محمد فائق
محفلین
شکریہ بھائیکیا کہنے فائق صاحب!
بہت خوب! بہت سی داد قبول کیجے۔
شکریہ بھائیکیا کہنے فائق صاحب!
بہت خوب! بہت سی داد قبول کیجے۔
گم نہ رہ سوچ میں تو دیکھ کے چل کچھ مت سوچ
ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل کچھ مت سوچ
دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ
روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ
شکر گزار ہوں شکیب بھائیکیا جھومنے والی ردیف چنی ہے بلال بھائی۔ سبحان اللہ۔
اف!
کیا کہیے صاحب۔
کیا تخیل ہے، کیا تعلی ہے۔
آپ کی داد اور حوصلہ افزائی میرا اثاثہ ہےسبحان اللہ!
جیتے رہیے۔
بہت خوب !
کیا کہنے۔ !
بہت خوب بلال!
بہت سی داد اور مبارکباد آپ کے لئے۔
شاد آباد رہیے۔
اسے میرے احساس ہی سے ہے نفرت
بجھا چاہتا ہے چراغِ محبت
مداوا غمِ دل کا ہوگا بھی کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت
بجھا چکا ھے زمانہ چراغ سب لیکن !
یہ میرا عشق کہ ہر راستہ دکھائی دے ۔
پلٹ بھی سکتی ہوں ایماں فنا کی راہوں سے،
اگر کوئی مجھے اُس نام کی دُھائی دے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
شرارتیں بھی ، محبت بھی ، بدگمانی بھی
عجیب سی ہے صنم ! آپ کی کہانی بھی
سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی
جب کبھی پایا ہے تنہا اس کو
نہ ہوئی بات کی ہمت مجھ کو
کیا کہنے!بدظنی سے بچ کے رہنا رحمتوں کی آس پر
راہ چلنا ان(ص) کی جن ہر ادا کامل میں ہے
تم لوٹ کے آ جاؤ
ہم انتظار میں ہیں
اب بات کرو ہم سے
ہم انتظار میں ہیں
جب عمر ختم ہوگی
ہم موت سے کہ دیں گے
مت جان ہماری لو
ہم انتظارمیں ہیں
پھر بہہ نکلیں آنسو
سب لوگ کہیں گے یوں
تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں
ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے
ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے
دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"
ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے
(So Boring)
ایک جنجال ہے سسرال مرا، سو بورنگ
اس پہ شوہر بھی نہ قابو میں ہوا، سو بورنگ
مر گئے چھوڑ کے دولت کے خزانے دادا
جشن کے بدلے ہوئی قل کی دعا، سو بورنگ
گولڈ کی رنگ، آئی فون، نہ پرفیوم کوئی
پیار میں اس نے بس اک پھول دیا، سو بورنگ
گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ
چھ مہینے سے وہ چپکی ہے اسی لڑکے سے
آج کے فاسٹ زمانے میں وفا، سو بورنگ
شعر تو کہتے ہیں بجلی کے اجالے میں مگر
ان کے ہر شعر میں جلتا ہے دیا، سو بورنگ
ڈش کوئی مرغ کی کھائے تو کوئی بات بھی ہو
دال پہ کرتا ہے وہ شکر ادا، سو بورنگ
میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ
میری پرلطف غزل بزم میں سن کر لوگو
کس چھچھورے نے لگائی ہے صدا، ”سو بورنگ“
یہاں میں اپنی بیوی کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہوں گا جس کے تعریفی اور تنقیدی رویے نے اس مشاعرے کے لئے کلام مکمل کرنے میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی، حالانکہ بحیثیتِ بیوی یہ کافی مشکل کام تھا۔
شکریہ بیگم۔
جزاک اللہ خیر سعود۔ آخر میں نے ہمت کر کے آج دو پہر کو سب کی ریٹنگ بنفس نفیس کر دی ہے۔اب تک کل پچیس چھبیس شعرا کا کلام شامل مشاعرہ ہوا ہے اور اس کے لیے آپ کو محض تین صفحات پلٹنے ہوں گے۔ اول تو ایسا کام ڈیٹا بیس میں کوئیری رن کرا کے اگر کرانے کی کوشش کی جائے (جس سے بچنا چاہیے) تو امکان ہے کہ بعض مقامات پر غیر متوازن صورت پیدا ہو جائے۔ دوم یہ کہ شعرا کے کلام والے مراسلوں کی شناخت کا بظاہر کوئی سہل طریقہ کار نہیں اس لیے ایک ایک پیغام کی آئی ڈی مینؤلی جمع کرنی ہوگی۔ کل ملا کر بات سر درد اور صندل والی ہوگی۔
مجھے بوچھی کی خوشبو آ رہی ہے ۔ اللہ بخشے پوری محفل کی باجو تھی ہے اور کوئی اس جیسا نہ تھا نہ ہے نہ ہوگا۔بہت شکریہ احمد بھائی!
"مریم افتخار" ایک "انسان" کا نام ہے اور یہ غزل اس انسان نے لکھی ہے اور اتفاق سے انسان کی مؤنث ابھی تک لسانیات میں دستیاب نہیں. میں نے غزل میں خالص انسانی جذبات اور psychology کے حوالے سے بات کی ہے اس میں کوئی نسوانیت نہیں اور ان شاء اللہ میری آئندہ تخلیقات بھی اسی حوالے سے ہوں گی اور میں صرف اتنا چاہتی ہوں عورت کو بھی "انسان" سمجھا جائے .اگر یہ نیا trend ہے تَو نیا سہی اور اگر فرسودہ ہے تَو یوں ہی سہی!
بالکل صحیح کہا ۔کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں
چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں
چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے
ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے
ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے
دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"
میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے
دیکھ کر کل رات فیشن شو میں بوفے حسن کا
آ گئے ہم گھر مگر دل اب بھی اس محفل میں ہے
میری دل جوئی کو آنے لگ پڑیں ہمسائیاں
فائدہ کیا کیا مرا بیگم تری کِلکِل میں ہے
دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے؟
آپ جو فائل دبا کر بیٹھے ہیں دو ماہ سے
آپ کا نذرانہ عالی جا! اسی فائل میں ہے
ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے
بہت خوب !یہ تو نو بورینگ ہے ۔ایک جنجال ہے سسرال مرا، سو بورنگ
اس پہ شوہر بھی نہ قابو میں ہوا، سو بورنگ
مر گئے چھوڑ کے دولت کے خزانے دادا
جشن کے بدلے ہوئی قل کی دعا، سو بورنگ
گولڈ کی رنگ، آئی فون، نہ پرفیوم کوئی
پیار میں اس نے بس اک پھول دیا، سو بورنگ
گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ
چھ مہینے سے وہ چپکی ہے اسی لڑکے سے
آج کے فاسٹ زمانے میں وفا، سو بورنگ
شعر تو کہتے ہیں بجلی کے اجالے میں مگر
ان کے ہر شعر میں جلتا ہے دیا، سو بورنگ
ڈش کوئی مرغ کی کھائے تو کوئی بات بھی ہو
دال پہ کرتا ہے وہ شکر ادا، سو بورنگ
میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ
میری پرلطف غزل بزم میں سن کر لوگو
کس چھچھورے نے لگائی ہے صدا، ”سو بورنگ“
بہت عمدہ ۔اور کیا ساماں بہم بہرِ تباہی چاہیے
حسنِ لب بستہ سے ذوقِ کم نگاہی چاہیے
جانثاری مشغلہ ہی سمجھیے عشاق کا
روزِ محشر آپ کی لیکن گواہی چاہیے
آبلوں کی جستجو میں دشت گردی خوب، پر
علم کچھ منزل کا بھی نادان راہی چاہیے
ہم لیے پھرتے ہیں کاندھوں پر جہاں داری کا بوجھ
اور ضد یہ ہے، غرورِ کج کلاہی چاہیے
بسکہ طالب اپنے دل پر اختیارِ کل کے ہیں
کب سکندر کی سی ہم کو بادشاہی چاہیے
آرزو یاں کچھ نہیں جز ایک اقرارِ گنہ
اور واں اصرار، تیری بے گناہی چاہیے
شعر گوئی کارِ لاحاصل سہی، پر سچ یہ ہے
مشغلہ آخر کوئی خواہی نخواہی چاہیے
خوب !قیس کو دشت جنوں میں بڑھ کے ہے زنجیر سے
اک کسک کہ جستجوئے عشق لاحاصل میں ہے
عشق کا ہر مرحلہ پہلے سے ہے دشوار تر
دل خدا جانے کہاں ہے، کون سی منزل میں ہے
چین سے رہنے نہیں دیتی کہیں اک پل مجھے
ایک سیمابی سی کیفیت کہ آب و گل میں ہے
مار ڈالے گی ہمیں پتھر دلی کے باوجود
کچھ ستاروں سی چمک جو دیدۂ سائل میںہے
بحر کی موجوں کو گر بھاتا ہے ساحل کاسکون
بے کراں ہونے کی حسرت موجۂ ساحل میں ہے
بے نیازی کا وہ عالم ہے، تسلی یہ نہیں
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
واہ ۔۔بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ
بہت خوب ۔پھونک دے بڑھ کے جو تیرگی کا بدن
میری آنکھوں میں وہ روشنی ہے کہاں
بہت عمدہ ۔؎ لکھا نہیں جو مقدر میں دینے والے نے
ملا نہیں تو پھر اس پر ملال کیسا ہے
خوب ۔؎ ہاں دل کی تسلی کے لیے بات ٹھیک ہے
یہ اور بات خوف سا چھایا ہے آپ پر
دامن ہمارا چھوڑ کے جی لیں گے آپ بھی
لیکن ہمارا آج بھی سایہ ہے آپ پر
واہ واہ لا جوابلے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں
قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں
اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں
عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں
زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں
آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں
جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں
ہم حسن شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں
بہت خوب ۔ﻭﺍﻗﻒ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﺏ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺳﮯ ﺟﺐ ﮨﻮﺍ
ﺟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺰﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﮨﻮﺍ ﻋﯿﺎﮞ
ﺳﺐ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻏﻢِ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ
ﻗﺼﮯ ﺷﺐِ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ارشد ﻧﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﮞ
ﺯﺧﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﭘﻬﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﺪﺍ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
واہ واہ کیا کہنے ،بہت خوب ۔ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮑﻠﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﭘﮧ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
بہت خوب مریم ! عمدہ اشعار ہیں۔
یہ غزل بلال بھائی کے نام موسوم ہے یا آپ نے اُن ہی کی طرف سے لکھی ہے؟ کہ پوری غزل "مردانہ وار" لکھی گئی ہے۔
واہ !
بہت سی داد!
شاد آباد رہیے۔
بہت شکریہ احمد بھائی!
"مریم افتخار" ایک "انسان" کا نام ہے اور یہ غزل اس انسان نے لکھی ہے اور اتفاق سے انسان کی مؤنث ابھی تک لسانیات میں دستیاب نہیں. میں نے غزل میں خالص انسانی جذبات اور psychology کے حوالے سے بات کی ہے اس میں کوئی نسوانیت نہیں اور ان شاء اللہ میری آئندہ تخلیقات بھی اسی حوالے سے ہوں گی اور میں صرف اتنا چاہتی ہوں عورت کو بھی "انسان" سمجھا جائے .اگر یہ نیا trend ہے تَو نیا سہی اور اگر فرسودہ ہے تَو یوں ہی سہی!
کوئی ایک گلاس پانی پلاؤ بھائی۔۔۔۔او ہو ہو ہو۔۔۔۔۔ مریم آپ تو جیسے چھا سی نہیں گئيں۔۔۔!!
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجے کہ میں آپ کے جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
تاہم آپ یہ بتائیے کہ کیا میں بطورِ انسان شاعری کرنا چاہوں اور چاہوں کہ میری شاعری سے صنفی امتیاز (Gender Discrimination ) نہ چھلکے تو کیا مجھے نسوانی لب و لہجے میں شاعری کرنا ہوگی؟
دراصل صنفی اعتبار سے لہجے کا امتیاز انسانیت کے برخلاف کوئی شے نہیں ہے۔ بلکہ انسانیت تو اُن قدروں میں ہوتی ہے جن سے انسان وابستہ ہوتا ہے اگر آپ اُن قدروں کو اہمیت دیتے ہیں تو آپ انسان دوست ہیں ورنہ نہیں!
اُمید ہے کوئی بات آپ کو ناگوار نہیں گزری ہوگی۔
روح افزا مل جائے تو ہمارے لئے بھی منگوا لیجے حسن بھائی!
احمد بھائی ابھی تو کچھ بھی مل جائے۔۔۔۔۔۔۔ بس۔۔۔!!
بھیا جی! یقین کیجئیے! مجھے کوئی بات ناگوار نہیں گزری میں نے آپ کی بات کا جواب دیا تھا مگر آپ کے جواب سے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ آپ سمجھ نہیں پائے. جو مثال آپ نے دی اُس میں اور اِس غزل , اس کے مضامین اور مجھ میں فرق ہے اور اسے سمجھنے کے لیے اِس سائیڈ پہ آنا پڑے گا.
اب اُس سائیڈ پر آنا تو دشوار ہے۔
ویسے میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی غزل میں اگر "مر رہا تھا" کی جگہ "مر رہی تھی" بھی ہوتا تو اُس سے آپ کی انسانیت یا غزل کی انسانیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب فرض کیجے کہ یہ غزل کہیں بغیر نام کے پوسٹ ہوتی ہے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آئے گا کہ یہ غزل کسی "مریم افتخار" کی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود آپ کی غزل بہت اچھی ہے اور لائقِ ستائش ہے۔
ویسے میں ادب میں صنفی امتیاز کا قائل نہیں ہوں، میرے نزدیک اچھا کلام قابلِ تعریف ہوتا ہے چاہے وہ کسی نے بھی کہا ہو۔
بہت خوب ۔سود و زیاں سے پرے، صرف خدا کے اسیر
اہلِ تصوف وہ ہیں، جن پہ ہے خالق کو ناز
بہت اعلی۔رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد، آگ لگانے آ گئی
بندہ نواز، کیا کروں؟ مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی؟
جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی
خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی
عشق مشکل میں ہے، ضبط اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا، پھر بھی تمنا دل میں ہے
کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے، آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے؟
جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے، غافلو!
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے
انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے
خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے
نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"
کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔تاہم آپ یہ بتائیے کہ کیا میں بطورِ انسان شاعری کرنا چاہوں اور چاہوں کہ میری شاعری سے صنفی امتیاز (Gender Discrimination ) نہ چھلکے تو کیا مجھے نسوانی لب و لہجے میں شاعری کرنا ہوگی؟
کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔
قبلہ نوازش آپکی۔۔ نظر کرم پر ممنون ہوں۔بہت عمدہ ۔
خوب ۔
واہ واہ لا جواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔