پہلے آپ ایسے الفاظ بتائیں جن کے ساتھ سوالیہ نشان (؟) لگ جاتا ہے اور وہ پھر بھی مکمل سوال میں نہیں بدلتےسوالیہ جملے بھی ہوتے ہیں اور سوالیہ الفاظ بھی مگر سوالیہ نشان (؟) عجب اثر رکھتا ہے۔ یہ نشان چند حروف کے مرکب کے ساتھ لگ جائے تو ان حروف کو مکمل سوال میں بدل دیتا ہے۔ مثلاََ
نام؟
پیشہ؟
مشاغل؟
پتہ؟
محفل؟
ریٹنگ؟
؟
؟
آپ سب سے گزارش ہے کہ ایک ایک لفظ بتائیے جس کے ساتھ '؟' لگا کر مکمل سوال بن جائے۔
ہنستی مسکراتی شاد و آباد رہیں میری محترم بہنانایاب بھیا ایک تو آپ اتنے عرصے بعد تشریف لائے اور اوپر سے صرف ریٹنگز کا استعمال کرتے جا رہے ہیں۔
اتنی بھی کیا بےرخی اپنی چھوٹی سی بہن سے
یہ تو چیٹنگ ہے ناںپہلے آپ ایسے الفاظ بتائیں جن کے ساتھ سوالیہ نشان (؟) لگ جاتا ہے اور وہ پھر بھی مکمل سوال میں نہیں بدلتے
آپ بھول رہی ہیں! آپ کے دھاگے کا نام کیا ہے بھلا؟ یہ چیٹنگ نہیں بلکہ عین رول آف دی گیم ہے اب کھیلنا ہے یا نہیں؟یہ تو چیٹنگ ہے ناں
میں نے سوال کیا آپ جواب میں سوال کر رہے ہیں
جائیں میں نہیں کھیلتی۔۔۔ آپ چیٹنگ کرتے ہیں
آنکھ کو وضو کراتی اک خوبصورت تحریر ۔۔تو پھر کیوں مجھے وہاں ساری عمر رہنا پڑے گا؟
جی ابھی حاضر ہوتا ہوں۔ پورے دھاگے کو ازسر نو پڑھتا ہوں۔ٹیگ نامہ
عبد الرحمن بھیا
فکرِمعاش ایک اٹل اور انمٹ سچائی ہے یہ فکر ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتی ہے۔یہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی روّیوں کا ناک نقشہ بناتی ہے۔معاش کی جدوجہد ایک عجب ہی دُنیا ہے یہ حشر سے پہلےکا ایک میدانِ حشر ہے جہاں ہر کوئی اپنی بقاء و بہتری کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہےاور ایسے میں دوسروں کو روند کر اُن کے زندہ یا مردہ جسموں پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھنےاور اونچا ہونے کی فکر میں مگن ہے۔ یہ بے رحم مسابقت اور جاں گُسل جدوجہد دینا کو ایک آزمائش گاہ بنا دیتی ہے جہاں قدم قدم پر امتحاں ہیں اور کمزور لوگ جہاں مارے جاتے ہیں، کُچلے جاتے ہیں یا بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ صنفِ نازک جذباتی، جسمانی اور معاشی طور پر اپنی مخالف جنس سے کمزور بنائی گئی ہے اور ایسا انسانوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ دیگر متنوع جانداروں میں بھی یہ فرق دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تو والدین بیٹی کی صورت میں ایک کمزور فرد کے مستقبل سے خوفزدہ رہتے ہیں جسے عملی زندگی کے بہت سے اعصاب شکن محاذوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور اُس پر مستزاد ہمارے منافقانہ معاشرتی روّیے ہیں جہاں ایک طرف تو بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا ہے مگر عملی طور پر اُسے اُس کی جائز آزادیوں پر قدغن لگا کر ، حقِ تعلیم سے محروم کر کے یا اِس میں جا بجا مشکلات حائل کر کے ، باعزت روزگار کے مواقع محدود کر کے اور جہیز کے مکروہ بوجھ جیسی دیواروں میں چُن دیا جاتا ہے۔بیٹی پیدا ہوئی تو مبارک باد دینے اور بیٹی کو دیکھنے کے لیے رشتہ دار، پڑوسی اور دیگر احباب گھر آنے لگے۔
چھوٹی پھوپھو نے کہا "بھائی! اس کی آنکھیں بالکل میرے جیسی بڑی بڑی ہیں"
بڑی پھوپھو نے اپنی بھتیجی کو کسی کھلونے کی طرح الٹ پلٹ کر دیکھا اور بولیں "اس کے ہاتھ مجھ پر گئے ہیں۔ بال دادی جیسے ہیں۔۔۔ ہونٹ پتا نہیں کس کے لے لیے ہیں۔ ہم سب کے تو اتنے پیارے ہونٹ ہیں۔ نانکوں میں سے کسی پے چلے گئے ہیں۔"
چاچے نے کہا " بھابھی! جب گڑیا بڑی ہو گی تو میں خود اسے اچھے سے سکول میں داخل کرواؤں گا۔ خود اسے سکول چھوڑ کر آؤں گا لے کر آؤں گا۔"
تایا نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا۔ جیب سے سارے پیسے نکال کر بھتیجی کے ہاتھ میں پکڑانے کی کوشش کی اور کہا " اللہ نصیب چنگے کرے۔"
دادا اور دادی خوشی سے یہاں وہاں دوڑتے پھر رہے۔ جیسے ہوا میں اڑ رہے ہوں۔
دادا مٹھائی کے ٹوکرے لے آئے۔
دادی نے مہمانوں کو مٹھائیاں کھلانا شروع کر دیں اور سب کو بلا بلا کر پوتی دکھانے لگیں۔
پڑوس سے ایک عمر رسیدہ خاتون آئیں اور افسردہ سا منہ بنا کر ماں سے کہنے لگیں "ہائے نی کڑئیے اللہ پتر دے دیندا تے کی جاندا"
دادی فورا" بولیں "خبردار! ساڈی پوتری سانوں پوتریاں تو ودھ کے پیاری اے۔ جے توں ایہو جئی گلاں کرنیاں نیں تے ایندا واستے ساڈے کار ناں آئیں۔"۔۔۔۔۔
۔۔۔
یہ باتیں ماں کے دل پر گہرے ذخم چھوڑ گئیں۔ ماں کو اسی دن سے بیٹی کی فکر ہونے لگی۔ وقتا" فوقتا" انہوں نے ابو کو بھی اپنی فکر کے مختلف ذاویوں سے آگاہ کیا۔۔۔
دن گزرتے رہے، بیٹی باتیں سمجھنے لگی، رویے جانچنے لگی، جذبات پرکھنے لگی۔۔۔۔
اس نے خود کو ماں باپ کے کاندھوں کا بوجھ پایا۔ وہ خاموش رہنے لگی اور سپنے بننے لگی۔۔۔
اس کا ذہن چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتیجے نکالنے لگا۔۔۔
کبھی معمولی باتیں اسے ہنساتیں رلاتیں۔ کبھی وہ بڑے واقعات نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتی۔
جو کچھ دیکھتی سنتی سب کی کڑیاں آپس میں ملاتی۔ اپنی خواہشات کو ان کڑیوں کی کسوٹی پر پرکھنے لگتی۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کی خواہشات اور سپنوں کی تصاویر نمایاں ہوتی گئیں۔
مگر ساتھ ہی ساتھ اپنی بےبسی، کمتری اور کمزوری کے احساسات بھی زور پکڑنے لگے۔۔۔
سوالات کی لمبی فہرست بنتی چلی گئی؛
کیا سب بیٹیاں کمزور ہوتی ہیں؟
بیٹیوں کو کیوں ماں باپ اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں؟
کیا یہ میرا گھر نہیں ہے؟
وہ گھر بھی تو میرا نہیں ہو گا، تو پھر کیوں مجھے وہاں ساری عمر رہنا پڑے گا؟
؟؟؟
؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟
؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟ ؟؟؟
یوں لگے جیسے کہ " سرسری اس جہاں سے گزرے "صنفِ نازک جذباتی، جسمانی اور معاشی طور پر اپنی مخالف جنس سے کمزور بنائی گئی ہے اور ایسا انسانوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ دیگر متنوع جانداروں میں بھی یہ فرق دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔
فکرِمعاش ایک اٹل اور انمٹ سچائی ہے یہ فکر ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتی ہے۔یہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی روّیوں کا ناک نقشہ بناتی ہے۔معاش کی جدوجہد ایک عجب ہی دُنیا ہے یہ حشر سے پہلےکا ایک میدانِ حشر ہے جہاں ہر کوئی اپنی بقاء و بہتری کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہےاور ایسے میں دوسروں کو روند کر اُن کے زندہ یا مردہ جسموں پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھنےاور اونچا ہونے کی فکر میں مگن ہے۔ یہ بے رحم مسابقت اور جاں گُسل جدوجہد دینا کو ایک آزمائش گاہ بنا دیتی ہے جہاں قدم قدم پر امتحاں ہیں اور کمزور لوگ جہاں مارے جاتے ہیں، کُچلے جاتے ہیں یا بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ صنفِ نازک جذباتی، جسمانی اور معاشی طور پر اپنی مخالف جنس سے کمزور بنائی گئی ہے اور ایسا انسانوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ دیگر متنوع جانداروں میں بھی یہ فرق دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تو والدین بیٹی کی صورت میں ایک کمزور فرد کے مستقبل سے خوفزدہ رہتے ہیں جسے عملی زندگی کے بہت سے اعصاب شکن محاذوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور اُس پر مستزاد ہمارے منافقانہ معاشرتی روّیے ہیں جہاں ایک طرف تو بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا ہے مگر عملی طور پر اُسے اُس کی جائز آزادیوں پر قدغن لگا کر ، حقِ تعلیم سے محروم کر کے یا اِس میں جا بجا مشکلات حائل کر کے ، باعزت روزگار کے مواقع محدود کر کے اور جہیز کے مکروہ بوجھ جیسی دیواروں میں چُن دیا جاتا ہے۔
اِس المیے کا ممکنہ حل یہی ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو کسی بھی حوالے کمزور نہ رہنے دیں اگر وہ اپنے معاشی حالات کے مطابق ایک ہی بچے کی پرورش ٹھیک سے کر سکتے ہیں تو خود کو کثیرالعیالی کی اذیّت میں مبتلا نہ کریں اور یہ کام ماضی کے مقابلے میں آج زیادہ آسان ہے کہ اَب وہ طبقات جو کہ پہلے مذہبی ٹھیکیداروں کے خوف سے چاہتے ہوئے بھی ایسا نہ کر پاتے تھے اَب اپنے اچھے بُرے کا فیصلہ خود کرنے کی ہمت پانے لگے ہیں۔ والدین اپنی بچیوں کو مفید تعلیم و ہنر کے ذریعےباعزت روزگار کے قابل بنائیں تاکہ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں وہ اپنے اور اپنے بچوں کے نوالے کے لیے کسی بھی دوسرے فرد کے ہاتھوں کی طرف نہ دیکھیں۔ ماں باپ کی جائداد میں بچیوں کا حصّہ عموما" ماں باپ کی چشم پوشی سے بھائی ہڑپ لیتے ہیں اِس کی سخت مذمت اور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور شادی کی شرائط میں ساتھ رہنے یا خُدانخواستہ علیحدگی ہر دو صورتوں میں بچی کی بنیادی ضروریات مثلا" رہائش، نان نفقہ وغیرہ کی باعزت فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور حق مہر مبلغ ساڑھے بتیس روپے ٹائپ کی جہالت کو خیر آباد کہا جائے تو ماں باپ کا گھر بھی بچی کا اور سسرال کا گھر بھی اُس کی ملکیت۔ میرا خیال ہے کہ راستے اور طریقہ کار موجود ہیں بات صرف اپنے حق کے لیے ڈٹ جانے کی ہے اُس حق کے لیے جو ہمیشہ کمپرومائز ہو جاتا ہے۔ کیا میں نے ٹھیک کہا ہے؟
نایاب جی نزاکت صنفِ نازک کا سب سے لطیف اور طاقتور پہلو بھی ہے جِس کے گھائل بادشاہ بھی گلیوں کی خاک ہو گئے ۔اِس ناقابلِ دفاع قوت سے زیر و زبر ہونے والوں کے قصّے زندگی سے زیادہ طویل ہیں مگر اِس خوابناک تصویر کا دوسرا رُخ بہت دردناک ہے کہ ہمیں ہر چیز کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے تو اِس تباہ کُن طاقت کی قیمت وہ بے چارگی ہے جو تُند ہواؤں کے غالب آنے پر سامنے آتی ہے۔یوں لگے جیسے کہ " سرسری اس جہاں سے گزرے "
بہت دعائیں
آمین۔آنکھ کو وضو کراتی اک خوبصورت تحریر ۔۔
بیٹیاں تو پھول جیسی ہوتی ہیں
مگر یہ پھول بکھر کر فنا نہیں ہوتا
یہ اک شاخ سے بچھڑتی ہیں دوسری شاخ پہ پھول کھلا دیتی ہیں
زندگی کو آگے چلا دیتی ہیں ۔ جان پر کھیل " جنت " کی ملکیت پا لیتی ہیں ۔
اللہ سوہنا سدا سب بیٹیوں کے نصیب میں اپنی رحمتوں بھری بہاروں کا موسم لکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔آمین
بہت دعائیں
بالکل درست فرمایا بھیا۔صنفِ نازک جذباتی، جسمانی اور معاشی طور پر اپنی مخالف جنس سے کمزور بنائی گئی ہے اور ایسا انسانوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ دیگر متنوع جانداروں میں بھی یہ فرق دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تو والدین بیٹی کی صورت میں ایک کمزور فرد کے مستقبل سے خوفزدہ رہتے ہیں جسے عملی زندگی کے بہت سے اعصاب شکن محاذوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور اُس پر مستزاد ہمارے منافقانہ معاشرتی روّیے ہیں جہاں ایک طرف تو بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا ہے مگر عملی طور پر اُسے اُس کی جائز آزادیوں پر قدغن لگا کر ، حقِ تعلیم سے محروم کر کے یا اِس میں جا بجا مشکلات حائل کر کے ، باعزت روزگار کے مواقع محدود کر کے اور جہیز کے مکروہ بوجھ جیسی دیواروں میں چُن دیا جاتا ہے۔
بالکل درست۔اِس المیے کا ممکنہ حل یہی ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو کسی بھی حوالے کمزور نہ رہنے دیں اگر وہ اپنے معاشی حالات کے مطابق ایک ہی بچے کی پرورش ٹھیک سے کر سکتے ہیں تو خود کو کثیرالعیالی کی اذیّت میں مبتلا نہ کریں اور یہ کام ماضی کے مقابلے میں آج زیادہ آسان ہے کہ اَب وہ طبقات جو کہ پہلے مذہبی ٹھیکیداروں کے خوف سے چاہتے ہوئے بھی ایسا نہ کر پاتے تھے اَب اپنے اچھے بُرے کا فیصلہ خود کرنے کی ہمت پانے لگے ہیں۔ والدین اپنی بچیوں کو مفید تعلیم و ہنر کے ذریعےباعزت روزگار کے قابل بنائیں تاکہ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں وہ اپنے اور اپنے بچوں کے نوالے کے لیے کسی بھی دوسرے فرد کے ہاتھوں کی طرف نہ دیکھیں۔ ماں باپ کی جائداد میں بچیوں کا حصّہ عموما" ماں باپ کی چشم پوشی سے بھائی ہڑپ لیتے ہیں اِس کی سخت مذمت اور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور شادی کی شرائط میں ساتھ رہنے یا خُدانخواستہ علیحدگی ہر دو صورتوں میں بچی کی بنیادی ضروریات مثلا" رہائش، نان نفقہ وغیرہ کی باعزت فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور حق مہر مبلغ ساڑھے بتیس روپے ٹائپ کی جہالت کو خیر آباد کہا جائے تو ماں باپ کا گھر بھی بچی کا اور سسرال کا گھر بھی اُس کی ملکیت۔ میرا خیال ہے کہ راستے اور طریقہ کار موجود ہیں بات صرف اپنے حق کے لیے ڈٹ جانے کی ہے اُس حق کے لیے جو ہمیشہ کمپرومائز ہو جاتا ہے۔ کیا میں نے ٹھیک کہا ہے؟
میری بات ہو رہی تھی اپنی کزن سے۔ میرا کہنا تھا کہ عورت خود اپنے ساتھ ظلم کرتی ہے کیونکہ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے۔ اس کے سوال کا جواب نہ دے پائی۔ اگر عورت بیٹی ہو تو وہ اپنے والدین کے خلاف کیسے ڈٹ جائے؟؟؟؟حققت میں ایثار ، قربانی کے نام پر عورت کو خریدا جاتا ہے ۔ اور انا کے نام پر مارا پیٹا جاتا ہے ۔
فکرِمعاش ایک اٹل اور انمٹ سچائی ہے یہ فکر ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتی ہے۔یہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی روّیوں کا ناک نقشہ بناتی ہے۔معاش کی جدوجہد ایک عجب ہی دُنیا ہے یہ حشر سے پہلےکا ایک میدانِ حشر ہے جہاں ہر کوئی اپنی بقاء و بہتری کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہےاور ایسے میں دوسروں کو روند کر اُن کے زندہ یا مردہ جسموں پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھنےاور اونچا ہونے کی فکر میں مگن ہے۔ یہ بے رحم مسابقت اور جاں گُسل جدوجہد دینا کو ایک آزمائش گاہ بنا دیتی ہے جہاں قدم قدم پر امتحاں ہیں اور کمزور لوگ جہاں مارے جاتے ہیں، کُچلے جاتے ہیں یا بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ صنفِ نازک جذباتی، جسمانی اور معاشی طور پر اپنی مخالف جنس سے کمزور بنائی گئی ہے اور ایسا انسانوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ دیگر متنوع جانداروں میں بھی یہ فرق دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تو والدین بیٹی کی صورت میں ایک کمزور فرد کے مستقبل سے خوفزدہ رہتے ہیں جسے عملی زندگی کے بہت سے اعصاب شکن محاذوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور اُس پر مستزاد ہمارے منافقانہ معاشرتی روّیے ہیں جہاں ایک طرف تو بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا ہے مگر عملی طور پر اُسے اُس کی جائز آزادیوں پر قدغن لگا کر ، حقِ تعلیم سے محروم کر کے یا اِس میں جا بجا مشکلات حائل کر کے ، باعزت روزگار کے مواقع محدود کر کے اور جہیز کے مکروہ بوجھ جیسی دیواروں میں چُن دیا جاتا ہے۔
اِس المیے کا ممکنہ حل یہی ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو کسی بھی حوالے کمزور نہ رہنے دیں اگر وہ اپنے معاشی حالات کے مطابق ایک ہی بچے کی پرورش ٹھیک سے کر سکتے ہیں تو خود کو کثیرالعیالی کی اذیّت میں مبتلا نہ کریں اور یہ کام ماضی کے مقابلے میں آج زیادہ آسان ہے کہ اَب وہ طبقات جو کہ پہلے مذہبی ٹھیکیداروں کے خوف سے چاہتے ہوئے بھی ایسا نہ کر پاتے تھے اَب اپنے اچھے بُرے کا فیصلہ خود کرنے کی ہمت پانے لگے ہیں۔ والدین اپنی بچیوں کو مفید تعلیم و ہنر کے ذریعےباعزت روزگار کے قابل بنائیں تاکہ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں وہ اپنے اور اپنے بچوں کے نوالے کے لیے کسی بھی دوسرے فرد کے ہاتھوں کی طرف نہ دیکھیں۔ ماں باپ کی جائداد میں بچیوں کا حصّہ عموما" ماں باپ کی چشم پوشی سے بھائی ہڑپ لیتے ہیں اِس کی سخت مذمت اور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور شادی کی شرائط میں ساتھ رہنے یا خُدانخواستہ علیحدگی ہر دو صورتوں میں بچی کی بنیادی ضروریات مثلا" رہائش، نان نفقہ وغیرہ کی باعزت فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور حق مہر مبلغ ساڑھے بتیس روپے ٹائپ کی جہالت کو خیر آباد کہا جائے تو ماں باپ کا گھر بھی بچی کا اور سسرال کا گھر بھی اُس کی ملکیت۔ میرا خیال ہے کہ راستے اور طریقہ کار موجود ہیں بات صرف اپنے حق کے لیے ڈٹ جانے کی ہے اُس حق کے لیے جو ہمیشہ کمپرومائز ہو جاتا ہے۔ کیا میں نے ٹھیک کہا ہے؟
آج جو والدین کے مقام پر کھڑے ہیں گزرے کل میں وہ بچے تھے ۔ آج کے بچے کل خود والدین کے مقام پر ہوں گے ۔مسئلہ یہ ہے کہ والدین کو کون سمجھائے؟؟؟
آج جو بیٹی ہے کل جب وہ ماں کے مقام پر کھڑی ہو گی ۔ اگر اس مقام پر کھڑے ہوتے اپنی بیٹی کے بارے مکمل آزادی کے ساتھ اس کی مرضی کو مقدم رکھتے اس کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی ۔اگر عورت بیٹی ہو تو وہ اپنے والدین کے خلاف کیسے ڈٹ جائے؟؟؟؟
آج جو والدین کے مقام پر کھڑے ہیں گزرے کل میں وہ بچے تھے ۔ آج کے بچے کل خود والدین کے مقام پر ہوں گے ۔
آج کی روشن سوچ جو والدین کو سمجھانے میں بچوں کو مشکل لگتی ہے ۔ کل خود اس مقام پر پہنچ اس پر عمل کریں گے تاکہ ان کے بچے اس بارے
بات کرنے کو مسلہ نہ بنائیں ۔
آج جو بیٹی ہے کل جب وہ ماں کے مقام پر کھڑی ہو گی ۔ اگر اس مقام پر کھڑے ہوتے اپنی بیٹی کے بارے مکمل آزادی کے ساتھ اس کی مرضی کو مقدم رکھتے اس کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی ۔
تو بیٹی ایثار قربانی کی بلی چڑھنے سے بچ سکے گی ۔
بہت دعائیں