منصور مکرم
محفلین
جناب والا نہ تو نماز میں سڑکیں بند کی جاتی ہیں اور نا ہی بروز جمعہ بازار سیل کئے جاتے ہیں۔اور نا ہی تراویح میں کسی پاگل جلوس نے املاک پر حملے کئے ہیں۔اگر یہ معیار ہو تو نمازوں کے وقت پورے پاکستان میں دکانیں بند ہوتی ہیں، دفاتر میں لوگ کام چھوڑ کر نماز کے لیے چلے جاتے ہیں۔
جمعہ کے دن نماز جمعہ کی خاطر جلدی چھٹی ہوتی ہے۔۔ ۔ رمضان میں لوگ تراویح کے لیے دکانیں اور کاروبار بند کر دیتے ہیں۔
جبکہ یہ تمام کام جلوسوں میں ہوتے ہیں خاص کر مذہبی جلوسوں میں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان دنوں میں ڈبل کام کیا جاتا تاکہ ملک ایک دن کی ترقی کرسکتا۔میں ان چھٹیوں کا مخالف ہوں ۔اس کے علاوہ قائد، علامہ وغیرہ کے ایام ولادت میں ٰ چھٹی ہوتی ہے۔۔۔ ان کی وجہ سے بھی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔۔۔
یہ کونسا طریقہ کہ کسی بڑے آدمی کے یوم پر کام بند کردیا جائے۔
اللہ تعالیٰ تو جمعے کے روز بھی نماز جمعہ کے بعد کاروبار کی ترغیب دیتا ہے۔
لیکن دوسری طرف سے آپ کی یہ بات سرے سے درست ہی نہیں ہے۔
ابھی پچھلے سال کامران خان نے اپنے پروگرام میں فیکٹ اور فیگرز کے ساتھ بتایا تھا کہ صرف محرم کے پہلے عشرے میں پاکستان میں معیشت کو جتنا فائدہ پہنچتا ہے وہ پورے سال میں سب سے زیادہ ہے۔۔ نیاز، سبیل وغیرہ کے لیے بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے جس سے معیشت کو سہارا ملتا ہے۔
میں کامران خان سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ بسنت پر کیوں پابندی لگائی جاتی ہے؟
کیا اسلئے نہیں کہ اسمیں ڈور کی وجہ سے معصوم لوگوں کی گردنیں کٹ جاتی ہیں۔
جبکہ اس سے زیادہ گردنیں تو محرم میں کٹ جاتی ہیں۔
اگر بسنت خونی تہوار کہلا سکتا ہے تو محرم کو خونی مذہبی تہوار کیوں نہیں کہا جا سکتا۔
جب بسنت والوں کی معیشت کے فائدے کو نہیں دیکھا گیا تو محرم میں بھی (قتل وقتال) کے اشیاء بنانے والے کی معیشت کو دیکھے بناء بند کردینا چاہئے۔
رہا آپکے نیاز اور تعزیے اور چاقو تلواروں والی معیشت ،تو پھر درہ آدم خیل کے افریدیوں کو بھی بارود و اسلحہ کی سپلائی کا لائیسنس ملنا چاہئے کہ وہ اسلحہ بھی تو ہر دو اچھے برے کام کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نیز پھر عیسائیوں ،اور ہندوں کی تہذیبوں کو بھی فروغ دینا چاہئے کہ معیشت مضبوط ہوگی۔
آخری تدوین: