بولتے ہیں۔"کابل اور ہِرات جیسے شہروں میں کئی خانوادے ایسے موجود ہیں جو نسلاً تو پشتون ہیں، لیکن اُن میں گفتاری زبان کے طور پر فارسی مستعمَل ہے۔
ماوراءالنہر میں 'انتظار' منتظر کے معنی میں، جبکہ 'انتظاری' انتظار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔(رباعی)
بس تیرهشبِ فصلِ تَمُوز آخر شد
بس عالَمِ درد و داغ و سوز آخر شد
یک عمرِ دراز انتظارت بودم
نوبت که به ما رسید، روز آخر شد
(صَفَر امیرخان)
موسمِ گرما کی کتنی ہی تاریک شبیں ختم ہو گئیں؛ درد و داغ و سوز کے کتنے ہی عالَم ختم ہو گئے؛ میں ایک طویل عمر سے تمہارا منتظر تھا؛ [لیکن] جب باری ہم تک پہنچی، روز ختم ہو گیا۔
× شاعر کا تعلق تاجکستان سے ہے۔