! زندگی کی پیدا ئش: خدا کی تخلیق یا ارتقا؟ !

arifkarim

معطل
آجکل مغربی دنیا میں‌ زندگی کی پیدائش یا یوں کہئے کہ انسان کی پیدائش پر بہت بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔ غیر مذہبی حلقے اس بات کو گوارہ نہیں‌ کر رہے کہ اسکولوں میں‌ بائبل کا نظریہ پیدائش پڑھایا جائے، جبکہ مذہبی طبقہ نظریہ ارتقا کی تعلیم کی مخالفت کر رہا ہے!

نظریہ ارتقا، جو کہ انگلش حیاتیات چارلس ڈارون نے آج سے 150 سال قبل پیش کیا تھا۔ اس میں‌ سائنسی بنیادوں پر یہ ثابت کیا گیا کہ تمام انواع کی پیدائش یک دم نہیں‌ ہوئی بلکہ موجودہ زندگی اربوں‌ سال قبل سادا بیکٹیریاز کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے :eek:

انسان؛ جسے قرآن شریف میں اشرف المخلوقات کہا گیا، وہ بھی اسی پیچیدہ ارتقا کا نتیجہ ہے۔ آج سائنس اس بات کو ثابت کردی ہے کہ انسانی ڈی این اے کا 96 فیصد حصہ چیمپینزی سے ملتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ اللہ تعالی جو کہ حی و قیام ہے، یعنی زندہ ہے، زندگی بخشتا اور اسے قائم رکھتا ہے۔ وہ خدا نظریہ ارتقاء میں کیوں نظر نہیں‌ آرہا؟ کیونکہ ڈارون کے مطابق تمام قسم کی انواع ایک قدرتی انتخاب کے سبب وجود میں‌ آئیں۔ اور انہیں اپنے آپ کو قائم رکھنے کیلئے کسی ''اونچی'' طاقت کی ضرورت نہیں۔ اسی تحقیق کو بنیاد بنا کر بہت سے عیسائی جو کہ ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے، دہریہ ہو گئے۔ اور توحید کی طاقت ان قوموں میں کمزور پڑگئی۔۔۔

آپ دوستوں ‌ کی اس بارے میں‌ کیا رائے ہے؟ کیا قرآن کریم نظریہ ارتقا کو رد کرتا ہے؟ اگر قرآن مجید کی رو سے یہ نظریہ درست ہے تو پھر خدا کا اس میں کیا عمل دخل ہے؟

800px-Human_evolution_svg.png
 

ایم اے راجا

محفلین
عارف صاحب یہ موضوع واقعی قابلِ بحث ہے مگر چونکہ یہ ایک خالص مذہبی معاملہ بھی ہے سو کم علمی کی وجہ سے اس پر بات مناسب نہیں سمجھتا لیکن اگر کوئی مذہبی اسکالر محفل پر موجود ہے تو ان سے گزارش ہیکہ وہ اس نازک موضوع پر قرآن کریم کی رو سے روشنی ڈالیں، دہریوں کی کوشش ہیکہ مسلمان کائنات کی پیدائش اور تخلیق پر سائنس کو فالو کریں جبکہ بہت سے مسلمان اس سوال کو لیئے پھرتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی اور انسان کیسے پیدا ہوا، انسان پتھر کے دور میں بھی انسان ہی تھا گو کہ کم علم ضرور تھا لیکن اسوقت بھی اشرو المخلوقات ہی تھا حضرت آدم کی پیدائش تو قرآن سے ثابت ہے اور پھر دنیا ( انسان ) کا پھلنا پھولنا، ہاں انسان کی شکل و صورت مختلف ادوار میں مختلف رہی ہے اور ماحول کا اثر انسان کے قد و کاٹھ اور شکل پر ہوتا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گاؤں اور شہر کے انسان میں کتنا فرق ہوتا ہے، ہر موسم اور ماحول کا انسان الگ ہوتا ہے، مگر انسان کا ارتقا خود بخود ہو جانا ناممکن ہے ہر مادہ جو کسی شے کی تخلیق کا سبب بنا آخر اس مادہ کی تخلیق کیسے عمل میں آئی، اگر مان لیا جائے کہ انسان چیمپنزی کی ترقی یافتہ شکل ہے تو آخر چیمپنزی کی پیدائش کیسے ہوئی اگر وہ کسی مادے سے وجود میں آیا تو وہ مادہ کس طرح وجود میں آیا؟
سوال یہی پیدا ہوتا ہیکہ آخر کوئی خالق تو ضرور ہے ( بے شک ہے ) جس نے یہ بساط بچھائی اور پھر یہ کھیل شروع ہوا، وہ کون سی ذات ( طاقت ) ہے جو بچے کو ماں کے پیٹ میں رزق فراہم کرتی ہے اور مزے کی بات یہ کہ بچے کو ماں کے پیٹ میں حاجت بھی نہیں ہوتی اور پیدا ہوتے ہی بچہ حاجت کرتا ہے، کیا یہ کسی طاقت کے ہونے کا ثبوت نہیں، رہی بات سائنس کی تو سائنس بھی ایک علم ہے جو کہ اللہ کی کتاب سے ہی شروع ہوا ہے اور اللہ کی تخلیقات کا علم ہی تو ہے، لیکن سائینس کا رخ بے دین لوگ جس سمت موڑ رہے ہیں وہ غلط رخ ہے اور اس رخ پر اگر سائنس کو ناپہ جائے تو سائنس کی آدھی سے زیادہ تحقیقات سچ پر پوری نہیں اترتیں، اگر انسان کی پیدائش اور کائنات کی تخلیق صرف ایک ارتقا کے ذریعے وجود میں آئی ہے تو پھر اس ارتقائی عمل کی شروعات کہاں سے اور کس طرح سے ہوئی ہے، آکر کوئی طاقت تو ہے نہ جس نے اس عمل کو شروع کیا اور ارتقا کا پیچیدہ اور لمبا عمل شروع ہوا، کون ہے جو بال کو گرمائش آنے اور مڑ جانے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی حالت میں نہیں آنے دیتا، کیا سائینس سے یہ ثابت نہیں کہ انسان کا وجود مٹی اور پانی سے پیدا ہوا ہے، اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہیکہ انسان کو کھنکتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔
 
سب سے پہلے یہ عرض‌کرنا چاہتا ہوں‌کہ یہ میری خیال آرائی ہے۔ اور انداز سوالیہ ہے ۔ بیانیہ نہیں

انسان کی تخلیق - یہ وہ بنیادی سوال ہے جو ہر شخص پوچھتا ہے۔ چاہے اس نے قرآن پڑھا ہو یا نا ہو۔ کہ انسان کو بنایا گیا تھا یا اس نے ارتقاء کی ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں اس ضمن میں کئی جگہ اشارے تو دیتا ہے لیکن واضح طور پر انسان کے بنائے جانے کا دعوی بھی کرتا ہے۔

دیکھئے یہ آیت :
[ayah] 4:1[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا[/arabic]
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے

اس کے سرخ‌حصے پر غور کیجئے۔ 1400 سال پہلے یہ بات کہنا کس قدر مشکل تھا۔ کہ

[arabic]الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ [/arabic] وہ ذات جس نے تم کو بنایا ایک زندہ اکائی سے ۔۔۔۔۔ ؟؟؟
یہ زندہ اکائی کیا ایک سنگل سیل تھا؟‌ یا ایک مکمل انسان تھا؟ کیا ایک زندہ اکائی یعنی سنگل سیل کا ارتقا ہوتا رہا اور وہ سنگل سیل سے بڑھ کر کئی سیل والا ایک مکمل انسان سے پچھلا ماڈل بن گیا؟ اور پھر اس سے انسان بنایا گیا؟

[arabic]وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا [/arabic] اور اس سے (‌سنگل سیل سے یا واحد آدمی سے ؟)‌ تمہارا جوڑا بنایا - کیا جب ایک سیل تقسیم ہوتا ہے تو وہ نر و مادہ کا ایک جوڑا ہوتا ہے؟


[arabic]وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً :[/arabic] اور ان (دونوں) سے پھیلائے بہت سارے مرد (مذکر) اور عورت (مؤنث) -

کوئی جینئیات کا طالب علم اس پر روشنی ڈالے گا کہ آیا کہ یہ جملہ تکنیکی طور پر درست ہے؟

کیا یہ دعوی کرنے والا سچ مچ یہ جانتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ جانتا بھی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ درست رہے؟ یا ایہ صرف ایک اتفاق ہے؟
 
اسی بات کو دوبارہ دہرایا گیا
[AYAH]7:189[/AYAH] [ARABIC] هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحاً لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے، پھر جب مرد نے اس (عورت) کو ڈھانپ لیا تو وہ خفیف بوجھ کے ساتھ حاملہ ہوگئی، پھر وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ گراں بار ہوئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں اچھا تندرست بچہ عطا فرما دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے

[ARABIC][AYAH]39:6 [/AYAH] خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنْ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [/ARABIC]
اس نے تم سب کو ایک حیاتیاتی خلیہ سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی جیسا جوڑ بنایا پھر اس نے تمہارے لئے آٹھ جاندار جانور مہیا کئے، وہ تمہاری ماؤں کے رحموں میں ایک تخلیقی مرحلہ سے اگلے تخلیقی مرحلہ میں ترتیب کے ساتھ تمہاری تشکیل کرتا ہے (اس عمل کو) تین قِسم کے تاریک پردوں میں (مکمل فرماتا ہے)، یہی تمہارا پروردگار ہے جو سب قدرت و سلطنت کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر (تخلیق کے یہ مخفی حقائق جان لینے کے بعد بھی) تم کہاں بہکے پھرتے ہو

یہاں‌جناب طاہر القادری صاحب نے بھی اس کا قریب ترین ترجمہ کیا ہے۔ ---- ایک حیاتیاتی خلیہ ---- ایک سنگل سیل ---- ؟
 

arifkarim

معطل
ھمم، یعنی قرآن نظریہ ارتقا کی تصدیق کرتا ہے۔
جی، سیل کی تقسیم پر نر و مادہ وجود میں‌ آسکتے ہیں۔ بغیر، مرد کے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش اسکا زندہ ثبوت ہے۔
حال ہی میں‌ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ افریقہ میں‌ چھپکلیوں کی ایک خاص نسل ہے، جسکی مادہ بغیر کسی نر کے مزید بچے پیدا کر سکتی ہے۔ یعنی مادہ کے پیٹ میں‌انڈے تقسیم ہو کر نر و مادہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں!
قرآن کریم نے ان تمام علوم کے سمندرکو کس خوبی کیساتھ ایک کوزے میں‌ بند کر دیا:
'' انا اللہ علی کل شئ قدیر ''
 
بھائی عارف، معذرت چاہتا ہوں کہ درج ذیل بات میں تھوڑی سی دراز نفسی ہے۔ ہر اعتبار سے اللہ تعالی نے مجھ پر اپنا بہترین فضل کیا۔ مزید یہ کہ میں ایک اچھا طالب علم رہا ہوں۔ اس سے مقصد یہ نہیں کہ جو کہتا ہوں وہ مان لیجئے۔ بس یہ بتانا مقصد ہے کہ میں ایک اچھا طالب علم رہا ہوں۔

1980 سے میں قرآن کے ایک ایک لفظ پر غور کرتا ہوں وہ اس طرح کہ ہر دن آیات کا ایک چھوٹا سا مجموعہ کسی بھی موضوع پر لے کر اس پر سوچتا ہوں۔ عموماً یہ کام میں کار مں‌کرتا ہوں۔ کہ قرآن کی کچھ آیات کو سنا اور ان کا ترجمہ بھی سنا پھر اس پر غور بھی کیا۔ یہ کام میں کاروبار سے گھر واپسی پر کرتا ہوں۔ چونکہ عربی کے الفاظ کے معانی بآسانی سمجھ لیتا ہوں ، لہذا ان الفاظ پر بھی غور کرتا ہوں۔

قرآن کی بہت سی آیات کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ قرآن انسان کی تخلیق کے بارے میں‌بہت ہی واضح ہے، وہ یہ کہ انسان کو اسی طرح ڈیزائین کیا گیا اور بنایا گیا جس طرح‌ہم آج کل کے بہت ہی کمپلکس کمپیوٹرز بناتے ہیں ۔ ڈارون نے صرف یہ دیکھا کہ حضرت انسان ایڈاپٹیبل ہیں - یعنی موسموں اور جغرافیائی تغیرات کی وجہ سے انسان بہت سے مراحل سے گذرا۔ لیکن خود کسی سیل سے بڑھ بڑھ کر پورا انسان نہیں ‌بن گیا۔

والسلام
 

ابو کاشان

محفلین
السلام و علیکم!
ابھی کچھ دن پہلے میں اسی موضوع پر پروفیسر اور مذہبی اسکالر غامدی صاحب کا پروگرام دیکھ رہا تھا ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کھنکتی ہوئی مٹّی اور گارے سے تخلیق کیا ہے ممکن ہے کہ یہ گارا بالکل اسی طریقہ سے مٹّی میں پنپتا رہا ہو جس طرح اب ماں کے پیٹ میں عمل پزیر ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سارا عمل لاکھوں کروڑوں سال میں مکمل ہوا ہو۔ کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کو پہلا انسان مانا جاتا ہے اور ان کی پیدائش علم و حکمت کے ساتھ ہوئی ہے۔ اس لیئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ایک مکمل انسان کی حیثیت سے ہوئی ہے۔
 

دوست

محفلین
قرآن میں کچھ بھی تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا۔ ایک جان سے مراد آدم علیہ السلام بھی ہوسکتے ہیں اور کوئی خلیہ بھی۔ خیر ارتقاء بھی ہے یا ذہین صورت گری بھی تو۔۔۔ بات تو یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں اللہ وحدہ لاشریک کا ارادہ ہر ہر مرحلے پر کارفرما رہا اور رہتا ہے۔ ورنہ سب سے خلیہ پیدا ہونے کے لیے جن "اتفاقات" کی ضرورت تھی وہ شاید کبھی بھی اکٹھے وقوع پذیر نہ ہوسکتے۔ ہر دو صورتوں میں ایک خالق کے تصور کے بغیر سب کچھ بے معنی ہوجاتا ہے۔
 

زیک

مسافر
ڈارون نے صرف یہ دیکھا کہ حضرت انسان ایڈاپٹیبل ہیں - یعنی موسموں اور جغرافیائی تغیرات کی وجہ سے انسان بہت سے مراحل سے گذرا۔ لیکن خود کسی سیل سے بڑھ بڑھ کر پورا انسان نہیں ‌بن گیا۔

آپ کی یہ بات سمجھ نہیں سکا۔ بہتر ہے کہ آپ Talkorigins.org پر کچھ FAQs پڑھ لیں۔
 

arifkarim

معطل
خاکسار نے کل اس مسئلہ پر کافی غور کیا، اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا؛ حیاتیاتی ، طبیعاتی اور کیمیائی یعنی مادی طور پر تو درست ہو سکتا ہے، لیکن اس تھیوری میں‌ایک بہت بڑا خلل ہے۔ اور وہ یہ کہ اس میں‌ تمام مخلوقات کی کانشنس یعنی شعور کا کوئی تصور نہیں! :eek:
مانا کہ ایک سیل والے بیکٹیریاز اربوں ‌ سال کے ارتقا کے بعد آج کے کمپلیکس انسان اور دوسری مخلوقات بن گئے۔ مگر کسی بھی مخلوق کا صرف حیاتیاتی طور پر زندہ ہونا کافی نہیں۔ زندگی کیلئے اس مخلوق کا اپنے آپ کا شعور ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ انسان میں چونکہ یہ شعور و فہم سب سب سے زیادہ ہے، اسلئے اسے اشرف المخلوقات کہا گیا۔ اسی طرح ہماری روح کا تعلق ہمارے جسم سے ہے۔ خدا تعالی فرماتا ہے کہ قیامت کے روز ہر جان سے اس کے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا اور اسکے ''ارتقائی'' اعضا ؛ ہاتھ، منہ ، آنکھیں، وغیرہ اس بات کی گواہی دیں کہ ہم اس ( روح یا شعور) کے تابع تھے۔ اور یہ یہ وہ اعمال ہیں جو اسنے ہم سے کروائے!
البتہ حیرت انگیز طور پر پاگلوں اور دماغی لحاظ سے کمزور یا اپاہج لوگوں سے ان کے اعمال کے متعلق نہ پوچھا جائے اور نہ ہی اسلامی احکام ان پر واجب ہیں۔ یعنی بیشک ایک پاگل حیاتیاتی اور طبیعاتی طور پر زندہ ہے، لیکن روح اور شعور کے لحاظ سے مردہ۔ اسلئے وہ جو عمل بھی کرے گا، اس پر اسے کوئی اختیار نہیں کیونکہ وہ اسکا شعور اور سمجھ بوجھ نہیں رکھتا۔ اور اس طرح وہ موت کے بعد سوال و جواب کی کاروائی سے بچ کر سیدھا خدا کی رحمت جنت فردوس میں داخل ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ ہر شے میں چاہے وہ جان دار ہو یا بے جان، ہر چیز میں اللہ تعالی کی طاقت کارفرما ہے۔ قرآن کریم میں کیا خوب لکھا ہے:
"اللہ نور السموت والارض"
 
آپ کی یہ بات سمجھ نہیں سکا۔ بہتر ہے کہ آپ Talkorigins.org پر کچھ Faqs پڑھ لیں۔

معذرت چاہتا ہوں کہ کئی قدم پھلانگ کر کچھ کہہ گیا۔
وضاحت کردون کہ جو میں‌نے کہا وہ ڈارون نے نہیں‌کہا۔
میں اپنے اگلے مراسلے میں اس کی مزید وضاحت کردوں گا۔
 
انسان کس طرح ارتقائی عمل سے "بن گیا" یہ تو ڈارون نے وضاحت کردی۔

میرا ایک سوال:
اگر انسان " بنایا گیا" تو کس طرح یہ کام ہوا، آپ احباب و اصحاب اس پراسیس اور اس ٹیکنالوجی پر روشنی ڈالیں۔ مذہب کو ایک طرف رکھ دیجئے صرف سائینسی طور پر دیکھئے۔
 

سمارا

محفلین
فاروق بھائی آپ کا سوال واضح نہیں ہوا کہ انسان کے بننے سے کیا مطلب ہوا-

اس موضوع مین ارتقا کے بارے مین گفتگو ہو رہی ہے، مجھے اس بارے میں زیادہ علم نہین لیکن اپنی محدود سوچ کے مطابق اس کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں اگر میری بات بالکل غلط ہو تو بھی بتا دیجئے گا۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر کام وہ معجزے کے زریعے سے کر سکتا ہے، لیکن اس دنیا مین اس نے معجزے کی بجائے سبب کا راستہ پسند کیا ہے یعنی ہم کہتے ہیں کہ وہ مسسب السباب ہے، اس نے سبب بنا دیا۔
اسی طرح جیسے ہم سوچتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش معجزے سے ہوئی ہے تو ایسا نہ ہوا ہو بلکہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے اسباب بنائے ہوں۔
قرآن مین کائنات کی تخلیق کا بیان کیا جاتا ہے کہ مفہوماً اللہ نے کائینات کی تخلیق چھ دنوں مین کی۔ تو کیا یہ چھ دن ، چھ زمینی دنوں کے برابر ہونگے۔ ہمین پتا ہے کہ تمام سیاروں پر دن کے اوقات مختلف ہیں۔ اسی طرح ہمین پتا ہے کہ قیامت کا دن ایک ہی ہوگا لیکن وہ طویل ترین دن ہوگا۔ شاید یہ چھ دن، جنکا زکر کیا گیا ہے، بہت طویل ترین ادوار ہونگے، جن مین اللہ نے اپنی قدرت سے سبب بنائے ہونگے جن کو ہم آج نظریہ ارتقا کہتے ہین اور ہر چیز اسی زات کی نگرانی مین وجود مین آئی ہوگی-
 

فرخ منظور

لائبریرین
اللہ نے قرآن میں اپنے ایک دن کو ہزار سال کے برابر اور کہیں پچاس ہزار سال کے برابر کہا ہے - یعنی یوم سے مراد (period) ہے زمینی ایک دن نہیں‌- اس لحاظ سے دیکھا جائے تو لاکھوں سالوں میں تخلیق یعنی "کن فیکون" کا عمل مکمل ہوا ہے - اس سلسلے میں بہتر وضاحت فاروق سرور صاحب کر سکیں‌گے -
 
بہن سمارا اور بھائی سخنور کے سوالات کے بارے میں اپنا ناقص خیال بعد میں پیش کروں گا۔

سوال میرا اللہ تعالی اور مذہب سے ہٹ کر تھا کہ
1۔ بقول ڈارون، ایک ارتقائی عمل سے انسان خود بخود بن گیا۔ اس نظریہ کو جیسا بھی یہ ہے ایک طرف رکھیں اور یہ دیکھیں کہ
2۔ اگر بنایا گیا یعنی خود سے نہیں‌ بنا تو بنانے والے نے کیسے بنایا اور کیا کچھ بنایا؟ اس بارے میں‌کیا خیالات ہیں وہ ہم جمع کرسکتے ہیں؟
 

مغزل

محفلین
موضوع بھی خوب اور مباحثہ بھی خوب۔۔

میرے محیط مطالعے کے تحت سائنس کی تازہ ترین جست یہ ہے کہ
انہوں نے ایٹم تسخیر کرنےکے بعد (ڈی این اے سے قطع نظر) ایک نئی
ہیت جسے ابھی کسی شے کانام نہیں دیا گیا دریافت کی ہے ۔۔ جو
اپنی حیثیت میں موجود بھی ہوتی ہے اور نہیں بھی ۔۔۔ سائنس دان
فی الوقت اس بات پر متفق ہیں کہ بگ بین اور ڈارون کا نظریہ
باطل ثابت ہوچکا۔۔۔ خصوصا ڈارون کے نظرئیے کو باطل قرار دینے کے بعد
اس امر پر اتفاق ہے کہ ڈارون کے نظریہ کا فی الوقت ابلاغ روک دیا جائے
مزید تفصیل دو ایک روز میں حاضر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 
Top