سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے

سبحان الله بھائی سبحان الله۔ احسنت
 

Abbas Swabian

محفلین
شکریہ تابش بھائی!
سب سے پہلے تو اردو محفل اور تمام منتظمین کو گیارہویں سالگرہ کے موقع پر عالمی اردو مشاعرہ کے کامیاب انعقاد پر دلی مبارکباد!
میں اپنی پہلی غزل , اپنے شاعری کے سب سے پہلے استاد کے نام کرتی ہوں, جنہوں نے مجھے غزل لکھنا سکھایا اور علمی و ادبی میدان میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا . میری پہلی غزل محمد بلال اعظم بھائی کے نام!

عرض کِیا ہے:
اِک شور تھا جو اندر , وہ آج مچ گیا ہے
اُتنا ہی اب عیاں ہُوں, جِتنا کبھی نہاں تھا

مَیں تیری زندگی میں, اخبار گُزرے دِن کا
یُونہی پڑا یہاں تھا, یُونہی پڑا وہاں تھا

اتنا نہ ہو سکا تُم, میری خبر ہی لَیتے
میرا پتا وہی تھا, میرا وہی مکاں تھا

لو آگئی خبر یہ, وہ شخص مر رہا ہے
اور جب مَیں مر رہا تھا, وہ شخص تب کہاں تھا؟

ہاں! بدنصِیب ہُوں مَیں اور کب کا مر گیا ہُوں
ویسے بھی باغیوں کو, کب راس یہ جہاں تھا؟

آیا نہ راس مُجھ کو , اپنا ہی آپ, ہائے!
'تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا'

تھے اور بھی سخن ور, محفل میں آ کے بیٹھے
لیکن جو سب سے سادہ, میرا ہی وہ بیاں تھا
****----------------------

اور اب دوسری غزل مصرع طرح کی زمین میں:
انتساب: سب محفلین کے نام:)


حُسن کی وہ اِک جھلک جو پردۂ محمل میں ہے
حُسن ایسا نہ کبھی دیکھا مہِ کامل میں ہے

زلف بکھرا کر نہ تُم آیا کرو یُوں سامنے
حوصلہ کب اِتنا تیرے عاشقِ عادل میں ہے؟

عمر ساری چلتا جاؤں,حُسنِ جاناں کی قسم!
ہم سفر تجھ سا ہو تَو پھر رکھا کیا منزل میں ہے؟

تخلیہ! اے ناصحا! مجھ کو اکیلا چھوڑ دے
یاد اُس کی جلوہ فرما آج میرے دل میں ہے

جو صنم کل تھا تراشا وہ خُدا بن بیٹھا آج
زندگی آزر کی اب تَو , ہاں! بہت مشکل میں ہے

مجھ سے آشفتہ مزاجوں کا نہ ہے واں کوئی کام
"ذکر میرا مُجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے"

تُو ہی تُو ہے ہر طرف اور بس تِرا ہی ہے خیال
بس یہی ہے سب سے اُولٰی, جو مِرے حاصل میں ہے

شکریہ!
زلف بکھرا کر نہ تُم آیا کرو یُوں سامنے
حوصلہ کب اِتنا تیرے عاشقِ عادل میں ہے؟

بہت خوب۔
 

Abbas Swabian

محفلین
شکریہ تابش بھائی ۔۔۔۔ تمام محفلین و منتظمین کو محفل کی گیارہویں سالگرہ مبارک ہو ۔۔۔
مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزل کی زمین میں مصرع طرح پر ایک تخلیقی کاوش پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں ۔۔۔۔ عرض کیا ہے ۔۔۔

یاد میری شمع بن کر اس کی بزمِ دل میں ہے
" ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے "
غیر کا پہلو نشیں وہ خوش ادا محفل میں ہے
کچھ کمی تو ہے جو میرے عشقِ لا حاصل میں ہے
میری فظرت ہے سرِ تسلیم خم کرنے کی خو
ناز پرور تم بتا ئو کیا تمھارے دل میں ہے
اس لیے پھرتا ہوں میں رستے میں مانندِ غبار
جو مسافت میں مزہ ہے وہ کہاں منزل میں ہے
جان لی تیغِ تبسم سے کئی عشاق کی
قتل کرنے کا سلیقہ خوب تر قاتل میں ہے
کیا ہے لازم ہاتھ پھیلے بندہ پرور کے حضور
تم سخی ہو دیکھ لو خود کیا طلب سائل میں ہے
لا تعلق ہوں میں خود سے بے خبر دنیا سے ہوں
بس ترا دیدار میری حسرتِ کامل میں ہے
ایک نقطے میں سمٹتا حسن ایسے ہے صفی
دلکشی بے مثل دیکھی اس کے لب کے تل میں ہے
اس لیے پھرتا ہوں میں رستے میں مانندِ غبار
جو مسافت میں مزہ ہے وہ کہاں منزل میں ہے
۔
واہ عمدہ
 

Abbas Swabian

محفلین
عزیزانِ محفل !
آداب.
ہمارے ترکش میں تو چند ناوکِ نیم کش، صورتِ اشعار پڑے ہیں. اگر ہماری یہ مشقِ ستم (مشقِ سخن ) آپ کے ادبی ذوق کو خدا نخواستہ گھائل کر دے تو اس کے لیے پیشگی معذرت قبول فرمائیے. :)

دو پرانی غزلیں جو مجھے پسند ہیں ، پیشِ خدمت ہیں :

غمِ دو جہاں سے گئے ہیں
لو ہم اپنی جاں سے گئے ہیں

ملیں گے کسی کو نہ اب ہم
زمان و مکاں سے گئے ہیں

ہنر تھا نہ خوبی نہ انداز
سو نام و نشاں سے گئے ہیں

زمیں نکلی پیروں تلے سے
کبھی آسماں سے گئے ہیں

دمِ مرگ جتنے یقیں تھے
مرے وہ گماں سے گئے ہیں

محبت ہوئی جن کو المٰی
وہ سود و زیاں سے گئے ہیں

دوسری غزل ...



اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی

ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی

سراپا خاک کر ڈالا
یہ دِل مٹی جگر مٹی

اٹے ہیں گرد سے منظر
دِکھے شام و سحر مٹی

کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی

صدائےکُن سے پہلے تھے
یہ برگ و گُل ,شجر مٹی

جو اُترے قبر میں الٰمی
ہوئے سارے ہُنر مٹی


اب ایک نگاه مصرع طرح پر کی گئی اس قافیہ پیمائی پر بھی ڈالیے.



ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
شوخیِ گفتارِ جاناں! کہہ ترے جو دل میں ہے

اُس پہ ہے بارِ محبت، صورتِ کوہِ گراں
آہ! دیکھو وہ تن آساں، کس قدر مشکل میں ہے

پہلو میں ہو جامِ ساگر، اور ایسی تشنگی
مے کشی سے یوں کنارہ، کیوں خوئے ساحل میں ہے

اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے

غمگسارو! رنج مجھ کو، نارسائی کا نہیں
میرا کُل سامان ِحسرت، زیست کے حاصل میں ہے


بہت نوازش .



اُس پہ ہے بارِ محبت، صورتِ کوہِ گراں
آہ! دیکھو وہ تن آساں، کس قدر مشکل میں ہے
۔
۔
زبردست۔ بہت خوب بہنا۔
 
آداب۔۔۔ ابتدا ایک فی البدیہہ غزل سے

مانی اپنے من میں گر جھانکا کروں
عیب اوروں کے نہ یوں ڈھونڈا کروں
لوگ اس قابل نہیں اس دور کے
اب کسی سے میں محبت کیا کروں؟
بولنے مجھ کو پڑیں گے لاکھ جھوٹ
تا کہ ثابت خود کو میں سچا کروں
بک رہا ہوں ایک میٹھے بول پر
یار! خود کو سستا اور کتنا کروں؟
گفتگو سانسوں سے کریں سانسیں اور
لب سے لب پر اک غزل لکھا کروں
دیکھ کر ان میں سنوارو خود کو تم
اپنی آنکھوں کو میں آئينہ کروں؟؟؟
خوں سے لت پت وادئی کشمیر ہے
ایسے میں اب ذکر_گیسو کیا کروں؟
اور کوئی بھاتا نہيں اس الّو کو
دل کا مانی میں کروں تو کیا کروں
چاہتا ہوں گر برے اچھے بنیں
میں بروں کے ساتھ اچھا کروں
بھول جاؤں؟ یاد رکھوں؟ سوچ لوں؟
یوں کروں؟ ایسا کروں؟ ویسا کرو؟
اے خدا اتنی تو مجھ کو چھوٹ دے
میرا جب جی چاھے مر جایا کروں


پڑا پاؤں ہوں جوڑے ہاتھ بھی ہیں پر نہیں بنتے
ترے کوچے کے پنچھی میرے نامہ بر نہیں بنتے
خبر ان کو ہو کیسے وسعت_افلاک کی ہائے
یہ وہ کرگس ہیں جو پرواز میں شہپر نہیں بنتے
اسے کیا علم ہے کیا قطرۂ نیساں حقیقت میں
شکم میں جس صدف کے عنبر و گوہر نہیں بنتے
کوئی فرعون کہہ دے گا کہ موسیٰ کو ہزیمت دو
بس اک اس خوف سے ہم لوگ جادوگر نہیں بنتے
تھی لطف_وصل تو اوقات سے باہر کی شہ اے دل
مگر کچھ خواب کیوں پلکوں کے ہم بستر نہیں بنتے
بیاں ہے شعبدہ بازی فقط گفتار کے غازی
يہ زاہد گلشن_ ملت کے برگ و بر نہیں بنتے
يہ اہل_عشق اہل_اشک بھی ہوتے ہیں مانی جی
تمہیں کس نے کہا یہ یار_ چشم_ تر نہیں بنتے

ہمارا ہر عمل جب تابعِ قرآن ہوتا تھا
یقیں کیجے کہ تب جینا بہت آسان ہوتا تھا
مری دنیا خوشی کے پنچھیوں کا آشیانہ تھی
یہ تب کی بات ہے جب آدمی انسان ہوتا تھا
عوض قرضوں کے حرمت قوم کی بیچی نہ جاتی تھی
جسے اب فائدہ کہتے ہیں وہ نقصان ہوتا تھا
وکالت کفر کی کرتے نہ تھے ابلاغ والے تب
قلم کاروں کی سچائی پہ سب کو مان ہوتا تھا
یہ پختون اور سندھی یہ بلوچی اور پنجابی
سبھی اک تھے سبھی کی شان پاکستان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جس کی مٹی کی مہک ایمان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جو نشانِ عزمِ عالی شان ہوتا تھا

آخر ميں ایک پرانی غزل

اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے
بلائے ہجر کو یوں تیشۂ فرہاد مت کیجے
یہ کوہِ چشم ہے یاں جوئے اشک ایجاد مت کیجے
اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے
ہے اظہارِ فنِ نشتر زنی کا شَوق مژگاں کو
جگر پر تیر ہنس کے کھائیے فریاد مت کیجے
نہیں انکار مانی کو کہ ربط ان کو عدو سے ہے
مگر یہ کیا نصیحت ہے کہ ان کو یاد مت کیجے

اب اجازت چاہوں گا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔
نوٹ:بطور قاری شامل رہوں گا مشاعرے میں

بہت عمدہ مانی صاحب...
 
بک رہا ہوں ایک میٹھے بول پر
یار! خود کو سستا اور کتنا کروں؟

خبر ان کو ہو کیسے وسعت_افلاک کی ہائے
یہ وہ کرگس ہیں جو پرواز میں شہپر نہیں بنتے

ہمارا ہر عمل جب تابعِ قرآن ہوتا تھا
یقیں کیجے کہ تب جینا بہت آسان ہوتا تھا

مری دنیا خوشی کے پنچھیوں کا آشیانہ تھی
یہ تب کی بات ہے جب آدمی انسان ہوتا تھا

وکالت کفر کی کرتے نہ تھے ابلاغ والے تب
قلم کاروں کی سچائی پہ سب کو مان ہوتا تھا

یہ پختون اور سندھی یہ بلوچی اور پنجابی
سبھی اک تھے سبھی کی شان پاکستان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جس کی مٹی کی مہک ایمان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جو نشانِ عزمِ عالی شان ہوتا تھا

بہت خوب مانی صاحب، بہت تلخ سچائیاں بیان کی ہیں۔
 

مانی عباسی

محفلین
بہت خوب فی البدیہہ غزلیا ت ہیں
بہت سی دعاؤں بھری داد
مصرع طرح والی غزل نہ دکھی ۔۔۔۔۔۔۔؟
ڈھیروں دعائیں
حوصلہ افزائی کا شکریہ آپی۔۔صرف پہلی غزل فی البدیہہ تھی باقی تو "اصلی" غزلیں ہیں۔۔۔مصرع طرح وال غزل اس لیے نہیں لکھی کہ معلوم ہی نہ تھا۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس لیے پھرتا ہوں میں رستے میں مانندِ غبار
جو مسافت میں مزہ ہے وہ کہاں منزل میں ہے

کیا ہے لازم ہاتھ پھیلے بندہ پرور کے حضور
تم سخی ہو دیکھ لو خود کیا طلب سائل میں ہے
واہ
بہت عمدہ اشعار
بہت سی داد
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
غمِ دو جہاں سے گئے ہیں
لو ہم اپنی جاں سے گئے ہیں

ملیں گے کسی کو نہ اب ہم
زمان و مکاں سے گئے ہیں

ہنر تھا نہ خوبی نہ انداز
سو نام و نشاں سے گئے ہیں

زمیں نکلی پیروں تلے سے
کبھی آسماں سے گئے ہیں
واہ
سبحان اللہ
چھوٹی بحر میں کیا ہی عمدہ اشعار ہیں

اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی

ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی
ہائے ہائے
کمال
سراپا خاک کر ڈالا
یہ دِل مٹی جگر مٹی
سراپا خاک کر ڈالا
یہ دل مٹی، جگر مٹی

مکرر مکرر
اٹے ہیں گرد سے منظر
دِکھے شام و سحر مٹی

کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی

صدائےکُن سے پہلے تھے
یہ برگ و گُل ,شجر مٹی

جو اُترے قبر میں الٰمی
ہوئے سارے ہُنر مٹی
واہ
کیا زمین ہے!
اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے
اچھا شعر ہے۔

بہت سی داد
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زندگانی مسترد کردہ کسی فائل میں ہے
کیا مصرع ہے جناب !! واہ
میں کہاں میرا اکیلا پن ہے جو محفل میں ہے
بہت خوب ! کیا اچھا مصرع ہے !!
کسی کے رنگ میں ڈھلتے نہیں ہیں
ہم اپنی کیمیا رکھے ہوئے ہیں

کوئی منزل نہیں منزل ہماری
اِک آتش زیرِ پا رکھے ہوئے ہیں


لڑائی ظلمتِ شب سے ہے جاری
سرِ بام اک دیا رکھے ہوئے ہیں


ہمارے سامنے ہیں پر وہ یوں ہیں
نہ ہونے کی ادا رکھے ہوئے ہیں



واہ! واہ! بہت ہی خوب!! اچھی غزل ہے کیانی صاحب !۔ بہت داد !!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے

اس کی جانب جو گیا وہ لوٹ کر آیا نہیں
بس خدا جانے کشش کیسی تری محفل میں ہے

واہ
خوب است
اچھا کلام ہے فائق صاحب
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آداب۔۔۔ ابتدا ایک فی البدیہہ غزل سے

مانی اپنے من میں گر جھانکا کروں
عیب اوروں کے نہ یوں ڈھونڈا کروں
لوگ اس قابل نہیں اس دور کے
اب کسی سے میں محبت کیا کروں؟
بولنے مجھ کو پڑیں گے لاکھ جھوٹ
تا کہ ثابت خود کو میں سچا کروں
بک رہا ہوں ایک میٹھے بول پر
یار! خود کو سستا اور کتنا کروں؟
گفتگو سانسوں سے کریں سانسیں اور
لب سے لب پر اک غزل لکھا کروں
دیکھ کر ان میں سنوارو خود کو تم
اپنی آنکھوں کو میں آئينہ کروں؟؟؟
خوں سے لت پت وادئی کشمیر ہے
ایسے میں اب ذکر_گیسو کیا کروں؟
اور کوئی بھاتا نہيں اس الّو کو
دل کا مانی میں کروں تو کیا کروں
چاہتا ہوں گر برے اچھے بنیں
میں بروں کے ساتھ اچھا کروں
بھول جاؤں؟ یاد رکھوں؟ سوچ لوں؟
یوں کروں؟ ایسا کروں؟ ویسا کرو؟
اے خدا اتنی تو مجھ کو چھوٹ دے
میرا جب جی چاھے مر جایا کروں


پڑا پاؤں ہوں جوڑے ہاتھ بھی ہیں پر نہیں بنتے
ترے کوچے کے پنچھی میرے نامہ بر نہیں بنتے
خبر ان کو ہو کیسے وسعت_افلاک کی ہائے
یہ وہ کرگس ہیں جو پرواز میں شہپر نہیں بنتے
اسے کیا علم ہے کیا قطرۂ نیساں حقیقت میں
شکم میں جس صدف کے عنبر و گوہر نہیں بنتے
کوئی فرعون کہہ دے گا کہ موسیٰ کو ہزیمت دو
بس اک اس خوف سے ہم لوگ جادوگر نہیں بنتے
تھی لطف_وصل تو اوقات سے باہر کی شہ اے دل
مگر کچھ خواب کیوں پلکوں کے ہم بستر نہیں بنتے
بیاں ہے شعبدہ بازی فقط گفتار کے غازی
يہ زاہد گلشن_ ملت کے برگ و بر نہیں بنتے
يہ اہل_عشق اہل_اشک بھی ہوتے ہیں مانی جی
تمہیں کس نے کہا یہ یار_ چشم_ تر نہیں بنتے

ہمارا ہر عمل جب تابعِ قرآن ہوتا تھا
یقیں کیجے کہ تب جینا بہت آسان ہوتا تھا
مری دنیا خوشی کے پنچھیوں کا آشیانہ تھی
یہ تب کی بات ہے جب آدمی انسان ہوتا تھا
عوض قرضوں کے حرمت قوم کی بیچی نہ جاتی تھی
جسے اب فائدہ کہتے ہیں وہ نقصان ہوتا تھا
وکالت کفر کی کرتے نہ تھے ابلاغ والے تب
قلم کاروں کی سچائی پہ سب کو مان ہوتا تھا
یہ پختون اور سندھی یہ بلوچی اور پنجابی
سبھی اک تھے سبھی کی شان پاکستان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جس کی مٹی کی مہک ایمان ہوتا تھا
یہ وہ ہے جو نشانِ عزمِ عالی شان ہوتا تھا

آخر ميں ایک پرانی غزل

اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے
بلائے ہجر کو یوں تیشۂ فرہاد مت کیجے
یہ کوہِ چشم ہے یاں جوئے اشک ایجاد مت کیجے
اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے
ہے اظہارِ فنِ نشتر زنی کا شَوق مژگاں کو
جگر پر تیر ہنس کے کھائیے فریاد مت کیجے
نہیں انکار مانی کو کہ ربط ان کو عدو سے ہے
مگر یہ کیا نصیحت ہے کہ ان کو یاد مت کیجے

اب اجازت چاہوں گا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔
نوٹ:بطور قاری شامل رہوں گا مشاعرے میں
واہ واہ واہ
مانی صاحب کیا ہی عمدہ کلام ہے
سبحان اللہ
کیا خوب مضامین باندھے ہیں
لطف آ گیا
بہت سی داد
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اِک شور تھا جو اندر , وہ آج مچ گیا ہے
اُتنا ہی اب عیاں ہُوں, جِتنا کبھی نہاں تھا

مَیں تیری زندگی میں, اخبار گُزرے دِن کا
یُونہی پڑا یہاں تھا, یُونہی پڑا وہاں تھا
بہت خوب !! کیا بات ہے مریم صاحبہ!! کیا اچھا کہا ہے !
تخلیہ! اے ناصحا! مجھ کو اکیلا چھوڑ دے
یاد اُس کی جلوہ فرما آج میرے دل میں ہے

واہ واہ!! کیا بات ہے !! بہت خوب!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!!
 
Top