سہارن پور سے واپس آچکے تھے۔ اس دن کوئی مصروفیت نہیں تھی۔ تبھی معین نے کہا کہ مظفر نگر کا چکر لگاتے ہیں، سیر بھی ہوجائے گی اور وہاں آپ اپنے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا گھر بھی دیکھ لیں گے۔ اسی وقت معین کے ساتھ ہولیے۔ دیوبند سے مظفر نگر بس کے ذریعے آدھے گھنٹے کا راستہ ہے۔ سرسبز کھیتوں کھلیانوں کے درمیان سے سڑک گزرتی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب درختوں کی شاخیں اوپر سے سر جوڑے رہتی ہیں۔ بعض جگہوں پر اتنے گھنے درخت تھے کہ لگتا تھا آگے راستہ نہیں ہے۔ مگر جوں جوں آگتے بڑھتے جاتے راستہ کھلتا جاتا۔
راستہ میں ایک گوشت کی دوکان دیکھی۔ غیر معمولی موٹی موٹی رانیں لٹکی ہوئی تھیں اور رنگ اتنا چمک دار سرخ گویا یاقوت ہو۔ ایسا گوشت پہلے مرتبہ نظر سے گزر رہا تھا۔ فوراً معین سے پوچھا:
’’یہ گوشت کس جانور کا ہے اتنا سرخ۔‘‘
اس کی آنکھیں چمکنے لگیں اور ہونٹ مسکرانے۔
’’ادھر دیکھو بھی نہیں عمران بھائی۔ یہ سور کا گوشت ہے۔ عموماً یہاں جمعداروں کی برادری والے کھاتے ہیں۔‘‘
بعد میں ایک دفعہ دیوبند میں ان کے علاقے سے گزر ہوا تو ایک گندے نالے کے گرد جابجا کالے رنگ کے سور کھلے پھرتے نظر آئے۔ شاید یہیں سے پلے پلائے مسٹنڈے سور دکانوں پر کاٹ کر فروخت کیے جاتے تھے۔
مظفر نگر سہارن پور کی بنسبت چھوٹا اور پُر سکون شہر ہے۔ بس سے اتر کر گھومتے گُھماتے پاکستان کے سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کی عظیم الشان حویلی کے سامنے جاپہنچے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان صرف اس عظیم حویلی کے مالک نہیں تھے بلکہ یو پی اور کرنال میں تین سو گاؤں کے بھی مالک تھے۔ اتنی عظیم الشان جائیدادوں کے مالک ہوتے ہوئے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان چلے آئے۔ اور مرتے وقت چند سکوں کے مالک نکلے۔ اس ملک کی ریت بھی عجیب ہے۔ کچھ نے اپنا آپ نوچ نوچ کر اس پر لگادیا کچھ اسے نوچ نوچ کر اپنے آپ پر لگا رہے ہیں!!!
رات چچا نے کہا:’’صبح دہرہ دون چلیں گے تیار رہنا۔‘‘
صبح ناشتے کے بعد ہم تیار ہوئے، دہرہ دون جانے والی بس میں بیٹھے اور تقریباً دو گھنٹوں بعد شہر میں اتر گئے۔ موسم بڑا سہانا تھا۔ سرسبز شہر تھا اوپر سے سیاہ گھنگھور گھٹائیں امڈ آئیں اور چھم چھم برسنے لگیں۔ دوپہر کا وقت تھا لیکن موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے ہلکا ہلکا اندھیرا اور ہلکا ہلکا اجالا تھا، فضا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ تبھی ہم ایک ہوٹل میں گئے۔ کھانے کا آرڈر دیا۔ آرڈر کے جواب میں دو تھالیاں آئیں۔ ایک ہمارے لیے، ایک چچا کے لیے۔ گول تھالیوں میں ایک بڑا سا دائرہ تھا، اس میں چاول یا پوری چپاتی رکھی جاتی تھی، اس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے چند دائرے اور تھے، ان میں مختلف قسم کے سالن رکھے جاتے تھے۔ ہماری تھالی میں بڑے دائرے میں گرم گرم پوری تھی جبکہ چھوٹے دائروں میں آلو، بھنڈی، چنا اور اچار تھا۔ دلچسپ سین آن تھا۔ خوب مزے سے پہلے پوری اور بعد میں چاول سے مختلف ترکاریوں کا اچار سے لطف اٹھاتے رہے۔ پھر گرما گرم چائے پی۔
باہر بارش تھم چکی تھی۔ ایک بس میں بیٹھ کر مضافات کی طرف روانہ ہوگئے۔ بس میں یونیورسٹی کے طالب علم بیٹھے تھے۔ ایک چرب زبان طالب علم نہایت ٹھیٹھ ہندی میں دوسروں کو تیز طرار انداز سے نہ جانے کیا فلسفہ بگھار کر سمجھا رہا تھا ہمارے پلّے ککھ نہ پڑا۔ بلکہ ڈر لگ رہا تھا کہ ہماری طرف متوجہ ہوکر کچھ کہہ دیا تو ہماری کھڑے کھڑے ’’بے زتی‘‘ خراب ہوجائے گی۔
بس شہر سے نکل کر پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد دریا نظر آنے لگا۔ یہاں ایک جگہ پکنک اسپاٹ بنا تھا دوکانیں تھیں اور بیٹھنے کے لیے کرسیوں کا بندوبست تھا۔ ہم دریا میں پڑے بڑے سے پتھر پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر پاؤں گیلے کیے وارم اپ کی جگہ کول ڈاؤن ہوئے اور دریا میں چھلانگ لگادی۔ یہ منظر اسلام آباد کے شاہدرہ چشمے جیسا تھا بس پہاڑ ذرا دور دور فاصلے پر تھے، کشادگی کا احساس ہورہا تھا۔ جس طرح شاہدرہ سے آگے جائیں تو تقریباً ایک گھنٹے بعد مری کا ہل اسٹیشن آجاتا ہے اسی طرح یہاں سے آگے جائیں تو ایک گھنٹے بعد مسوری کا ہل اسٹیشن آجاتا ہے۔ چچا کے پاس وقت کی کمی کے باعث مسوری نہ جاسکے اور نیچے ہی نیچے سے ہاتھ ہلا کر واپس آگئے!!!