ایرانی فارسی میں گاجر کو 'هوِیج', افغان فارسی میں 'زردک'، جبکہ تاجک فارسی میں 'سبزی' (!) کہتے ہیں۔
دانش نامۂ ایرانیکا کے مطابق، ایران میں گاجر کو قبلاً 'گزر' یا 'زردک' کہا جاتا تھا۔ لفظِ 'هویج' کا استعمال بعد میں رائج ہوا ہے۔ لغت نامۂ دہخدا میں 'گزر' کے کُہنہ فارسی شاعری میں استعمال کی مثالیں بھی ثبت ہیں۔ نیز، اِس لفظ کا مُعرّب 'جزر' بھی فارسی میں استعمال ہو چکا ہے۔ لیکن فی زماننا، ایران میں سب سے بیشتر 'هویج' ہی رائج ہے۔ البتہ، ایران کے چند علاقائی لہجوں میں 'گزر' یا اِس سے مشابہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
افغان فارسی میں، اور گذشتہ ادوار میں ایران میں بھی، گاجر کو 'زردک' (زرد + کافِ تصغیر) کہنے کا سبب یہ ہے کہ وہاں جو گاجر رائج تھی وہ زرد رنگ کی ہوتی تھی۔ نارنگی گاجر ایران میں انیسویں صدی میں 'هویجِ فرنگی' کے نام سے متعارف ہوئی تھی، جس نے بعد میں ایران میں بھی زرد گاجروں کی جگہ لے لی۔
چونکہ زبانِ تُرکی میں گاجر کو 'هاووچ/havuç' کہتے ہیں، اِس لیے میرا خیال تھا کہ شاید ایرانی فارسی کا 'هویج' تُرکی الاصل لفظ ہے۔ لیکن علی اکبر دہخدا کی رائے ہے کہ یہ لفظ عربی کے 'حوائج' سے مأخوذ ہے، اور اُن کی رائے تھی کہ اِس لفظ کو 'ه' کی بجائے 'ح' سے لکھنا چاہیے۔ آُنہوں نے اپنے خیال کا اظہار کیا ہے کہ کلمۂ 'هویج' اساساً عربی کی عبارت 'حوائج القِدر' (دیگ کی ضروریات) سے نکلا ہے۔ یہ لفظ فارسی میں اولاً 'حوائجِ باورچی خانہ' کے معنی میں 'حویج' کی شکل میں رائج ہوا ("گه چون حویجِ دیگ بجوشیم..."، مولانا رومی)، بعداً اِس کے معنی میں تنگی آ گئی، اور یہ صرف گاجر کے لیے استعمال ہونے لگا جو دیگ یا باورچی خانے کی فقط ایک ضروری چیز تھی۔ دانش نامۂ ایرانیکا کے مطابق، 'هاووچ' اناطولیائی و آذربائجانی تُرکی میں فارسی ہی سے گیا ہے۔ بہ علاوہ، تُرکیہ کے ایک لغت نامے 'قُبّهآلتی لغتی' میں بھی 'هاووچ' کی اصل فارسی کا 'هویج' بتایا گیا ہے۔