سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !

صفِ عدو سے نکل کر تو دوستوں میں ہے اب
جو وار پشت سے ہو، اس کو اب سنبھال ، بچا !
قبلہ شاہ جی بہت خوب کیا کہنے آپ کے۔
بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!

میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گَلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !

واہ واہ واہ۔۔ شاہ جی بہت عمدہ کیا ہی کہنے۔ بہت خوبصورت۔

میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!
بہت عمدہ شاہ جی، بہت ہی عمدہ کیا کہنے بہت خوبصورت گرہ لگائی ہے۔۔ واہ واہ واہ شاہ جی۔۔ سلامت رہیں شاہ جی بہت خوبصورت۔
 
قبلہ شاہ جی بہت خوب کیا کہنے آپ کے۔
واہ واہ واہ۔۔ شاہ جی بہت عمدہ کیا ہی کہنے۔ بہت خوبصورت۔
بہت عمدہ شاہ جی، بہت ہی عمدہ کیا کہنے بہت خوبصورت گرہ لگائی ہے۔۔ واہ واہ واہ شاہ جی۔۔ سلامت رہیں شاہ جی بہت خوبصورت۔
آپ کی بے پناہ محبتوں کا شکر گزار ہوں جناب حسن صاحب۔
 
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے

دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ

بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ

خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ
بہت ہی خوب، منیب احمد فاتح بھائی۔
اور دوسری غزل کے تو کیا ہی کہنے، لاجواب۔ کیا خوب ردیف نکالی اور نبھائی ہے۔
اور اس پر آپ کی آواز، سونے پر سہاگہ۔ ماشاء اللہ بہت پر اثر آواز ہے۔ :)
 
بہت ہی خوب، منیب احمد فاتح بھائی۔
اور دوسری غزل کے تو کیا ہی کہنے، لاجواب۔ کیا خوب ردیف نکالی اور نبھائی ہے۔
اور اس پر آپ کی آواز، سونے پر سہاگہ۔ ماشاء اللہ بہت پر اثر آواز ہے۔ :)
آپ کی سخن فہمی ہے، قدردانی ہے۔ :)
بہت بہت شکریہ، تابش بھائی۔
 

نایاب

لائبریرین
شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !

صفِ عدو سے نکل کر تو دوستوں میں ہے اب
جو وار پشت سے ہو، اس کو اب سنبھال ، بچا !

سرابِ زندگی میں ہوں رواں آہستہ آہستہ !
بڑھا جاتا ہے رنجِ رفتگاں آہستہ آہستہ !

بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!

کسی کی یاد سے چونکا ہوں یا پھر واقعی یہ ہے
گھلی ہیں چائے میں کچھ تِلخیاں آہستہ آہستہ!

بے قراری کا یہ جُز، کیا قربتِ منزل میں ہے ؟
یا خمیرِ ذات کا حصّہ ہے، میری گِل میں ہے ؟


دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!

پھر نئے طوفاں سے ہونگے برسرِ پیکار ہم
اس توقع کی وجہہ کچھ دوریءِ ساحل میں ہے

اک سراب آرزو سے ہم ہوئے ہیں دستکش
پیش انجانا سفر اب اک نئی منزل میں ہے

اے نشاطِ امتحاں، مدّت وہ دل کو شاق ہے
عرصۂِ امن و اماں، جو ہر پسِ مشکل میں ہے!

میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!



ڈھونڈ لائے کاش وہ روشن نگیں غیروں سے تُو
اصل میں گھر جس کا تیرے سینہءِ غافل میں ہے

شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے

عالمِ امکاں میں سب نقشِ قدم ہیں معتبر !
اور اسبابِ سفر کاشف رہِ منزل میں ہے
واہہہہہہہہہہہ
بہت خوب اشعار ہیں ۔
بہت سی دعاؤں بھری داد ڈھیروں دعائیں
 

La Alma

لائبریرین
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
اچھا کلام ہے .بہت خوب .
 

نایاب

لائبریرین
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے

مدعا پانے کا دعویٰ کون کر پائے منیب
عزمِ آغازِ سفر مدعو ہر اک منزل میں ہے

دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ

روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ
بہت ہی کمال کے اشعار ہیں ۔ بلا شبہ
بہت سی دعاؤں بھری داد
اللہ کرے زور فکر و فن اور زیادہ آمین
ڈھیروں دعائیں
 
تمام احباب کو محفل کی گیارھویں سالگره بہت بہت مبارک ہو۔
مشاعرے کے منتظمین اور شرکاء نے اس مشاعرے میں چار چاند لگا دیے ہیں۔
یہ خاکسار بھی چند بے ڈھب سے اشعار غزل کے نام پر لے کر حاضرِ خدمت ہے۔
پہلے ایک زیرِ ترتیب غزل سے چند اشعار
-----------------------------------
نگاہِ ناز نے بھٹکا دیا تھا تقریباََ
تُو ریگزارِ محبّت سے بال بال بچا !

ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !

شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !

صفِ عدو سے نکل کر تو دوستوں میں ہے اب
جو وار پشت سے ہو، اس کو اب سنبھال ، بچا !

-----------------------------------
ایک تازہ غزل پیش کر رہا ہوں۔ آپ احباب کی توجہ چاہونگا۔

مطلع عرض کیا ہے۔
سرابِ زندگی میں ہوں رواں آہستہ آہستہ !
بڑھا جاتا ہے رنجِ رفتگاں آہستہ آہستہ !

بھلا لگتا ہے جب میں دیکھتا ہوں ایک آہنگ میں
ہوا میں پٹ ہلاتی کھڑکیاں آہستہ آہستہ !

یہ سگریٹ منظرِ شامِ غریباں پیش کرتی ہے
بھرا کرتی ہے کمرے میں دھواں آہستہ آہستہ!

بہت ہی سست ہے منظر کلی سے پھول بننے کا
نہاں ہوتا ہے آخر خود، عیاں آہستہ آہستہ!

سبق لے سیکھ لے دل گفتگو میں خود ستائش کی
بھری جاتی ہیں کیسے چسکیاں آہستہ آہستہ!

کسی کی یاد سے چونکا ہوں یا پھر واقعی یہ ہے
گھلی ہیں چائے میں کچھ تِلخیاں آہستہ آہستہ!

اور غزل کا مقطع پیش کر رہا ہوں۔
میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گَلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !
سیّد کاشف
-----------------------------------

مشاعرے کے لئے ایک طرحی غزل بھی پیش کرنے کی اجازت چاہونگا۔

چچا غالب کی غزل کا مصرع ہو اور دل نا مچلے ! ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا !


بے قراری کا یہ جُز، کیا قربتِ منزل میں ہے ؟
یا خمیرِ ذات کا حصّہ ہے، میری گِل میں ہے ؟


دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!

پھر نئے طوفاں سے ہونگے برسرِ پیکار ہم
اس توقع کی وجہہ کچھ دوریءِ ساحل میں ہے

اک سراب آرزو سے ہم ہوئے ہیں دستکش
پیش انجانا سفر اب اک نئی منزل میں ہے

اے نشاطِ امتحاں، مدّت وہ دل کو شاق ہے
عرصۂِ امن و اماں، جو ہر پسِ مشکل میں ہے!

میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!


ڈھونڈ لائے کاش وہ روشن نگیں غیروں سے تُو
اصل میں گھر جس کا تیرے سینہءِ غافل میں ہے

شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے

عالمِ امکاں میں سب نقشِ قدم ہیں معتبر !
اور اسبابِ سفر کاشف رہِ منزل میں ہے
سیّد کاشف
----------------------------
ایک بار پھر تمام منتظمین کو اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر دلی مبارکباد۔

واه واه کاشف صاحب سبحان الله
هر غزل لائق تحسین هرشعر قابل داد

ھزاروں دعائیں اور داد قبول فرمائیں
 
ناخدایا گوہر مقصود کس ساحل میں ہے؟
جوش زن موج تمنائے معانی دل میں ہے
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے
چشمِ مہر و ماہ مثلِ دیدۂ جوہر بنی
ایک عالم انتظار جوہر قابل میں ہے
حاملِ خاصیتِ صحرا نوردی اب بھی ہیں
ہے جنوں محمول لیلیٰ پر اگر محمل میں ہے
مدعا پانے کا دعویٰ کون کر پائے منیب
عزمِ آغازِ سفر مدعو ہر اک منزل میں

روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
ماشاءالله فاتح صاحب بهت ھی اچھے اشعار پیش کئے آپ نے
اچھے خیالات اور بهترین تنظیم
داد پر داد قبول ھو
 
ناخدایا گوہر مقصود کس ساحل میں ہے؟
جوش زن موج تمنائے معانی دل میں ہے
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے
چشمِ مہر و ماہ مثلِ دیدۂ جوہر بنی
ایک عالم انتظار جوہر قابل میں ہے
حاملِ خاصیتِ صحرا نوردی اب بھی ہیں
ہے جنوں محمول لیلیٰ پر اگر محمل میں ہے
مدعا پانے کا دعویٰ کون کر پائے منیب
عزمِ آغازِ سفر مدعو ہر اک منزل میں ہے

روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ

سبحان الله فاتح صاحب
اچھے خیالات اور بهترین تنظیم
داد قبول فرمائیں
 
ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !
شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !
دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!
میری کاوش کے قصیدے کل عدو کے لب پہ تھے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"!
شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے
کاشف بھائی بهت اچھے خیالات ھیں ماشاءالله لطف آیا بس ڈھیروں دعائیں آپ کے لئے
 
Top