میں نے بغور اس دھاگے کا مطالعہ کیا ہے ۔۔
بس یہی کہوں گا کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ شدید ہوتا ہے ۔۔
معاملہ زمین کے متحرک ہونے یا نہ ہونے کا ہے ۔۔
قرآن نے کہیں بھی صریح الفاظ میں یہ بات نہیں کہی کہ زمین ساکن ہے ۔۔ جو 9 آیات بیان کی گئی ہیں ان میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ملتی جس سے یہ بات ثابت ہو کہ زمین ساکن ہے ۔
ہاں زمین کا بچھایا جانا ۔ اس میں پہاڑوں کا نصب کیا جانا وغیرہ باتیں موجود ہیں ۔۔
قرآن مجید ۔ سورہ زمر آیت نمبر 7
خلق السماوات والأرض بالحق يكور الليل على النهار ويكور النهار على الليل وسخر الشمس والقمر كل يجري لأجل مسمى
یہاں کور کے معانی بیان کرتے ہوئے صاحب تفسیر قرطبی لکھتے ہیں :
قال الضحاك: أي يلقي هذا على هذا وهذا على هذا. وهذا على معنى التكوير في اللغة وهو طرح الشيء بعضه على بعض؛ يقال كور المتاع أي ألقى بعضه على بعض؛ ومنه كور العمامة
یعنی کور کا مطلب "لپیٹنا" ہے ۔۔۔
اب ذرا اس لپیٹنے پر غور کریں ۔۔
انسان نے خلا میں جا کر دیکھا ہے اور باقاعدہ تصاویر بنائی ہیں یہ تصاویر چاند سے لی گئی ہیں ۔۔
کہ سورج کس طرح زمین کے نصف کو روشن کر دیتا ہے اور کرہ کا دوسرا نصف تاریک رہتا ہے زمین گردش کرتی ہے روشنی وہی رہتی ہے ۔ اور نصف کرہ کا رقبہ چوبیس گھنٹے میں زمین کے چاروں طرف چکر لگا لیتا ہے ۔۔
متواتر لپٹنے کا یہی عمل تو ہے جس کو قرآن میں بیان کیا ہے ۔
زمین کی ایک ہی وقت میں سیٹلائٹ سے آن لائن لی گئی چند تصویریں ۔۔
اور پھر آخرمیں کہا گیا ہے
كل يجري لأجل مسمى
ہر ایک حرکت کر رہا ہے ایک مقررہ وقت تک کے لیے
یہاں بھی کچھ ثبوت دیے گئے ہیں ۔