سوات کا واقعہ - میرے لیے بولنے والا کوئی نہیں بچا تھا - روف کلاسرہ
سوات کا واقعہ - میرے لیے بولنے والا کوئی نہیں بچا تھا - روف کلاسرہ
یہ کل کی بات لگتی ہے جب طالبان افغانستان میں کسی بھی عورت کو گھسیٹ کر مجمع کے سامنے لے جاتے اور برقعہ میں لپٹی ایک گٹھڑی کی مانند خوفزدہ مخلوق کی کنپٹی پر گن رکھ کر گولی مار دیتے۔ اخبارات میں ان کے حق میں ایسے ایسے کالم چھپوائے گئے کہ اگر کسی دوسرے آدمی نے ان سے اختلاف کرنے کی کوشش بھی کی تو ایسے لگا جیسے وہ ملک دشمن ہو۔ وہ ملک جہاں ستر فیصد لوگ غریب اور ان پڑھ ہوں وہ دنیا میں تباہی تو لا سکتے ہیں ان سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ان کے ساتھ ملے میرے جیسے دانشور آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان پاکستان کا اسٹریٹیجک اثاثہ ہیں اور ان کا ہر نخرہ برداشت کرنا قومی مفاد میں ہے۔ آج افغانستان میں کسی عورت کو سرعام کوڑے یا مجمع کے سامنے گولی نہیں ماری جاتی کیونکہ خیر سے یہ کام ہمارے لوگ اب سوات میں کر رہے ہیں۔ ہمارے دانشوروں نے اب ہمیں ایک نئی گولی دینا شروع کر دی ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست ہو رہی تھی لہذا یہ چند دنوں کی بات ہے جب طالبان پھر افغانستان پر قبضہ جما لیں گے۔ ان بیچاروں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکیوں کا طریقہ واردات بڑا مختلف ہے۔ ان امریکیوں نے خود یہ شور مچانا شروع کیا کہ افغانستان میں انہیں شکست ہو رہی تھی اور کانگریس سے سترہ ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کی منظوری لے لی اور اپنے بجٹ میں مزید اضافہ کرا لیا۔ عراق کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا تھا۔ امریکیوں نے صدام حسین کو ایسے پیش کیا کہ جیسے وہ چند دنوں میں امریکی فوجیوں کو صحرا میں دفن کر دے گا۔ امریکیوں اور یورپی اقوام کو جان بوجھ کر صدام حسین کے بارے میں اس طرح کی اطلاعات دی گئیں کہ سب نے یہی سمجھا کہ اگر اس عفریت کو شکست نہ دی تو شاید یہ پوری دنیا کو ہڑپ کر جائے گا۔ چند دنوں بعد وہی صدام ایک بل سے ذلت آمیز حالت میں گرفتار ہوئے اور پھانسی لگا دیئے گئے۔ یہی حکمت عملی اس سے پہلے افغانستان میں اختیار کی گئی۔ طالبان کو ایسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا کہ ان کے پاس ایٹمی اسلحہ تھا اور وہ پوری دنیا کو تباہ کر دیں گے۔ ہم پاکستانی بڑے خوش ہوئے کہ اب امریکہ کو سمجھ آئے گی جب ہمارے لاڈلے اس کی فوجوں کو تباہ کریں گے۔ چند دنوں بعد طالبان کمانڈر موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ اب وہ پرانا اسکرپٹ پھر دہرایا جا رہا ہے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ امریکیوں کو افغانستان میں شکست ہو رہی تھی پتہ چلا انہوں نے سترہ ہزار مزید فوجی منگوا لیے اور بڑی سمجھداری سے افغانستان میں جاری جنگ کو وہ پاکستان کے اندر تک لے آئے ہیں۔ آج افغان عورت ایک نئے سرے سے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں پھر سے شامل ہو گئی ہے جبکہ ہماری بچیوں کو بھرے بازار میں ڈیڑھ دو سو کے مجمع کی موجودگی میں الٹا لٹا کر بے رحمانہ انداز میں کوڑے مار رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے نئے منتخب امیر منور حسن جن سے سب کو بڑی امیدیں تھیں ان سے زیادہ اچھی بات تو صوفی محمد کی تحریک کے ترجمان عزت خان نے کی ہے جس نے لڑکی کو کوڑے مارنے کی شدید مذمت کی۔ منور حسن الٹا یہ طعنے دیتے پائے گئے کہ ڈرون حملوں پر اتنا شور کیوں نہیں مچایا جاتا۔ لگتا ہے موصوف نہ اخبار پڑھتے ہیں اور نہ کوئی ٹیلیویژن چینل دیکھتے ہیں۔ اس لیے شاید انہیں کوئی علم نہیں ہے کہ ان ڈرون حملوں کے خلاف کتنا احتجاج کیا جاتا ہے۔
میں طالبان سے بڑھ کر اس ملک کے صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی اور اے این پی کے اسفند یار اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اس لڑکی کی پشت پر لگنے والے کوڑوں کا ذمہ دار سمجھتا ہوں جنہوں نے بڑی آسانی سے ایک پوری ریاست ان لوگوں کے ہاتھوں میں دیدی ہے جو کسی دوسرے کی ماں بہن پر کوئی بھی جھوٹا الزام لگا کر اسے سرعام کوڑے مارتے ہیں۔ مجھے اب بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ اسی اخبار کے انہی صفحات پر بہت سارے ایسے کالم پڑھیں گے جو کسی شخص کی بیٹی کی پشت پر سرعام لگنے والے کوڑوں کی ایسی ایسی وضاحتیں پیش کریں گے کہ ہم سب کا جی چاہے گا کہ اب سوات کے بعد دیر، بنوں، کوہاٹ اور پھر پشاور اور آخر میں اسلام آباد ان کے حوالے کر دیں۔ ہم ایک ایسی ریاست اور معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں جو مسلسل ”حالت انکار“ میں ہے۔ ہم کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری ایجنسیاں اور ان کے لاڈلے مل کر کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کھیل وہ کھیلتے ہیں اور ان کی کارروائیوں کی وضاحتیں ہم کرتے ہیں۔ ہم ساری دنیا کو جھوٹا اور اپنے لاڈلوں کو سچا سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ لاڈلے افغانستان میں یہ سب کچھ کرتے تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ کام ہمارے ہاں کبھی نہیں ہوگا۔ اب یہ کام سوات میں ہو رہا ہے تو ہم سمجھتے ہیں یہ کوڑے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی عورتوں کی پشت پر نہیں لگیں گے۔
ٹی وی چینلز پر چلنے والی ویڈیو میں سوات کے ایک گاؤں میں بھرے مجمع کے سامنے اپنی پشت پر کوڑے کھاتی اسلام کے چار بہادر محافظوں کے شکنجے میں جکڑی زخمی کبوتر کی طرح پھڑپھڑاتی اس لڑکی کی چیخیں سن کر مجھے اس شخص کی ایک بڑی مشہور نظم یاد آ رہی تھی جو اس نے جنگ عظیم دوم میں لکھی تھی کہ کیسے ایک دن نازی فوجی آئے اور میرے ساتھ والے ہمسائے کو اٹھا کر لے گئے۔ میں چپ رہا۔ کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ میری باری کبھی نہیں آئے گی۔ اگلے دن وہ ایک اور ہمسائے کو اٹھا کر لے گئے تو بھی میں چپ رہا۔ ایک دن وہ سارے یہودیوں کو اٹھا کر لے گئے تو بھی میں چپ رہا۔ ایک صبح وہ مجھے اٹھانے آئے تو میں نے خوف کے مارے ادھر ادھر دیکھا تو میرے لیے بولنے والا کوئی نہیں بچا تھا!!