زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں 'آفرین!' کے معنی میں 'اَحسَنْت' کا استعمال معمول ہے، اور گفتاری و نَوِشتاری زبان میں اِس کا استعمال بکثرت ہوتا ہے۔ اردو میں بھی یہ لفظ استعمال ہو چکا ہے:
"اَحسَنْت دبیر! اب تو سخن ہے ترا اعجاز"
(مرزا دبیر)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تا که شد خورشیدِ رخسارش به عالَم جلوه‌گر
از حسد داغِ کَلَف بر چهرهٔ مهتاب شد
جیسے ہی اُس کا خورشید رُخسار دنیا میں جلوہ گر ہوا، حسد سے چہرۂ ماہ پر داغ وجود میں آ گیا۔
ابھی معلوم ہوا ہے کہ ماہ کے دھبّوں کو فارسی میں 'کَلَف' کہتے ہیں، جو عربی سے مأخوذ لفظ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جس طرح اردو میں فارسی کا 'چشم زدن' استعمال ہوتا ہے، مثلاً: "عمر ایک چشم زدن میں گذر جاتی ہے۔"، اُسی طرح فارسی میں عربی سے مأخوذ ترکیب 'طَرفةُالعَین' استعمال ہوتی ہے۔

کلاسیکی فارسی سے ایک مثال:
توانایی که در یک طَرفة‌العین
ز کاف و نون پدید آورد کونین
(محمود شبستری)

[خدا] وہ قادر و توانا [ہے] کہ ایک چشم زدن میں کاف و نون سے کونین وجود میں‌ لے آیا۔

معاصر فارسی سے ایک مثال:
"ما امروز زبانی را از دست داده‌ایم که لهیبِ ندایش جان‌ها را بی‌تاب می‌کرد و به طرفة‌العین آمادۀ شهادتشان می‌ساخت."
ترجمہ: ہمارے پاس اِمروز وہ زبان نہیں رہی ہے کہ جس کی ندا کا شعلہ جانوں کو بے تاب کرتا تھا اور ایک چشم زدن میں اُنہیں شہادت پر آمادہ کر دیتا تھا۔

اردو میں اِس کے استعمال کی مثال:

دل کو جب مائلِ چشمانِ بُتاں کیجئے گا
طَرفۃ العین میں سیرِ دو جہاں کیجئے گا

(شاہ نصیر)

'طَرفہ' عربی میں پلک کی ایک بار جھپک کو کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شلخته، شلختگی

ایرانی فارسی میں لااُبالی، کاہل، بے نظم و ترتیب، نامرتّب، درہم و برہم، نامنظّم، بے تربیت، بے سلیقہ وغیرہ اشخاص کو، خصوصاً عورتوں کو، 'شِلَخْته' یا شَلَخْته' کہا جاتا ہے۔ اوّل الذکر تلفظ حالا زیادہ رائج ہے۔
یہ صفت عموماً و معمولاً عورتوں کے لیے بروئے کار لائی جاتی رہی ہے، لیکن اب اِس کا استعمال مردوں، بچّوں یا بے جان چیزوں کے لیے بھی نظر آتا ہے۔ یہ لفظ بنیادی طور پر تو ایرانی فارسی کا عامیانہ گفتاری لفظ ہے، لیکن الحال تحریروں میں بھی یہ رائج ہے۔
تاجکستان میں یہ لفظ قطعاً رائج نہیں ہے، اور کلاسیکی فارسی میں بھی یہ لفظ کہیں مجھے نظر نہیں آیا۔ افغانستان کی چند ویب گاہوں پر یہ لفظ نظر آیا ہے، لیکن یہ مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ آیا یہ لفظ وہاں بھی شروع سے رائج رہا ہے یا پھر یہ ایرانی فارسی کے اثر سے استعمال ہونا شروع ہوا ہے، یا یہ کہ آیا وہاں بھی اِس لفظ کا بِعینِہ وہی معنی ہے جو ایران میں رائج ہے یا وہاں اِس کے مفہوم میں کوئی باریک فرق ہے۔ واللہ اعلم!
لفظِ ہٰذا سے مُشتَق حاصلِ مصدر 'شلختگی' بھی معاصر ایرانی گفتاری و نَوِشتاری فارسی میں رائج ہے۔

دونوں لفظوں کے استعمال کی مثالیں دیکھیے جو ایرانی مطبوعات سے مقتبس کی گئی ہیں:
"یک زنِ شلخته و تنبلِ ولزی به دلیلِ امتناع از فرستادنِ فرزندش به مدرسه به ۹ هفته زندان محکوم شد."
"زندگی کردن در خانه‌ای شلخته و به‌هم ریخته بسیار سرسام‌آور است."
"یکی از مشکلاتِ والدین بی‌نظمی و شلختگیِ نوجوان است."
 

حسان خان

لائبریرین
نہ تو ایران واحد فارسی گو ملک ہے، نہ ایران میں ہر کوئی فارسی زبان بولتا ہے، اور نہ ایران میں ہر جگہ فارسی گفتاری لحاظ سے غالب زبان ہے۔ مجھے ویکی پیڈیا پر ایک نقشہ نظر آیا ہے جس میں ایرانی صوبوں میں فارسی گویوں کی فیصدی تعداد دِکھائی گئی ہے۔ بالخصوص، دیکھا جا سکتا ہے کہ ایرانی خطّوں آذربائجان، کُردستان، لُرستان، گیلان اور مازندران میں فارسی گویوں کی تعداد خیلے کم ہے اور وہاں بالترتیب تُرکی، کُردی، لُری، گِیلَکی اور مازندَرانی زبانیں مقامی باشندوں کی مادری زبانیں ہیں اور گفتاری سطح پر غالب ہیں۔
Persian_in_Qazvin.jpg

مأخذ
لیکن چونکہ تدریس کی زبان فارسی ہے، اِس لیے ایران کا ہر تعلیم یافتہ شخص فارسی بخوبی بول سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سیّد سلیمان ندوی کی کتاب 'یادِ رفتگاں' کی ورق گردانی کے دوران معلوم ہوا ہے کہ اردو میں رائج اصطلاح 'نمائندہ' گذشتہ صدی کے فارسی اخباروں سے اخذ کی گئی تھی۔ کتابِ ہٰذا میں سلیمان ندوی نے 'مولوی وحیدالدین سلیم' کے ذیل میں لکھا ہے:
"۔۔۔نئے الفاظ کے تراشنے اور وضع کرنے میں ان کو پوری مہارت تھی، علی گڑھ گزٹ اور مسلم گزٹ کی اڈیٹری کے زمانہ میں بہت سے اردو الفاظ وضع کر کے انہوں نے پھیلائے ہیں، منجملہ اُن کے ایک لفظ 'نمائندہ' جو آج اس قدر کثیر الاستعمال ہے، انہیں نے اس لفظ کو جدید فارسی اخبارات سے لے کر اردو میں علی گڑھ گزٹ کے ذریعہ سے رائج کیا۔"

یعنی: اردو کے اُدَبائے مُتقدّمین نے فارسی کو کبھی اجنبی یا بیگانہ زبان نہیں سمجھا، اور فارسی سے اصطلاحیں اخذ کرنا کوئی خارق العادت یا تازہ چیز نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میں تاجکستان میں شائع ہونے والا ایک لسانیاتی-ادبیاتی مقالہ 'کاربُردِ پیشوندهایِ فعل‌ساز در اشعارِ عبدالرحمٰن جامی' خوان رہا تھا۔ اُس میں مجھے دو بند دلچسپ نظر آئے، جن میں ماوراءالنہری فارسی میں رائج ایک منفرد خاصیت کا ذکر تھا۔ میں وہ دو بند ترجمے کے ساتھ ذیل میں درج کر رہا ہوں:

"تنها در فعل‌هایِ درآمدن و درآوردن پیشایندِ در- از اساسِ فعلی جدانشونده است. در فعل‌هایِ نام‌بُرده پیشوندِ می- و حصّه‌چهٔ انکاریِ نه- پیش از پیشوندِ در- می‌آیند: ندرآمد، نمی‌درآید، می‌درآورْد.
در فعل‌هایِ باقی‌مانده پیشوندِ می- و حصّه‌چهٔ انکاریِ نه- در بینِ اساسیِ (کذا) فعلی و پیشوندِ فعل‌ساز می‌آیند: درمی‌گرفت، درنمی‌مانَد، درمی‌افتاد، درنگیرند و مانندِ اینها."


ترجمہ:
"صرف 'درآمدن' اور 'درآوردن' افعال میں سابقۂ 'در-' فعلی اساس سے ناقابلِ جدائی ہے۔ مذکورہ افعال میں 'می-' کا سابقہ اور انکاری حَرف 'نه-'، سابقۂ 'در-' سے قبل آتے ہیں؛ می‌آیند: ندرآمد، نمی‌درآید، می‌درآورْد.
بقیہ افعال میں سابقۂ 'می-' اور انکاری حَرف 'نه-' فعل کی اساس اور فعل ساز سابقے کے درمیان میں آتے ہیں: درمی‌گرفت، درنمی‌مانَد، درمی‌افتاد، درنگیرند وغیرہ۔"


حاصلِ کلام یہ ہے کہ ماوراءالنہری فارسی میں 'درآمدن' اور 'درآوردن' کی جب تصریف ہوتی ہے تو اُس میں عموماً 'می-' اور 'نه-' فعل سے متّصل ہونے والے سابقۂ 'در-' سے قبل آتے ہیں۔ لیکن 'در-' کے ساتھ آنے والے دیگر مصادر میں ایسا نہیں ہوتا۔ اور یہ قاعدہ صرف ماوراءالنہر میں بروئے کار لایا جاتا ہے، ایرانی فارسی میں 'آمدن' اور 'آوردن' مصدروں کی تصریف اور نفی دیگر مصادر ہی کی مانند ہوتی ہے۔ یقیناً، اب تاجکستانی مطبوعات میں 'می‌درآید' اور '‏می‌درآورْد' کی بجائے 'درمی‌آید' اور 'درمی‌آورْد' بھی نظر آتے ہیں، جو میرے خیال سے ایرانی فارسی ہی کا اثر ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قرنِ ہجدہمِ عیسوی کے عثمانی شاعر سُنبُل‌زاده وہبی کے نزد سُخن کی بلند پروازی کے لیے فارسی و عربی کے دو شہبال لازم تھے۔ وہ ایک قصیدے میں کہتے ہیں:
فارسی و عربی‌دن ایکی شه‌بال ایستر

تا که پروازِ بلند ائیله‌یه عنقایِ سُخن
(سُنبُل‌زاده وهبی)
عنقائے سخن کی بلند پروازی کے لیے عربی و فارسی سے دو شہبال ضروری ہیں۔
(یا عنقائے سُخن، پروازِ بلند کرنے کے لیے فارسی و عربی سے دو شہبال چاہتا ہے۔)

تحت اللفظی ترجمہ:
فارسی و عربی سے دو شہبال چاہییں/چاہتا ہے
تا کہ پروازِ بلند کرے عنقائے سُخن

Fârisî vü ‘Arabî'den iki şehbâl ister
Tâ ki pervâz-ı bülend eyleye ‘Ankâ-yı sühan
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں 'گنجے' کو 'کَل' بھی کہتے ہیں۔ مثلاً:
"بر سرش زد، گشت طوطی کَل ز ضرب"
(مثنویِ رومی)
ترجمہ: اُس نے [طوطے] کے سر پر مارا، [اور] طوطا ضرب سے گنجا ہو گیا۔

فارسی میں 'گنجے' کے لیے 'بی‌مو، بدونِ مو، طاس، کَچَل اور کَل' الفاظ موجود ہیں۔ گفتاری ایرانی فارسی میں سب سے زیادہ 'کَچَل' جبکہ کتابی و رسمی ایرانی فارسی میں سب سے بیشتر 'طاس' استعمال ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایرانی فارسی میں گاجر کو 'هوِیج', افغان فارسی میں 'زردک'، جبکہ تاجک فارسی میں 'سبزی' (!) کہتے ہیں۔
دانش نامۂ ایرانیکا کے مطابق، ایران میں گاجر کو قبلاً 'گزر' یا 'زردک' کہا جاتا تھا۔ لفظِ 'هویج' کا استعمال بعد میں رائج ہوا ہے۔ لغت نامۂ دہخدا میں 'گزر' کے کُہنہ فارسی شاعری میں استعمال کی مثالیں بھی ثبت ہیں۔ نیز، اِس لفظ کا مُعرّب 'جزر' بھی فارسی میں استعمال ہو چکا ہے۔ لیکن فی زماننا، ایران میں سب سے بیشتر 'هویج' ہی رائج ہے۔ البتہ، ایران کے چند علاقائی لہجوں میں 'گزر' یا اِس سے مشابہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
افغان فارسی میں، اور گذشتہ ادوار میں ایران میں بھی، گاجر کو 'زردک' (زرد + کافِ تصغیر) کہنے کا سبب یہ ہے کہ وہاں جو گاجر رائج تھی وہ زرد رنگ کی ہوتی تھی۔ نارنگی گاجر ایران میں انیسویں صدی میں 'هویجِ فرنگی' کے نام سے متعارف ہوئی تھی، جس نے بعد میں ایران میں بھی زرد گاجروں کی جگہ لے لی۔
چونکہ زبانِ تُرکی میں گاجر کو 'هاووچ/havuç' کہتے ہیں، اِس لیے میرا خیال تھا کہ شاید ایرانی فارسی کا 'هویج' تُرکی الاصل لفظ ہے۔ لیکن علی اکبر دہخدا کی رائے ہے کہ یہ لفظ عربی کے 'حوائج' سے مأخوذ ہے، اور اُن کی رائے تھی کہ اِس لفظ کو 'ه' کی بجائے 'ح' سے لکھنا چاہیے۔ آُنہوں نے اپنے خیال کا اظہار کیا ہے کہ کلمۂ 'هویج' اساساً عربی کی عبارت 'حوائج القِدر' (دیگ کی ضروریات) سے نکلا ہے۔ یہ لفظ فارسی میں اولاً 'حوائجِ باورچی خانہ' کے معنی میں 'حویج' کی شکل میں رائج ہوا ("گه چون حویجِ دیگ بجوشیم..."، مولانا رومی)، بعداً اِس کے معنی میں تنگی آ گئی، اور یہ صرف گاجر کے لیے استعمال ہونے لگا جو دیگ یا باورچی خانے کی فقط ایک ضروری چیز تھی۔ دانش نامۂ ایرانیکا کے مطابق، 'هاووچ' اناطولیائی و آذربائجانی تُرکی میں فارسی ہی سے گیا ہے۔ بہ علاوہ، تُرکیہ کے ایک لغت نامے 'قُبّه‌آلتی لغتی' میں بھی 'هاووچ' کی اصل فارسی کا 'هویج' بتایا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:
مرزا غالب کی شاعری کو ایران، افغانستان اور تاجیکستان میں قبولیتِ عام حاصل کیوں نہ ہوسکی؟ اس بارے میں کسی مقالے کا حوالہ مل جائے تو خوب تر ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرزا غالب کی شاعری کو ایران، افغانستان اور تاجیکستان میں قبولیتِ عام حاصل کیوں نہ ہوسکی؟
میرے خیال سے اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ میرزا غالب کی ادبی زندگی اُس دور میں گذری جب اُن کے شہر و دیار کا فعّال لسانی و ادبی رابطہ افغانستان و ماوراءالنہر و ایران کے ساتھ منقطع ہو چکا تھا۔ میرزا غالب کو اپنے دور سے قبل متولّد ہونا چاہیے تھا، اور شاید اِس بات کا احساس خود اُن کو بھی تھا۔
ضمناً، آپ کو شاید یہ چیز دلچسپ لگے کہ افغانستان میں واقف لاہوری کو بھی ایک مشہور و معروف شاعر کا درجہ حاصل رہا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بَرِید
فارسی میں 'قاصد و نامہ بر' کے لیے لفظِ 'بَرید' بھی موجود ہے، جو ادبی و شاعرانہ زبان میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً:
" ای بَریدِ دردمندان بِگْذری گر زان دیار..."
ترجمہ: "اے دردمندوں کے قاصد! اگر تُم اُس دیار سے گذرو۔۔۔"

پس نوشت: عربی میں یہ لفظ 'ڈاک' کے معنی میں رائج ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"۔۔۔فارسی شاعری کا خُراسانی دبستان طرزِ بیان کے مقابلے میں سچّے تجربے کو اہمیّت دیتا ہے۔ وہ 'عراقیوں' کی طرح الفاظ و تراکیب کی نعومت اور نازکی کا دِل دادہ نہیں۔ خُراسانی شاعروں کے ہاں صوتی لحاظ سے ثقیل اور گراں الفاظ عام تھے۔ اور چونکہ وہ اظہار کو بنیادی اہمیت دیتے تھے، اس لیے سَبُک اور لطیف الفاظ کی بطورِ خاص جستجو نہ کرتے تھے۔"
(ڈاکٹر سید عبداللہ، مسائلِ اقبال)
 

حسان خان

لائبریرین
شاعرِ ملّیِ البانیہ نعیم فراشری کے برادر، اور مشہور عثمانی ادیب و مؤلّف شمس‌الدین سامی فراشری (وفات: ۱۹۰۴ء) اپنی تُرکی کتاب 'خُرده‌چین'، جو ۱۳۰۲ھ/۱۸۸۵ء میں شائع ہوئی تھی، کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
"...ظن ایدرم که، بیوک بوناپارتڭ اوروپا لسانلری حقّنده اولان مشهور بر تقسیمی جدّی صورتیله تلقّی، و آسیا لسانلرینه دخی تطبیق اولنمق لازم گلسه، فارسی حقّنده: <شعر ایچون یارادلمش بر لساندر، و شعر او لسان ایچون ایجاد اولنمشدر> دنیله‌بیلیر."
"۔۔۔میرا گمان ہے کہ یورپی زبانوں کے بارے میں کی گئی بوناپارتِ کبیر کی ایک مشہور تقسیم بندی کو اگر بطورِ جِدّی قبول کرنا اور ایشیائی زبانوں پر بھی اُس کی تطبیق کرنا لازم ہو تو فارسی کے حق میں کہا جا سکتا ہے کہ <یہ شاعری کے لیے تخلیق ہونے والی ایک زبان ہے، اور شاعری اِس زبان کے لیے ایجاد ہوئی ہے>۔"

× جِدّی = سنجیدہ، سیریس
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بایگانی
فارسی میں 'آرکائیوز' یا 'محفوظات' کے لیے لفظِ 'بایگانی' استعمال ہوتا ہے:
"آن وقت به خاطرم آمد خوب است به بایگانیِ شهربانی مراجعه نمایم و ببینم که آیا پلیس 'گرانشار' را می‌شناسد یا نه و آیا این شخص سابقه در ادارهٔ آگاهی دارد یا خیر؟"
ترجمہ: "اُس وقت میرے ذہن میں آیا کہ بہتر ہے کہ میں کوتوالی کے محفوظات کی جانب رجوع کروں اور دیکھوں کہ آیا پولیس 'گرانشار' کو پہچانتی ہے یا نہیں، اور آیا ادارۂ جاسوسی میں اِس شخص کا کوئی اندراج رہا ہے یا نہیں؟"
 

حسان خان

لائبریرین
زبانِ تُرکی میں 'قېش' موسمِ زمستان کو کہتے ہیں، اور 'قېشلاق' ایسی گرم جا کو کہتے ہیں جہاں خانہ بدوش قبائل سرما میں کوچ کر جاتے ہیں۔ ایرانی فارسی میں 'قِشلاق' اِسی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور تاریخی لحاظ سے بھی 'قشلاق' اِسی معنی میں مستعمَل رہا ہے، اور اگرچہ 'زمستانگاہ' یا 'گرمسیر' کی شکل میں اُس کے چند فارسی معادلات موجود ہیں، لیکن ایرانی فارسی میں یہ تُرکی لفظ ہی رائج ہے۔
یہ درست ہے کہ تاجکستان اور ازبکستان کی زبانوں میں 'قشلاق' اب 'گاؤں' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن میرے خیال میں ہنوز اِسے علاقائی لفظ سمجھنا چاہیے۔ اور تاجکستانی کتابی فارسی میں بھی حالا 'گاؤں' کے لیے 'قشلاق' کے علاوہ 'دیهَه'، 'دِه'، 'رُوستا' اور 'قریه' استعمال ہوتے ہیں، جو 'کتابی تر' الفاظ ہیں۔ اگر آپ 'گاؤں' کی بجائے کسی فارسی (یا عربی) لفظ کو استعمال کرنا چاہتے ہوں، جو میری نظر میں یقیناً ایک احسن چیز ہے، تو آپ 'رُوستا' اور 'قریہ' استعمال کر سکتے ہیں۔

افغانستانی فارسی کے بارے میں آپ بہتر جانتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ وہاں 'قشلاق' کس معنی میں رائج ہے؟
غلام حیدر اسیر ہِروی نے اپنی کتاب 'انبنچهٔ گپِ هرات'، جو ہرات کے فارسی زبانچے میں استعمال ہونے والے مخصوص الفاظ و تعبیرات کی فرہنگ ہے، میں 'قشلاق' کے ذیل میں لکھا ہے:

"قَشْلاق = دهی که دارای چند خانوار باشد" (ترجمہ: وہ گاؤں جس میں چند خانوادے ہوں)

اور اِس کی مثال کے طور پر اُنہوں نے یہ مصرعِ مستزاد پیش کیا ہے:
آخر از برکتِ تو شهرهٔ آفاق شدم
۔۔۔۔۔۔۔۔خانِ قشلاق شدم


یعنی تاجکستان کی مانند ظاہراً افغانستان میں بھی، کم از کم ہِرات میں، لفظِ 'قشلاق' کا استعمال 'قریہ' اور 'گاؤں' کے معنی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ نظر آیا ہے کہ ماوراءالنہریوں اور ایرانیوں میں اِس لفظ کا تلفظ قاف پر زیر کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ ہِرات میں مردُم اِس کو قاف پر زبر کے ساتھ تلفظ کرتے ہیں، کیونکہ مذکورہ کتاب میں لفظِ ہٰذا قاف پر زبر کے ساتھ ہی درج ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شہرِ ڈھاکا سے تعلق رکھنے والے انیسوی عیسوی صدی کے فارسی گو شاعر سید محمود آزاد اپنے ایک اردو مقطع میں کہتے ہیں:
"آزاد نظمِ ریختہ کچھ میرا فن نہیں
واقف ہیں فارسی کے مرے شعرِ تر سے آپ"

(سید محمود آزاد)
یعنی: اے 'آزاد'! اردو میں نظم کہنا اور شاعری کرنا کوئی میرا فن نہیں ہے، بلکہ میرا حقیقی فن تو فارسی میں شعر سرائی ہے، اور آپ میرے فارسی میں کہے گئے شعرِ تر سے واقف ہیں۔
 
Top