سوات، سیاحوں کی جنت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سندباد

لائبریرین
گندھارا آرٹ کی وجۂ تسمیہ
[align=justify:e34c2772b1]لفظ گندھارا کے بہت سے معانی نکالے جاتے ہیں۔ تاہم محققین کسی ایک معنی پر متفق نہیں ۔ بعض مؤرخین کی تحقیق کے مطابق وسطی ایشیاء سے آنے والے قبائل کے ایک سردار کا نام گندھاریہ تھا جس نے اپنے نام سے یہ نو آبادی قائم کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سردار کی ایک بیٹی کا نام گندھاری تھا، جس کے نام پر اس علاقے کا نام گندھاری رکھ دیا گیا تھا جو بعد میں بگڑ کر گندھارا کہلایا۔ بعض کے خیال میں لفظ گندھارا کے معنی یہاں کی مشہور اون پر پڑ گیا تھا۔ بھیڑوں کی یہ اون بہت نفیس تھی اور اس کی شہرت کا ڈنکا پورے برصغیر میں بجتا تھا۔
افغانستان کے مشہور شہر قندھار سے بھی اس کی نسبت بیان کی جاتی ہے۔ ٹیکسلا جب بدھ مت کا مرکز تھا تو اس وقت قندھار سے بہترین سنگ تراش آئے تھے اور انہوں نے ہند، یونانی اور ایرانی فن کی آمیزش سے اپنے ہنر کے اعلیٰ جوہر دکھائے جس کے باعث یہاں کا نام قندہارا اور پھر گندھارا پڑ گیا۔[/align:e34c2772b1]
 

سندباد

لائبریرین
گندھارا آرٹ کا مقصد
[align=justify:863eec8538]اس آرٹ کا مقصد بدھ مت کی اشاعت اورتبلیغ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ آرٹ کشان خاندان کے راجہ کنشک کے دورِ حکومت میں انتہائی عروج پر پہنچ گیا تھا۔ کیونکہ اس دور میں مملکت کی مادی خوشحالی اور مذہبی جوش وجذبے نے اس آرٹ کو کمال تک پہنچا دیا تھا۔ بعض مؤرخین کی رائے کے مطابق اُس وقت کے ہُنر مندوں نے مذہب سے انتہائی عقیدت کی وجہ سے اپنی دلی ترجمانی سنگلاخ چٹانوں کے سینوں پر ثبت کی۔ اس آرٹ میں بت سازی کے لئے ایک خاص قسم کا پتھر استعمال کیا گیا ہے جو وادئ سوات اور بونیر کے پہاڑوں میں عام دستیاب ہے۔ یہ پتھرمجسمہ سازی کے لئے بڑا موزوں ہے۔ اسے بڑی آسانی کے ساتھ تراشا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چونے اور مٹی سے بھی بت سازی کاکام لیا جاتا ہے سوات میں یہ آرٹ پتھر اور لکڑی کے دروازوں لوہے اور پیتل کے اوزاروں پر کُندہ کاری، گل کاری اور کپڑوں پر کشیدہ کاری کی صورت میں نظر آتا ہے۔[/align:863eec8538]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
منگورہ
[align=justify:584800068e]وادئ سوات کا عروس البلاد منگورہ اس خوب صورت اور دِل رُبا وادی کے ماتھے پر حسین جھومر کی مانند سجا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ صاف ستھرا شہر اپنی جدیدتعمیرات، خوب صورت ہوٹلوں، پُررونق بازاروں، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں اور قرب و جوار میں بکھرے حُسنِ فطرت کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے باعث منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ 25 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ شہر پشاورشہر سے 170 کلومیٹر اور راولپنڈی سے 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ منگورہ سطح سمندر سے 3200 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کی آبادی دو لاکھ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے۔
منگورہ کو سوات کے سب سے بڑے تجارتی، صنعتی ،تعلیمی اور ضلعی صدر مقام کی وجہ سے اہم مرکزی شہر کی حیثیت حاصل ہے۔ جس پر سوا ت کے تمام چھوٹے بڑے علاقوں کی روز مرہ ضروریات کا انحصار ہے۔ منگورہ، قدیم تہذیب و ثقافت اور ہر طرح کی مقامی و بین الاقوامی مصنوعات کا مرکز ہے۔ اس کا مین بازار پورے سوات کا دل ہے، جہاں ہر قسم کی ملکی اور غیر ملکی اشیاء باافراط دستیاب ہیں۔یہاں آنے والے سیاحوں کے لئے پہلا پڑاؤ منگورہ ہے جہاں سے سیاح وادئ سوات کے ہر علاقے کی سیر کے لئے روانہ ہو سکتے ہیں۔
منگورہ کا قدیم نام’’ منگ چلی‘‘ ہے جس کا کوئی واضح اور متعین مفہوم معلوم نہیں، تاہم اس نام کا ذکر پہلی دفعہ چین کے بُدھ مذہب کے مقدس زائر ہیون سانگ، فاہیان اور سنگ یون نے اپنے سفر ناموں میں کیا ہے۔ ان سیاحوں کی آمد کا سلسلہ 403ء میں شروع ہوا تھا جنہوں نے بعد میں اپنے مشاہدات، سفرناموں کی شکل میں قلم بند کئے تھے۔ قدیم زمانے میں سوات بدھ مذہب کا مقدس مرکز رہا ہے۔ یہیں سے یہ مذہب چین، تبت اور بھوٹان وغیرہ کی طرف پھیل گیا تھا، اس لئے ان ممالک بالخصوص چین کے بُدھ زائرین سوات میں بدھ مت کے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے بہت بڑی تعداد میں آتے تھے۔ علاوہ ازیں مشہور محقق اور مستشرق میجر راورٹی نے منگورہ کا ذکر اپنی تحریروں میں ’’منگوڑا‘‘ اور’’ منگراوڑہ‘‘ کے ناموں سے بھی کیا ہے۔ چناں چہ بعد میں یہ نام ہوتے ہوتے’’ منگورہ‘‘ کے روپ میں ڈھل گیا۔[/align:584800068e]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:a3ef55311b]منگورہ عہد قدیم میں بدھ مت کا ایک روحانی اور تاریخی شہر رہا ہے جس کاثبوت یہاں برآمد ہونے والے بدھ مت کے قدیم آثار سے ملتا ہے۔
سوات کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ منگورہ کی پرانی آبادی جو بت کڑہ میں تھی، چوہوں کی وجہ سے تباہ ہوئی تھی۔ لوگوں نے چوہوں کی تباہ کاریوں سے تنگ آکر اپنے گھر بار چھوڑ دیئے تھے اور بت کڑہ سے متصل ’’مکان باغ‘‘ میں منتقل ہوگئے تھے جو آج کل بھی اندرون منگورہ واقع ہے۔ اس کے بعد منگورہ کی بیشتر آبادی مین بازار کی حدود میں آباد ہونا شروع ہوئی۔ بعد میں منگورہ کی آبادی مزید پھیلتی گئی اور آج کل منگورہ کی حدود رحیم آباد، فیض آباد، پانڑ، فضا گٹ، نوے کلے اور اینگرو ڈھیرئی تک پھیل چکی ہیں۔
منگورہ بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا خوب صورت اور صاف ستھرا شہر ہے۔ یہ دریائے سوات کے کنارے آبادہے ۔ اس کے قرب وجوار میں سیاحوں کے لئے بہت سے دل کش اور تفریحی مقامات موجود ہیں جن میں سیدو شریف خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ منگورہ کی زیادہ تر آبادی یوسف زئی پشتونوں پر مشتمل ہے جوبے حد محنتی، جفاکش اور حب وطن کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہاں کے بیشتر لوگ تعلیم یافتہ، مہذب، باشعور اوربہت مہمان نوازہیں۔ مقامی باشندے عام طور پر شلوار اور قمیض زیب تن کرتے ہیں جو مقامی اور قومی لباس ہونے کے ناطے اُن کا طُرّئہ امتیاز بھی ہے۔
سوات ائیر پورٹ جاتے ہوئے راستے میں کانجو سے پہلے ایُوب برج(پل) آتا ہے جو دریائے سوات کے اوپربناہوا ہے۔ اس پل پر سے دریائے سوات اور ارد گرد کے حسین مناظر کا نظارہ دل و دماغ کو فرحت اور تازگی کا ایک خوش کن احساس بخشتا ہے۔ ایوب پل کے قرب و جوار میں دریائے سوات سے چھوٹی چھوٹی نہریںقریبی کھیتوں کی سیرابی کے لئے نکالی گئی ہیں جو مناظر کو دل فریب بنا دیتی ہیں۔
منگورہ قدیم تجارتی مرکز ہے اور اس کی یہ حیثیت صدیوں سے مُسلّم ہے۔ یہاں کے قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں کے مکین تازہ پھل ،دودھ او ر سبزیاں منگورہ کی منڈھیوں میں لاتے ہیں جن میں پہاڑوں کی خطرناک چوٹیوں میں اُگنے والی قیمتی جڑی بوٹی ’’گوجئی‘‘ (سیاہ کھمبی یا مشروم)’’لاڈورے‘‘ اور’’کونجے‘‘(منفرد قسم کے مقامی ساگ) کافی مشہور ہیں۔ پھلوں میں سیب، ناشپاتی، اخروٹ،انگور اور املوک (جاپانی پھل) یہاں وافر مقدار میں فروخت ہوتے ہیں۔[/align:a3ef55311b]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:4903f2f725]منگورہ کے مین بازار میں ملکی اور غیر ملکی کپڑا، الیکٹرونکس کے سامان، زری اور شیشے کے کام کے ملبوسات، واسکٹ اور قمیض، خوب صورت سواتی ٹوپیاں اور دست کاری و کشیدہ کاری کی دیگر نفیس اشیاء سیاحوں کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ زمرد اور دیگر قیمتی پتھروں کی دکانیں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میں بازار میں الیکٹرونکس کے سامان کے لئے محبوب الیکٹرونکس اور نیو روڈ پر اوورسیز الیکٹرونکس کی دُکانیں بہت مشہور ہیں۔
منگورہ میں عمدہ ہوٹل اور ریستوران بھی واقع ہیں۔ خاص طور پر نشاط چوک میں تِکّہ کڑاہی اور مرغ کڑاہی کی اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔ یہاں لذیذ چپلی کباب بھی ملتے ہیں جن کا ذائقہ نہ بھولنے والا ہے۔ چپلی کباب میں نوشاد کے کباب اور عام کیفے میں مکرم خان کا کیفے بہت مشہور ہے۔ ہوٹلوں میں یہاں ’’پامیر،سوات سیرینا، رائل پیلس، فضا گٹ ہوٹل ، راکاپوشی اور سوات کانٹیننٹل وہ ہوٹل ہیں جنہیں کسی بھی اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ منگورہ میں اوسط درجے کے بھی درجنوں ہوٹل موجودہیںجن میں سیاحوں کے لئے قیام و طعام اور ٹیلی فون کی جدید سہولتیں موجود ہیں۔ منگورہ میں شام کے وقت پلوشہ سینما کے قریب نیو مدین روڈایک پُر رونق جگہ ہے، جہاں زیادہ ترکیفے اور ریستوران واقع ہیں۔ ان میں کیفے کہکشاں، علی کبانہ اور خوراک محل زیادہ مشہور ہیں۔ یہاں کے سیخ کباب، کڑاہی تکے، مرغ کڑاہی، چکن اور روسٹ چکن ذائقہ اور لذت کے لئے خاص شہرت رکھتے ہیں۔
سیاحوں کی سہولت کے لئے واحد اورباقاعدہ ادارہ ’’سوات ٹوورازم کلب پاکستان‘ گلشن چوک منگورہ میں شائقین سیاحت کے لئے موجودہے جو مہمانوں کے لئے وادئ سوات اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں معلومات بِلا معاوضہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کرایہ پرہرقسم کی سواری( ٹرانسپورٹ) قابلِ دید مقامات کی سیر کی لئے بااعتماد راہبر (گائیڈز) ،پہاڑوں پر ٹریکنگ اور وادی کے ہر مقام پر ہوٹلوں میں قیام و طعام کابندوبست اور مختلف ٹور پیکجز(فرد یا گروپس) کی لئے مناسب معاوضہ پر خدمات سرانجام دیتا ہے۔
منگورہ کی مشہور شخصیات میں چاچا کریم بخش مرحوم ،کامران خان اور ملک بیرم خان (سابق چیئرمین بلدیہ منگورہ) کے اسمائے گرامی زیادہ نمایاں ہیں۔
منگورہ ، وادئ سوات کا خوب صورت اور بارونق شہر ہے۔ یہ چھوٹا سا گنجان آباد شہر قدیم و جدید تہذیب کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی بعض قدیم آبادیوں کے دروازوں اور چوبی ستونوں پر گندھارا تہذیب کے نمائندہ خوب صورت روایتی نقش و نگار اگر سوات کے صدیوں قدیم طرز بودوباش کی یاد دلاتے ہیں، تو شہر کے بازاروں میں زندگی تمام تر جدید سہولتوں کے جلو میں مسکراتی نظر آتی ہے۔[/align:4903f2f725]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
سوات میوزیم
[align=justify:b524f26131]منگورہ میںبت کڑہ کے قریب سیدو شریف روڈ پر ایک خوب صورت، دلچسپ اور تاریخی عجائب گھر ’’سوات میوزیم‘‘ کے نام سے موجود ہے جو ضلعی عدالتوں اور دفاتر سے متصل واقع ہے۔ اس عجائب گھر کی بنیاد والئی سوات(مرحوم) نے رکھی تھی۔ یہ عجائب گھر اپنی منفرد تزئین و آرائش، حسین سبزہ زاروں اور قیمتی نوادرات کے باعث بہت مشہور ہے۔ یہاں زیادہ تر گندھارا تہذیب اور بُدھ مت سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں۔
اس میوزیم میں کل نو گیلریاں بنائی گئی ہیں جن میں چار گیلریوں میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والی اشیاء نہایت نفاست اور سیلقے سے رکھی گئیں ہیں۔ پانچویں گیلری میں گندھارا گریک کلچر اور پری بدھسٹ آثار سجائے گئے ہیں۔ چھٹی گیلری میں آثار قدیمہ کے مائنرز آبجیکشن ہیں۔ ساتویں ، آٹھویں اور نویں گیلریاں سوات کی ثقافتی اور تہذیبی اشیاء کے لئے مخصوص کی گئیں ہیں۔ ان کو تین الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے تحت ایک میں سوات کوہستان کی اشیاء، دوسری میں صرف وادئ سوات اور تیسری میں ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے برتن، کپڑے اور استعمال کی دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں۔
سوات میوزیم میں حال ہی میں جاپان کی حکومت کے تعاون سے 46 ملین ین (قریباً90 لاکھ روپے) کی خطیر رقم سے تزئین و آرائش کا نیا کام کیا گیا ہے جس سے میوزیم کی خوب صورتی اور اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیاہے۔[/align:b524f26131]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:3a823ff043]یہاں سیاحوں کو میوزیم اور گندھارا تہذیب سے متعلق مختلف معلوماتی پروگرام دکھانے کے لئے ایک خوب صورت سماعت گاہ( آڈیٹوریم) بنایا گیا ہے جس میں جدید پروجیکٹر کی سہولت موجود ہے۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر لیکچرز اور مختلف قسم کی تقریبات کے انعقاد کا اہتمام بھی آڈیٹوریم میں کیا جا سکتا ہے۔ میوزیم کے ساتھ ہی مہمانوں کے لئے ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس موجود ہے ۔جس میں ٹھہرنے کے لئے میوزیم ڈائریکٹر سے اجازت لینا پڑتی ہے۔
سوات میوزیم میں قدیم سوات کا ایک چھوٹا سا روایتی گھر تعمیر کیا گیاہے جس کا سارا کام روایتی اور مقامی فنِ تعمیر کا خوب صورت مظہر ہے۔ اس میں سوات کے قدیم طرزِ رہائش کی عکاس اشیاء کو بڑے سلیقے کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
سوات میوزیم میں ہر طرف سبزہ زار اور خوب صورت پھول کھلے ہوئے ہیں جس سے اس کا ماحول نہایت حسین اور پُر سکون محسوس ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہترین ماحول اور عجائب گھر میں موجود ہزاروں سال قدیم قیمتی نوادرات محققوں کوقدیم تہذیب و تمدن کے مطالعہ اور تحقیق کے لئے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔
آثارِ قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کو سوات کے آثارِ قدیمہ سے برآمد ہونے والے قدیم اورقیمتی نوادرات دیکھنے کے لئے ’’سوات میوزیم‘‘ اور قدیم آثار کو کھنڈرات کی شکل میں دیکھنے کے لئے میوزم کے قریب واقع ’’بت کڑہ‘‘ ضرور جانا چاہئے۔[/align:3a823ff043]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
سیدو شریف
[align=justify:94f8162488]سیدو شریف سوات کا جدید ترین شہر ہے جومنگورہ سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیدو شریف منگورہ کے ساتھ کچھ اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ دونوں کا تعین کرنا بہت مشکل ہے بلکہ منگورہ اور سیدو شریف بالکل دوجڑواں شہر معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم منگورہ کا خوب صورت اور کشادہ گراسی گراؤنڈ دونوں شہروں کے مابین مرکزِ اتصال تصور کیا جا سکتا ہے۔
1957ء میں جب پہلی دفعہ وادئ سوات میں بلدیہ وجود میں لائی گئی تو منگورہ اور سیدو شریف دونوں کو ایک ہی بلدیہ کی حدود میں شامل کرلیا گیا جس کے بعد دونوں شہروں کانظم و نسق، تزئین و آرائش اور صفائی کا سارا انتظام بلدیہ ہی انجام دیتی آرہی ہے۔
ریاستِ سوات کے پاکستان میں ادغام کے بعد سیدو شریف کو ملاکنڈ ڈویژن کے صدر مقام کی حیثیت بھی دی گئی جس میں سوات، بونیر، شانگلہ، دیر اور چترال کے اضلاع کے علاوہ ملاکنڈ ایجنسی کے علاقے بھی شامل ہیںجس کی وجہ سے سیدو شریف کی گہما گہمی اور رونق میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی مرکزی حیثیت کے باعث ضلع سوات کے تمام محکموں کے دفاتر بھی سیدو شریف ہی میں قائم کئے گئے ہیں۔
منگورہ اور سیدو شریف میں آمد و رفت کا مقبول ذریعہ سوزوکی اور رکشے ہیں۔ سوزوکی دو روپیہ اور رکشہ تین روپیہ کے کرایہ فی سواری یک طرفہ کے عوض آپ کو لے جا اور لا سکتے ہیں۔ رکشے میں عموماً پانچ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں، تاہم پندرہ روپے میں رکشہ بُک کروا کر آپ خصوصی طور پر علاحدہ بھی منگورہ سے سیدو شریف تک دوتین کلومیٹر پر محیط پُر کشش مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
سیدو شریف ایک بہت قدیمی اور تاریخی شہر ہے جس نے زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔ جس طرح سیدو شریف آج ملاکنڈ ڈویژن کا صدر مقام ہے،اسی طرح پُرانے زمانے میںبھی اُسے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اور اس زمانے میں بھی یہ شہر تہذیبی، ثقافتی اور جدید ترقی کے لحاظ سے بہت آگے تھااور آج ریاستِ سوات کے آخری حکمران کا محل بھی یہیں ہے۔[/align:94f8162488]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:47e63c3b7b]بُدھ مت کے دور میں سیدو شریف کا پُرانا نام ’’بالی گرام‘‘ (اس نام کا ایک چھوٹا سا درہ آج بھی سیدو شریف کے قرب میں واقع ہے) تھا جس کے بعد یہ سادوگان کے نام سے مشہور ہوا۔ پشتو زبان میں لفظ سادوگان’’سادھو‘‘ کی جمع ہے۔ عہدِ قدیم میں یہاں بُدھ مت کے پیروکار بڑی تعداد میں آباد تھے جو یہاں غاروں میں عبادت کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اُس کا نام ’’سادوگان‘‘ پڑ گیا جو بعدمیں ’’سیدو‘‘ میں تبدیل ہوگیا۔
1845ء میں مشہور روحانی شخصیت اخوند صاحبِ سوات( عبدالغفور عرف سیدوبابا) جب سوات کے ’’سپل بانڈئ‘‘ نامی گاؤں کو خیر باد کہہ کرہمیشہ کے لئے سیدوچلے آئے تو اس وقت سیدو کی عظمتِ رفتہ کے نقوش ماند پڑ چکے تھے اور یہ ایک چھوٹا سا معمولی گاؤں تھا لیکن جب عبدالغفور اخوند صاحبِ سوات نے اس کواپنی مستقل رہائش کے لئے منتخب کیا اور اس میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی تو اس کی گزشتہ عظمت دوبارہ لوٹ آئی اور اس کی شہرت اخوند صاحبِ سوات (سیدوبابا) کی وجہ سے دور دراز تک پھیل گئی۔ ان کی وجہ سے سیدو، سیدو شریف بن گیا اور لوگ اس جگہ کو مقدس سمجھنے لگے۔ اُن کے دورِ سکونت میں سیدو شریف کوبڑا مذہبی رعب داب حاصل تھا۔ ان کا مزار اب سیدو شریف ہی میں ہے جو مرجع خلائقِ عام ہے۔
عبدالغفورؒ(سیدوبابا) کے فرزند کشر میاں گل عبدالخالق کے زمانے میں اس شہر کو مذہبی اور سیاسی دونوں حیثیتیں حاصل ہو گئیں۔ان دونوں کی وفات کے بعد سیدو شریف کی عظمت اور شوکت بھی ختم ہوگئی لیکن بعد میں 1915ء میں سیدو غوث عبدالغفور کے پوتے اور کشر میاں گل عبدالخالق کے بیٹے اعلیٰ حضرت میاں گل، گل شہزادہ عبدالودود نے سوات کی عنانِ سلطنت سنبھالی تو سیدو شریف کی وہی پرانی عظمت اور شوکت پھر لوٹ آئی۔ انہوں نے سیدو شریف کو ریاستِ سوات کے دارالحکومت کا درجہ دے دیااور اس طرح اس کی پرانی شہرت و عظمت بحال ہو گئی۔
سیدو شریف گیرا پہاڑ کے مشرقی دامن میں واقع ہے۔ اس کے مغرب کی طرف ایک ندی بہِ رہی ہے جس کے ماخذ’’ وادئ مرغزار‘‘ کے پہاڑ اور چشمے ہیں۔ سیدو شریف کے تینوں جانب پہاڑ اور شمالی سمت میدانی ہے۔ یہ مقام سطح سمندر سے 3500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں سے سوات کی تمام اطراف کو سڑکیں جاتی ہیں۔ اس سے ایک ذیلی سڑک ندی کے ساتھ ساتھ’’مرغزار‘‘ کی حسین وادی تک لے جاتی ہے۔ سڑک کے دائیں جانب پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں جو وادئ سیدو شریف کو ’’اوڈی گرام‘‘ (سوات کا ایک مشہور تاریخی گاؤں) سے علٰیحدہ کرتی ہیں۔ اس سے آگے ’’راجہ گیرا‘‘ کے قلعہ کے قدیم آثار نظر آتے ہیں جو گیرا پہاڑ کے مغربی جانب کھنڈرات کی شکل میں اوڈی گرام کے عین سامنے واقع ہیں۔ یہاں سے اوڈی گرام تک ہائنکنگ بھی کی جا سکتی ہے۔[/align:47e63c3b7b]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:7832d116a4]سیدو شریف کے شمال مشرقی جانب پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک خوب صورت ترین جگہ ’’عقبہ‘‘ ہے جس کا پُرانا نام’’ بڑینگل‘‘ تھا۔ یہاں ریاستی دور کا ایک خوب صورت شاہی محل ہے جسے اب ہوٹل(رائل پیلس) میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ محل طرز تعمیر اور حسین ماحول میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت دل کش اور سحرانگیز معلوم ہوتا ہے۔ اس میں منفرد اور بہترین انداز کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے۔ جس کے بلند و بالا خوب صورت مینار اس کی گزشتہ عظمت کی ایمان افروز حیثیت پر گواہ ہیں۔ یہ مسجد بانئی سوات بادشاہ صاحب(مرحوم) نے اپنی ذاتی مسجد کے طور پر تعمیر کرائی تھی۔ جس میں وہ اپنے ملازموں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کیاکرتے تھے۔ اب بھی اس میں باجماعت نماز ادا کرنے کااہتمام ہے ۔اس مسجد کی تعمیر میں نادر اور خوب صورت سپید سنگِ مرمر کے بڑے بڑے ٹکڑے استعمال کئے گئے ہیں۔
عقبہ تینوں جانب سے بلند پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک سرسبز و شاداب مقام ہے۔ اس میں چنار اور زیتون کے بلند و بالا درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس کے قرب و جوار کے خوب صورت پہاڑٹریکنگ اور کیمپنگ کے لئے نہایت موزوں ہیں۔ عقبیٰ ہی میں بانئی سوات، مردِ آہن بادشاہ صاحب ابدی نیند سو رہے ہیں۔
سیدو شریف جاکر اگر سیدو بابا کے مزار پر حاضری نہ دی جائے تو سیدو شریف کی سیر ادھوری محسوس ہوتی ہے اس کے علاوہ جہانزیب پوسٹ گریجویٹ کالج کی حسین اور ااچھوتی عمارت ، کالج کے عین سامنے پُر شکوہ ودودیہ ہال، جس میں کالج اور سوات بھر کی علمی،ادبی، سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی محفلیں منعقد ہوتی ہیں، خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے قریب واقع سوات سیرینہ ہوٹل کے عطر بیز اور گل رنگ ماحول سے بھی لطف اندوز ہونا نہ بھولئے گا۔ اس کے قریب ہی پاکستان ٹوورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن ضلع سوات کی حسین عمارت اور اس سے متصل پی ٹی ڈی سی موٹل بھی خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سیاحتی معلومات کی فراہمی کے لئے مستعد عملہ ہمہ وقت مصروف کار رہتا ہے۔
سوات بھر کے باشندوں کی طبی سہولتوں کا انحصار سیدو شریف میں واقع سیدوگروپ ہسپتال اورسنٹرل ہسپتال پر ہے۔ یہ دونوں ہسپتال سابق والئی سوات (مرحوم) کے دور میں تعمیر کئے گئے تھے جن میں اُس وقت علاج معالجہ کی سہولتیں بہت معیاری تھیں۔ لیکن اب اُن کی کارکردگی قطعی غیر تسلی بخش ہے کبھی سیدو ہسپتال میں واقع آئی سی یو وارڈ قدرے جدید طبی سہولتوں سے آراستہ تھا۔
سیدو شریف کی آبادی قریباً بیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں شہری آبادی کی تما م تر سہولتیں دستیاب ہیں ۔ یہاں ٹیلی فون ڈائریکٹ ڈائلنگ کے ذریعے پورے ملک اور بیرون ممالک سے منسلک ہے۔ سیدو شریف واقعتاً ایک بہت ہی صاف ستھرا مقام ہے اور اس کی آب وہوا نہایت معتدل ہے۔
سیدو شریف کی اہم ترین شخصیت، سابق گورنر بلوچستان و سرحد و سابق ایم این اے اور ریاستِ سوات کے آخری ولی عہد میاں گل اورنگ زیب کے بغیر اس شہر کا تذکرہ نامکمل ہے۔ باغ وبہار شخصیت کے مالک پرنس اورنگزیب اب بھی اپنے محل میں دربار سجاتے ہیں۔ اب بھی ان کے رہائشی محل میں سوات بھر اور بیرون سوات سے آئے ہوئے مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور وہ اُن کے جھرمٹ میںبیٹھے عوام وخواص میں گھل مل جاتے ہیں۔[/align:7832d116a4]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
مرغزار
[align=justify:36b1262c2b]مرغزار ایک ایسا نام جو ذہن میں طراوت اورروئیدگی کاایک مسحور کن احساس اُبھارتا ہے اور جسے سن کر آنکھوں کے سامنے سرسبز و شاداب، قدرت کی رعنائیوں سے بھرپور ایک حسین و دل کش وادی کا روپ اُجاگر ہوتا ہے۔ سوات کی یہ حسین و جمیل اور قدرے تنگ وادی سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو پکی سڑک کے ذریعے جنوب مغرب کی طرف سے سیدو شریف اور منگورہ سے ملتی ہے۔ یہ سحر انگیز وادی سوات کے مشہور اور تاریخی پہاڑ ایلم کے دامن میں واقع ہے جس کا پرانا نام مینہ تھا۔ یہ پرانا نام مرغزار کے قریب مغربی جانب واقع ’’ٹل‘‘ اور’’وربازہ‘‘ نامی مقامات کے درمیان ایک چھوٹی سی جگہ کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔ مینہ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جگہ جو شہر بھی نہ ہو اور گاؤں کے برابر بھی نہ ہو۔ مطلب یہ کہ وہ علاقہ جہاں لوگ نئے نئے آباد ہونا شروع ہوئے ہوں اور جس کی آبادی بتدریج بڑھ رہی ہو، اسے مینہ کہتے ہیں۔ بعدمیں مرغزار کا یہ نام میاں گل عبدالودود(بانئی سوات) نے یہاں کے حسین سبزہ زاروں کی وجہ سے بدل کر مرغزار رکھا ۔
مرغزار جانے والے راستے میں کئی دیہات اور گاؤں آتے ہیں جن میں شگئی، میاں بابا، بٹوڑا، کوکڑئی، چتوڑ ،اسلام پوراور سپل بانڈئ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ دیہات فطری حسن و دل کشی کی زندہ تصویریں ہیں۔ ان سب میں اسلام پور(پُرانا نام سلام پور) کا علاقہ عرصۂ قدیم سے کھڈیوں کی صنعت کے لئے مشہور و معروف چلا آرہا ہے جسے بجا طور پر سوات کا مانچسٹر بھی کہا جا سکتا ہے۔[/align:36b1262c2b]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:5383a36504]ایلم پہاڑ مرغزار کا قریبی پہاڑ ہے جو 9250 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ تاریخی لحاظ سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ اس پہاڑکے اوپر ایک چبوترہ بنا ہوا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ چبوترہ سری رام چندرجی(ہندوؤں کے اوتار) نے اس زمانے میں بنایا تھا جب انہوںنے آبادی کی بجائے جنگلوں کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ ہندوؤں کی تاریخی اور مذہبی کتابوں میں اس کو ’’بن باس‘‘ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ بن کا مطلب جنگل اور باس(باش) کے معنی ہیں، رہائش اختیار کرنا۔ رام چندر جی نے ایلم پہاڑکی چوٹی پر موجود، اپنے بن باس کے دوران بنائے ہوئے چبوترے پر کافی عرصہ گزارا تھا اور اس قدیم روایت کی بناء پر قیام پاکستان سے قبل سابق ہندوستان کے کونے کونے سے ہندو یہاں اس متبرک چبوترے کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے۔ وہ اس جگہ کوبڑا متبرک خیال کرتے تھے اور انتہائی ادب اور احترام کی وجہ سے وہ اسے ’’رام تخت‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ۔ رام چندر جی سے منسوب ایلم پہاڑکی چوٹی پر واقع اس چبوترے پر قیام پاکستان کے بعد بھی کچھ عرصہ تک محدود ہندوؤں پر مشتمل ایک چھوٹا سا سالانہ میلہ لگتا تھا جس کی روایت بعد ازاں رفتہ رفتہ ختم ہوگئی۔ سوات کے تاریخی پہاڑ ایلم میں رام چندر جی کی آمد کا زمانہ 500 (ق۔م) بتایا جاتا ہے۔ ایلم کی دوسری جانب مشہور روحانی پیشوا پیر بابا کا مزار اور ضلع بونیر کا سرسبز و شاداب علاقہ واقع ہے۔ جہاں مرغزار سے اس پہاڑکے راستے پیدل بھی جایا جا سکتا ہے۔[/align:5383a36504]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:a67c487f95]مرغزار نہ صرف اپنی دِل کشی اور اچھوتے حسن کے اعتبار سے مشہور ہے بلکہ یہ علاقہ اپنے معدنی وسائل کے سبب بھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں میں سنگ مرمر کی کئی نادر اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہاں ’’ سپیدمحل‘‘ کے نام سے سنگِ مرمر سے بنی ہوئی ایک خوبصورت عمارت بھی موجود ہے جوبانئی ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) نے تعمیر کروایا تھا۔ اس محل پر تعمیری کام کا آغاز 1935ء میں کیا گیا تھا اور اس کی تکمیل 1941ء میں ہوئی تھی۔اس محل میں سپید سنگِ مرمر کے دل کش اور قیمتی ٹکڑے استعمال کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے محل کے نچلے حصے میں خوب صورت سپید سنگِ مرمر محل کی شان وشوکت اوراس کے حُسن میںملکوتی اضافہ کرتے ہیں۔ یہ محل ایک وسیع رقبے میں پھیلا ہوا ہے جس کابالائی حصہ بہت پُرسکون ماحول میں واقع ہے۔ اس کے اردگرد پہاڑوں پرگھنے درختوں کے سلسلے، محل میں موجود حسین اور معطر پھول، اس کے ساتھ بیٹھنے کے لئے سنگِ مرمر کے بنے ہوئے خوب صورت تخت یہاں موجود سبزے کی مخملیں چادر محل کی دل کشی اور خوب صورتی کو چار چاند لگا رہی ہے۔ یہ سپید محل بانئی ریاستِ سوات بادشاہ صاحب (مرحوم) کا گرمائی صدر مقام تھا جس کو اب ہوٹل کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے آج بھی عام سیاح بے تاب نظر آتے ہیں ۔یہ تاریخی محل بلا شبہ جدید فنِ تعمیر کا خوب صورت نمونہ ہے۔[/align:a67c487f95]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:c34c522ed9]مرغزار کی وادی سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے قریب ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بہت دلچسپی کا باعث ہے۔ یہاں ہر وقت سیاحوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ مرغزار میں سیاحوں کے لئے بہت سی سہولتیں موجود ہیں۔ یہاں ہر وقت ٹریفک کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا مختصر بازار ہے جودو حصوں پر مشتمل ہے۔ بازار کے ایک حصے میں چائے کے ہوٹل اور علاقے کے لوگوں کے لئے روز مرہ ضرورت کی اشیاء پر مشتمل دُکانیں ہیں جب کہ بازار کا دوسرا حصہ پانچ چھ دکانوں پر مشتمل ہے جن میںہینڈی کرافٹس، سواتی مصنوعات، قدیم نوادرات، زمرد، یاقوت اور دیگر قیمتی پتھر دست یاب ہیں جوباذوق سیاحوں کے لئے تحفۂ خاص کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مرغزار بہت پُر سکون اور حسین جگہ ہے۔ یہاں ایک بڑی ندی بھی بہتی ہے جس میں بڑے بڑے پتھر عجیب دل کشی کاسبب ہیں۔ سیاح مرغزار آکر عموماً سپید محل اور اس کے قرب کی جگہوں تک ہی محدود ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ مرغزار میں سیر و تفریح کی بہترین جگہیں اس کے پہاڑ ہیں جوکیمپنگ اور ٹریکنگ کے لئے بہت موزوں ہیں۔ ان
پہاڑوں کے دامن میں جابجا قدرتی چشمے ہیں جن کا پانی نہایت ٹھنڈا اور شیریں ہے۔ پہاڑوں کی بلندیوں سے نیچے مرغزار کا نظارہ بہت حسین اور دل موہ لینے والا ہے۔ یہاں حدِ نگاہ تک خوب صورت باغات اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت نظر آتے ہیں جو مرغزار کی کشش اور حسن میں اضافہ کے باعث ہیں۔[/align:c34c522ed9]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
اُڈوی گرام سے لنڈاکی تک
[align=justify:3c76ebe408]اوڈی گرام سوات کا ایک تاریخی قصبہ ہے جومنگورہ سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کے حملے سے قبل اوڈی گرام ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ ترقی یافتہ اور متمدن تھے۔ اس کا ثبوت گیرا پہاڑ کے قدیم آثار اور اوڈی گرام کے قرب و جوار میں بکھرے ہوئے آثار قدیمہ سے ملتا ہے۔ ان آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں ایک مضبوط حکومت قائم تھی جس کے تحت عوام ایک منظم اور مہذب زندگی گزارتے تھے۔ یہاں کے آثارِ قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رہائشی مکانات ، بڑا بازار، تجارتی منڈی اورمذہبی خانقاہیں تھیں۔ غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی عروج پر تھی۔ قدیم منہدم عمارتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے گلی کوچے پختہ تھے، صحت و صفائی کا خاص انتظام تھا، صاف پانی کے لئے مٹی کے پائپوںکے ذریعے دریائے سوات سے پینے کے لئے صاف پانی بلند چوٹی پر واقع عظیم الشان قلعہ میں ایک خاص تکنیک کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔ یہاں کے آثار قدیمہ میں پتھروں پر نقش بہت پرانی تصاویر ملی ہیں جن میں زیادہ تر گھریلو اور جنگلی جانور دکھائے گئے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ نقوش2500 اور 2000 ق۔م کے درمیانی عہد میں اُبھارے گئے تھے۔
اس زمانہ 326) ق۔م) میں جو راجدھانی قائم تھی، اس کے راجہ کا نام’’اورا‘‘ تھا۔ جس پر سکندر اعظم نے حملہ کیا تھا۔مختلف قدیم یونانیوں نے اپنی اپنی تواریخ میں اس مقام کانام بھی’’اورا‘‘ہی لکھا ہے۔ یہاں راجہ ہوڈی نامی حکمران بھی گزرا ہے جس کے نام پر اس جگہ کانام ’’ہوڈی گرام‘‘ پڑ چکاہے۔ راجہ ہوڈی کے بعد اس راجدھانی کا آخری حکمران راجہ گیرا تھا جس کو روایات کے مطابق محمود غزنوی کی فوج کے ایک سپہ سالار پیر خوشحال نے شکست دے کر اسلام کا نور پھیلایاتھا۔ اس جنگ میں پیر خوشحال شہید ہو گیا تھا۔ اس پہاڑ کے دامن میںآج بھی پیر خوشحال غازی اور ان کے فوجیوں کی قبریں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ گیرا کی بیٹی مونجا دیوی پیر خوشحال پر فریفتہ ہوگئی تھی اور ان دونوں کی محبت کا قصہ آج بھی سوات میں ایک افسانوی کردار کی مانند زبانِ زد خاص و عام ہے۔
یہاں کے آثارِ قدیمہ میں محمود غزنوی کے دور کی ایک مسجد بھی 1985ء میں کھدائی کے دوران دریافت ہوئی ہے۔ جو بہت اچھی حالت میں ہے۔ اس کی صرف چھت غائب ہے۔ باقی عمارت صحیح حالت میں ہے۔ اس کا محراب،وضو خانہ، تالاب، نکاسئی آب کی نالیاں وغیرہ اچھی خاصی حالت میں ہیں۔ مسجد سے ایک کتبہ بھی برآمد ہوا ہے جو سپید سنگِ مرمر سے بنا ہوا ہے اور اس پر عربی زبان میں ایک عبارت درج ہے۔ اس عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ محمود غزنوی کے ایک امیر شہزادہ الحاجب ابومنصور کے حکم سے یہ مسجد نوشتگین نے تعمیر کی تھی اور تعمیر کی تاریخ 440ھ ہے۔ یہ سوات کی اولین مسجد قرار دی جاتی ہے۔[/align:3c76ebe408]
 

سندباد

لائبریرین
گوگدرہ
[align=justify:7b940c2c99]اوڈی گرام سے قریباًدو کلومیٹر کے فاصلے پر جرنیلی سڑک پر واقع ہے۔ یہاں ایک چٹان پر کندہ کچھ جانوروں کی شکلیں دریافت ہوئی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق قدیم ایران سے ہے۔ گوگدرہ کے قدیم کھنڈرات کا تعلق گیارہ یابارہ سو قبل مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسوی تک لگتاہے۔ یہاں گوتم بدھ کے چند مجسّمے بھی دریافت ہوئے ہیں۔[/align:7b940c2c99]غالیگے
[align=justify:7b940c2c99]گوگدرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاؤں بہت قدیمی ہے۔ اس کااندازہ یہاں سے برآمد ہونے والے آثارِ قدیمہ سے ہوتا ہے۔ یہاں بھی پہاڑی چٹانوں پر جانوروں کی تصویریں، مثلاً بیل ،گائے، گھوڑے اور مارخور وغیرہ کی تصاویر کندہ ہیں۔ غالیگی میں سڑک کے کنارے پہاڑ کی بلندی پر ایک بہت بڑا بت کندہ ہے، جس کے اوپر ایک اوربت بھی کندہ ہے۔ جس سے یہاں کی قدامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ غالیگی کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستِ سوات میں جب پہلی مرتبہ1850ء میں سید اکبر شاہ کی قیادت میں ایک شرعی اور اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو غالیگی کواس کا دارالخلافہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یوسف زئی قبیلہ کے بزرگ اور عظیم مقنن شیخ ملی بابا کا انتقال بھی اسی گاؤں میں ہوا تھا۔ اس وجہ سے سوات کی تاریخ میں غالیگے گاؤں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔[/align:7b940c2c99]شنگردار
[align=justify:7b940c2c99]یہ گاؤں بھی برلبِ سڑک غالیگے سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں بُدھ مت کا ایک بہت بڑا سٹوپا موجود ہے جو اچھی حالت میں ہے۔ اس سٹوپا کے گنبد کا قطر 162 اوراونچائی 90 فٹ ہے۔ یہ سٹوپا شنگردار سٹوپا کے نام سے مشہور ہے۔ سوات کے مشہور محقق اور ادیب محمد پرویش شاہین کی تحقیق کے مطابق شنگر دار کا لفظ شنگریلا سے نکلا ہے جو تبتی زبان کالفظ ہے۔ جس کے معنی دیوتاؤں کی جگہ کے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ اس سٹوپا میں مہاتما گوتم بدھ کی راکھ کا کچھ حصہ دفن ہے۔ اس سٹوپا کی زیارت کے لئے دنیا بھر سے بُدھ زائرین اور مختلف ممالک کے سیاح آتے رہتے ہیں اور اس کی زیارت سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔[/align:7b940c2c99]
 

سندباد

لائبریرین
بری کوٹ
[align=justify:2adc141900]سکندرِ اعظم کے دور کا ’’بازیرہ‘‘ اور آج کا بریکوٹ سوات کا ایک قدیم قصبہ ہے جومنگورہ سے تقریباً 15کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ اس کے خوب صورت بازار میں ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز دستیاب ہے۔ یہاں سے ایک سڑک جنوب کی طرف ضلع بونیر تک چلی گئی ہے اور دوسری سڑک بری کوٹ غونڈئ کے قریب شمالاً شموزئ نامی علاقے کی جانب چلی گئی ہے۔ جہاں نیموگرام اور ڈیڈہ ورہ نامی مقامات میں آثارِ قدیمہ واقع ہیں۔ سوات بھر میںنیموگرام کے آثارِ قدیمہ بہت اچھی حالت میں ہیں۔ بری کوٹ سے قریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اور مقام نجی گرام ہے جہاں کے وسیع اراضی میں آثارِ قدیمہ دریافت ہوئے ہیں۔ ان آثار سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں بدھ مت سے متعلق ایک یونیورسٹی قائم تھی جہاں بُدھ مذہب کی تعلیمات کے علاوہ طالب علموں کو سنگ تراشی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔
بری کوٹ میں بھی بہت سے قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ جن میںبری کوٹ غونڈئی کے آثار زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق 1700 قبل مسیح سے جوڑا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ سکندرِ اعظم نے وادئ سوات میں جن چار مقامات پر خون ریز لڑائی لڑی تھی ان میںبری کوٹ بھی شامل ہے۔ اس زمانے میں بری کوٹ کا نام’’بازیرا‘‘ تھا۔[/align:2adc141900]
 

سندباد

لائبریرین
کوٹہ، ابوھا، لنڈاکے
[align=justify:6d46acae9c]بری کوٹ سے چند کلومیٹر آگے کوٹہ، ابوھا اور لنڈاکی چیک پوسٹ واقع ہے۔ کوٹہ اور ابوھا دونوں گاؤں سوات کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ ریاستِ سوات کے قیام میں یہاں کے معززین کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ یہاں بھی آثارِ قدیمہ وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ابوھا کا گاؤں نیمبولا اور بیگم جان کے رومان کے لئے بہت مشہور ہے۔ روایات کے مطابق یہاں کی ایک دوشیزہ پر نیمبو لا نامی ’’جن‘‘ عاشق ہوا تھاجس کو ملا بہادرنامی مولوی نے جلایا تھا۔ بعد میں جن کے لواحقین نے ملا بہادر کوسنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ باوضو رہتا تھا۔ ایک دن جب وہ باوضو نہیں تھا تو نیمبولا کے رشتہ دار جنوں نے اس کومسجد میں پھانسی دی اور پھر اس کی لاش کو ابوھا کی ایک پہاڑی پر لٹکا دیا۔
کوٹہ میں ریاستی دور کا ایک مشہور قلعہ تھا جس کو حال ہی میں مسمار کردیا گیا۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس قلعہ کو قومی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ کرلیا جاتا اور اُسے سیاحوں کیلئے پر کشش بنا دیا جاتا لیکن جس طرح ریاستی دور کے دیگر نشانات بڑی بے دردی سے مٹائے جا رہے ہیں، اس طرح اس قلعہ کوبھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیاہے۔
لنڈاکی ضلع سوات کی آخری حد پر واقع ہے۔ اس سے آگے ملاکنڈ ایجنسی کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ لنڈاکی ایک خوب صورت گاؤں ہے جو عین دریائے سوات کے کنارے پر واقع ہے۔ یہا ں کے قدرتی مناظربہت د ل فریب ہیں۔ یہاں سیاحوں کی سہولت کے لئے کئی ریسٹورنٹ عین دریائے سوات کے کنارے بنے ہوئے ہیں۔ جن میں دریائے سوات کی تازہ مچھلی ہر وقت ملتی ہے۔ سوات آنے والے سیاح اپنے طویل سفر کی تھکاوٹ، خوب صورت مناظر سے گھرے ہوئے ان ریستورانوںمیںمختصر قیام سے باآسانی دور کر سکتے ہیں اور دریائے سوات اور اس کے قرب میںبکھرے ہوئے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔[/align:6d46acae9c]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
وادئ بونیر
[align=justify:efa1797d94]31دسمبر1990ء تک ضلع بونیر ایک سب ڈویژن کی حیثیت سے وادئ سوات کا حصہ تھا۔ یکم جنوری 1991ء کو ضلع سوات سے بونیر کا علاقہ الگ کرکے اُسے علیٰحدہ ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔ ڈگر ضلع بونیر کا صدر مقام ہے جوسوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 64 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
بری کوٹ کے مقام پر سوات کی جرنیلی سڑک سے جنوباً ایک سڑک براستہ کڑاکڑ پاس بونیر تک چلی گئی ہے۔ راستے میں نجی گرام کے مشہور آثارِ قدیمہ ہیں جس تک دائیں طرف ایک دوسری ذیلی سڑک چلی گئی ہے۔ جب کہ بونیر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک نہایت حسین مقام’’ املوک درہ‘‘ آتا ہے جوبلند وبالا پہاڑوں سے گھرا ہوا نہایت دِل کش مقام ہے۔ ناوہ گئی نامی مقام سے ہوتے ہوئے درہ کڑاکڑ میں داخل ہوا جاتا ہے جو اگرچہ زیادہ تر چڑھائی اور پھر اُترائی پر مشتمل ہے لیکن پورا راستہ گھنے جنگلات سے پُر بہت خوب صورت ہے۔ ’’جوڑ‘‘ کے مقام پر سڑک دو حصوں میں منقسم ہوجاتی ہے۔ ایک سڑک براستہ تور ورسک ڈگر تک چلی گئی ہے جبکہ بائیں طرف سڑک حضرت پیر بابا کے مزار (پاچا کلے) تک جاتی ہے۔ یہ سڑک بھی دس میل کے فاصلے پر ڈگر تک چلی گئی ہے۔ ضلع بونیر کا صدر مقام ہونے کی وجہ سے ڈگر میںضلعی دفاتر، ٹیلی فون ایکس چینج، مرکزی ڈاک خانہ، ہسپتال اور ضلعی انتظامیہ کی رہائش گاہیں واقع ہیں۔ یہ مقام نہایت حسین اور دل کش ہے ۔ یہاں سے چار کلومیٹر کے فاصلے پرواقع’’ سواڑی‘‘ ایک اہم جگہ ہے ۔ جو ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔یہاں ایک خوب صورت کالج بھی ہے۔ سواڑی سے ایک سڑک مشہور تاریخی مقام درہ امبیلہ تک چلی گئی ہے۔ جہاں سے براستہ سدم، شہباز گڑھی جایا جا سکتا ہے اور پھر وہاں سے تربیلہ ڈیم، ضلع صوابی اور ضلع مردان میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ سواڑی سے دوسری سڑک واپس تورورسک، انغاپور اور ایلئی سے ہوتے ہوئی بری کوٹ (سوات) سے مل جاتی ہے۔[/align:efa1797d94]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:9b721e0677]بونیر کی پوری وادی بلند پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہ وادی کہیں تنگ اور کہیںبہت کشادہ ہے۔ زیادہ تر زمین بارانی ہے تاہم کہیںکہیں پہاڑی نالے اور ایک ندی اس کی زمین کو سیراب کرتے ہیں۔ یہاں کے پہاڑوں میں قیمتی معدنیات بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں سفید پتھر اورسنگِ مرمر کے وسیع ذخائر ہیںاور اس کے کارخانے یہاں قدم قدم پر قائم ہیں جہاں سے سنگِ مرمر پورے ملک میں بھیجا جاتا ہے۔
وادئ بونیر کے مقامات ملکا اور امبیلہ تاریخی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ سید احمد شہید بریلوی کے مجاہدوں کا مرکز تھااور یہیں سے اخوند صاحبِ سوات نے 1863ء میں جہاد کیا تھا اور اس علاقہ میں 1897ء میں یہاں کے قبائل نے انگریزوں کے خلاف علمِ آزادی بلند کیا تھا۔ پاچا کلے کے مقام پر مشہور بزرگ اور روحانی شخصیت حضرت سید علی ترمذی* عرف ’’پیربابا*‘‘ کا مزار ہے۔ جہاں دور دراز سے زائرین لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں۔
وادئ سوات اور بونیر کے درمیان ایلم پہاڑ کا طویل سلسلہ حائل ہے۔ کڑاکڑ ٹاپ سے بونیر کے میدانوں اور برف پوش چوٹیوں کا نظارہ بہت حسین اور دل فریب ہے۔ سردی کے موسم میں وادئ بونیر کے بلند پہاڑوں سمیت کڑاکڑ پاس پر بھی بہت برف پڑتی ہے۔
بونیر کے خوب صورت مقامات میں ڈگر، ایلئی،انغاپور اور قادر نگر شامل ہیں۔ قادر نگر کی خوب صورت اور حسین وادی پاچا کلے سے قریباً 8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔جہاں مشہور صوفی اور روحانی شخصیت عبید اللہ درانی بابا محواستراحت ہیں۔ جن کے مزار (عُرس) پرہر سال ہزاروں زائرین حاضر ہوتے ہیں۔


* حضرت سید علی ترمذی کے بارے میں شیر افضل خان بریکوٹی(لندن) نے اپنی ایک جامع تحقیقی کتاب’’پیر بابا میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ (مصنف)[/align:9b721e0677]
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top