سوالیہ؟؟؟؟؟؟؟؟ از شزہ مغل

نور وجدان

لائبریرین
خاندان کا سربراہ ایک ہو تو اتنا بگاڑ پیدا نہیں ہوتا۔ جب سربراہ اپنی ذمہ داریاں ہی پوری نہ کرے تو ہر فرد سربراہ بن جاتا ہے اور پھر مجھ جیسے کیڑے مکوڑے بھی زبان کھولنے لگتے ہیں۔

امجد سلام امجد نے اس المیے کو پوری طرح محسوس کیا ہے
سیلف میڈ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں،
بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے
آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں۔۔۔
گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے
پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو
قتل کرتے جاتے ہیں
درگزر کے گلشن میں
ابر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں۔۔۔
کشتیاں چلاتے ہیں

یہ نہیں کہ ان کو اس
روز و شب کی کاوش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا ۔۔۔
خون بہا نہیں ملتا

زندگی کے دامن میں ۔۔۔
جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں ۔
۔ وقت پر نہیں آتیں

یعنی ان کو محنت کا
اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی
قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو ۔۔۔
پسِ نوشت ہو جائے

فصلِ گُل کے آخر میں
پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج ۔۔۔
دیر سے نکلتے ہیں


جب ہر فرد کو زبان ملتی ہے تو ہر فرد راعی ہے ۔ آپ اپنے اعمال کی ذمہ دار ہیں ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے ۔ اس اختیار سے فائدہ اٹھایے اس طرح کہ آپ کی زبان سے نکلنے والے لفظ دوسرے کے لیے ہوں ۔ اور دوسرے آپ کے لیے بولیں گے ۔ یہ بچپن کی یاد کی ہوئی ایک اور نشانی ۔

قسمت ایک پہیے کی مانند ہے ۔ یہ ہر وقت گھومتی رہتی ہے ۔ اس پہیے میں موجود اوپر والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ نیچے والے لوگوں کا ہاتھ تھام لیں کیونکہ جب نیچے والے لوگ اوپر آئیں گے تو وہ اوپر والے لوگوں کا ہاتھ تھامیں گے ۔
 

شزہ مغل

محفلین
ٹیگ نامہ
@ابب
امجد سلام امجد نے اس المیے کو پوری طرح محسوس کیا ہے
سیلف میڈ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں،
بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے
آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں۔۔۔
گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے
پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو
قتل کرتے جاتے ہیں
درگزر کے گلشن میں
ابر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں۔۔۔
کشتیاں چلاتے ہیں

یہ نہیں کہ ان کو اس
روز و شب کی کاوش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا ۔۔۔
خون بہا نہیں ملتا

زندگی کے دامن میں ۔۔۔
جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں ۔
۔ وقت پر نہیں آتیں

یعنی ان کو محنت کا
اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی
قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو ۔۔۔
پسِ نوشت ہو جائے

فصلِ گُل کے آخر میں
پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج ۔۔۔
دیر سے نکلتے ہیں


جب ہر فرد کو زبان ملتی ہے تو ہر فرد راعی ہے ۔ آپ اپنے اعمال کی ذمہ دار ہیں ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے ۔ اس اختیار سے فائدہ اٹھایے اس طرح کہ آپ کی زبان سے نکلنے والے لفظ دوسرے کے لیے ہوں ۔ اور دوسرے آپ کے لیے بولیں گے ۔ یہ بچپن کی یاد کی ہوئی ایک اور نشانی ۔

قسمت ایک پہیے کی مانند ہے ۔ یہ ہر وقت گھومتی رہتی ہے ۔ اس پہیے میں موجود اوپر والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ نیچے والے لوگوں کا ہاتھ تھام لیں کیونکہ جب نیچے والے لوگ اوپر آئیں گے تو وہ اوپر والے لوگوں کا ہاتھ تھامیں گے ۔
میں بار بار یہی کہہ رہی ہوں کہ ایک اکیلا سب کچھ نہیں کر سکتا جب تک دو گیارہ نہ ہوں۔
(سوچ کے لحاظ سے دو گیارہ)
 

نور وجدان

لائبریرین
ٹیگ نامہ
@ابب

میں بار بار یہی کہہ رہی ہوں کہ ایک اکیلا سب کچھ نہیں کر سکتا جب تک دو گیارہ نہ ہوں۔
(سوچ کے لحاظ سے دو گیارہ)
اس دو ۔۔۔گیارہ کو آپ اپنے عمل سے بنائیں ۔۔۔ میں نے اوپر لائنز میں کچھ یہی بات کی ہے ۔ اگر حکومت کو نجی سطح پر دیکھنا ہو تو اس کی مثال ایک گھر ہے ۔ معاشرہ جمہوری ہوگیا ہے ۔ اس لیے گھر میں ہر فرد کو بولنے کا اختیار ہے ۔ جب سب قیادت کے زیر اثر بولیں گے ، اپنے مشورے دیں گے ، تو قیادت اپنی عقل سے نظام کی سمت کو توازن میں رکھے گی ۔انسانی سُوچ رویوں کی محتاج ہوتی ہے ۔

مسئلہ تب ہوتا ہے جب ایک گھر کے سب افراد طاقت کو بانٹ لیتے ہیں۔ اگر میں آپ کی سوُچ کے مطابق ہوں تو امید ہے کہ میں سمجھ سکوں کہ آپ کا موقف کیا ہے ۔ اب جس کے پاس نسبتا زیادہ پاور ہے ، اس کے موقف کو تسلیم کرکے سوچ ملائی جاسکتی ہے یا آپ کا اپنا اثر اور دلائل دوسرے کو آپ کے رخ پر لے آئیں ۔
 

شزہ مغل

محفلین
اس دو ۔۔۔گیارہ کو آپ اپنے عمل سے بنائیں ۔۔۔ میں نے اوپر لائنز میں کچھ یہی بات کی ہے ۔ اگر حکومت کو نجی سطح پر دیکھنا ہو تو اس کی مثال ایک گھر ہے ۔ معاشرہ جمہوری ہوگیا ہے ۔ اس لیے گھر میں ہر فرد کو بولنے کا اختیار ہے ۔ جب سب قیادت کے زیر اثر بولیں گے ، اپنے مشورے دیں گے ، تو قیادت اپنی عقل سے نظام کی سمت کو توازن میں رکھے گی ۔انسانی سُوچ رویوں کی محتاج ہوتی ہے ۔

مسئلہ تب ہوتا ہے جب ایک گھر کے سب افراد طاقت کو بانٹ لیتے ہیں۔ اگر میں آپ کی سوُچ کے مطابق ہوں تو امید ہے کہ میں سمجھ سکوں کہ آپ کا موقف کیا ہے ۔ اب جس کے پاس نسبتا زیادہ پاور ہے ، اس کے موقف کو تسلیم کرکے سوچ ملائی جاسکتی ہے یا آپ کا اپنا اثر اور دلائل دوسرے کو آپ کے رخ پر لے آئیں ۔
کنارے پر کھڑا شخص سمندر کی گہرائی کو نہیں جان سکتا۔
آپ اور میں صرف بات کر سکتے ہیں۔ کسی کے ذہن میں اپنی سؤچ ڈال کر عمل نہیں کروا سکتے۔ ہر فرد اپنی سوچ اپنے کردار اور اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ جب اللہ نے اپنے محبوب نبی :pbuh: کو فرما دیا تھا کہ آپ کا کام پیغام پہنچا دینا ہے عمل کرنا نہ کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں کسی پر اپنی سوچ مسلط کرنے والے
 

نور وجدان

لائبریرین
کنارے پر کھڑا شخص سمندر کی گہرائی کو نہیں جان سکتا۔
آپ اور میں صرف بات کر سکتے ہیں۔ کسی کے ذہن میں اپنی سؤچ ڈال کر عمل نہیں کروا سکتے۔ ہر فرد اپنی سوچ اپنے کردار اور اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ جب اللہ نے اپنے محبوب نبی :pbuh: کو فرما دیا تھا کہ آپ کا کام پیغام پہنچا دینا ہے عمل کرنا نہ کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں کسی پپر اپنی سوآچ مسلط کرنے والے


درست کہا
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
کنارے پر کھڑا شخص سمندر کی گہرائی کو نہیں جان سکتا۔
آپ اور میں صرف بات کر سکتے ہیں۔ کسی کے ذہن میں اپنی سؤچ ڈال کر عمل نہیں کروا سکتے۔ ہر فرد اپنی سوچ اپنے کردار اور اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ جب اللہ نے اپنے محبوب نبی :pbuh: کو فرما دیا تھا کہ آپ کا کام پیغام پہنچا دینا ہے عمل کرنا نہ کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں کسی پر اپنی سوچ مسلط کرنے والے
میں نے جب سے دُنیا دیکھی ہے مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ سارا میلہ میری دِلچسپی کے لیے ہی لگایا گیا ہے اور پھر میں نے یہ جانا کہ مُجھ سمیت ہر شخص کم و بیش ایسا ہی سوچتا ہے۔ آپ کو ایسا کیوں نہیں لگتا کہ آپ سب کُچھ کر سکتی ہیں۔ ہم دوسروں سے جو چاہیں وہ کروا سکتے ہیں لیکن تب جب ہم بھی ایسا دِل رکھتے ہوں کہ دوسروں کے لیے سب کُچھ کر گزرنے کا جذبہ جِس میں موجود ہو پھر جہاں بات اپنے گھر کی ہو تو یہ سارا کام کافی آسان ہو جاتا ہے۔ خلوص ایسی چیز نہیں ہے جو زیادہ وقت تک بے اثر رہے۔ بعض جگہوں پر پر ہم دوسروں سےاچھائی میں پہل کی اُمید رکھتے ہیں اور دوسری طرف بھی یہی انتظار ہوتا ہے لیکن جیت اُسی کی ہوتی ہے جو پہل کر جائے اور وہ بھی ناکام نہیں رہتا جو توقعات کے سفر میں ساتھ چلتا رہے۔ اچھی سوچ اور اچھے عمل خوشبو کی طرح ہوتے ہیں یہ دوسروں پر مسلط نہیں ہوتے بلکہ اُن کے دِل میں گھر کر لیتے ہیں۔ اللہ جو ہر چیز پر قادر ہے اُس کے لیے کیا مُشکل تھا کہ وہ دُنیا میں اختلاف کا وجود ہی پیدا نہ کرتا، ظلم کا نشان ہی نہ ہوتا تکلیف کا احساس ہی نہ ہوتا کل کی جنت ہمیں آج ہی دے دی جاتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بلا قیمت کُچھ نہیں ہے تو ہم اپنی مُشکلات میں ثابت قدمی اور ایثار و قُربانی کے چھوٹے بڑے سِکّے جمع کرتے کرتے بالآخر بڑی بڑی چیزیں خریدنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
پاکستان کی اکثریت فیوڈل لارڈذ پر مشتمل ہے ۔ urban areas کے لوگوں اس قسم کی شکایات کم ہوتی ہیں کہ یہاں اولاد والدین کا حق مارتی ہے ۔ دیہاتی علاقوں میں والدین کی ترجیح دنیاداری ہوتی ہے اور شہری علاقوں میں اولاد کی ترجیح دنیا داری ہے ۔ اس لیے شہری اور sub urban لوگوں میں اولاد کی نافرمانی کی تشہیر میڈیا کرتا ہے اور دیہاتی علاقوں میں والدین کی ۔۔۔

ہمارے معاشرے میں social pressure کی ہوا نکل چکی ہے ۔ یہ دباؤ ہمیں اخلاقیات کی طرف مائل کرتا ہے یا رسومات کی طرف چاہے وہ غلط ہوں یا درست ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے social pressure میں زیادہ تر باتیں مذہب سے گڑھ کر ظلم کی طرف لے جاتی ہے ۔ اس معاشرے میں باغیوں کی جگہ نہیں ہے ۔ آپ کو وہ کرنا ہوتا ہے جو معاشرہ مانگتا ہے ۔ ہمارے والدین معاشرے کو لے کر نہیں چلتے ان پر معاشرہ اپنی راہیں تنگ کر دیتا ہے اور ان سے قطع تعلق کردیا جاتا ہے ۔ اب اگر ہم والدین کی جگہ پر کھڑے ہو کر اپنے جذبات بحثیت بیٹی کے ساتھ لے کر موازنہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ والدین کبھی غلط نہیں ہوتے ہیں ۔ میری نظر میں بدبختی شروع ہوتی ہے مگر اس میں صرف اولاد کی بدبختی نہیں ہوتی ہے ۔ والدین کی بھی ہوتی ہے ۔
پاکستانیوں کی اکثریت ستم رسیدہ اورمفلوک الحال لوگوں پر مشتمل ہے جو پاکستان کو ایک غریب ملک کی پہچان دیتے ہیں۔ فیوڈل لارڈز دیہی زندگی کی غالب اقلیت ہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی دم توڑتی بادشاہتوں کے ٹوٹتے نشے میں سامنے لکھا نوشتہء دیوار پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ آزادئ رائے اور میڈیا کی ترقی سے آنے والی چند دہائیوں میں وہ مزید کمزور ہو جائیں گے۔ معاشرہ ایک مبہم تصور ہے اور اکثر ہم اس تصور سے منسلک ابہام میں اپنی ناکامیاں چھُپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین غلط ہو سکتے ہیں لیکن اُن کے خلوص میں کوئی شک نہیں ہو سکتا وہ اپنے ویژن کے مطابق آپ کے لیے بہترین چاہیں گے۔ شہری دیہاتی کی کیا تخصیص جِس کے ساتھ بھی پاپی پیٹ لگا ہے وہ کم ہو یا زیادہ بالآخر دُنیا دار ہی ہے۔ اولاد کی ناکامی والدین کی سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے اور اِسی طرح والدین کی معاشی ، جذباتی اور معاشرتی ناکامی بچوں کے لیے بدترین مصائب کا در کھول دیتی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میں نے جب سے دُنیا دیکھی ہے مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ سارا میلہ میری دِلچسپی کے لیے ہی لگایا گیا ہے اور پھر میں نے یہ جانا کہ مُجھ سمیت ہر شخص کم و بیش ایسا ہی سوچتا ہے۔ آپ کو ایسا کیوں نہیں لگتا کہ آپ سب کُچھ کر سکتی ہیں۔ ہم دوسروں سے جو چاہیں وہ کروا سکتے ہیں لیکن تب جب ہم بھی ایسا دِل رکھتے ہوں کہ دوسروں کے لیے سب کُچھ کر گزرنے کا جذبہ جِس میں موجود ہو پھر جہاں بات اپنے گھر کی ہو تو یہ سارا کام کافی آسان ہو جاتا ہے۔ خلوص ایسی چیز نہیں ہے جو زیادہ وقت تک بے اثر رہے۔ بعض جگہوں پر پر ہم دوسروں سےاچھائی میں پہل کی اُمید رکھتے ہیں اور دوسری طرف بھی یہی انتظار ہوتا ہے لیکن جیت اُسی کی ہوتی ہے جو پہل کر جائے اور وہ بھی ناکام نہیں رہتا جو توقعات کے سفر میں ساتھ چلتا رہے۔ اچھی سوچ اور اچھے عمل خوشبو کی طرح ہوتے ہیں یہ دوسروں پر مسلط نہیں ہوتے بلکہ اُن کے دِل میں گھر کر لیتے ہیں۔ اللہ جو ہر چیز پر قادر ہے اُس کے لیے کیا مُشکل تھا کہ وہ دُنیا میں اختلاف کا وجود ہی پیدا نہ کرتا، ظلم کا نشان ہی نہ ہوتا تکلیف کا احساس ہی نہ ہوتا کل کی جنت ہمیں آج ہی دے دی جاتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بلا قیمت کُچھ نہیں ہے تو ہم اپنی مُشکلات میں ثابت قدمی اور ایثار و قُربانی کے چھوٹے بڑے سِکّے جمع کرتے کرتے بالآخر بڑی بڑی چیزیں خریدنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔


رائیگاں تو کوئی بھی چیز نہیں جاتی ہے ۔ استعمال کرنے پر منحصر ہے اس کو کیسے استعمال کرتے ہیں ۔ انسان بڑا جلدباز بھی ہے اور کبھی کبھی مثالی اپروچ غلط ہوجاتی ہے ۔ اختلاف کا طول استقامت و ہمت مانگتا ہے ۔ ہر انسان کا المیہ ہوتا ہے ۔آپ کی نظر ایک مسافر کی سی ہے جو تماشہ دیکھتا ہے اور ہنستا بھی ہے اور سبق لیتا ہے ۔ درد کا دوا ہوجانا ہی دنیا کو دلچسپ بنادیتا ہے ۔ انسانی رویوں میں انا کی جنگ کی بات خوب کہی ہے ۔ اس بات کو قابل عمل تب بنایا جاتا ہے جب اصل سچویشن کے بارے میں آگہی ہو۔ جس بے لوث محبت کی بات آپ نے کی ہے وہ اس انا کو ختم کرکے ہی حاصل ہوتی ہے ۔ اس بے لوث محبت میں قیمت کا تصور اجاگر کردیا ہے ۔ انسان کرتا کیا ہے ؟ ہر شے کی قیمت لگاتا ہے ۔ اور پھر رشتوں میں تجارت کرتا ہے ۔ رشتوں میں چیزوں کی تجارت پیار کی علامت ہے ۔ اس لیے وہ تحفہ جس کو پیار کی نشانی کے طور پر تقسیم کا کہاگیا تھا۔ آج ان تحائف پر کاروبار ہوتے ہیں ۔ کبھی سننے کو ملتا ہے فلاں سسر نے اپنی بیٹی کو فیکڑی تحفتنا دے دی ہے ۔ اور کبھی یہ سننے کو ضرور ملتا ہے کہ اکثر اوقات اپنے کاروبار کی وسعت اور زوال پذیری سے بچانے کے لیے بیٹیوں کی قربانی دے دی جاتی ہے اور کبھی بیٹے کی بھی ۔ کبھی بچوں کو وہ کام وقت لکھ کر دیتا ہے جو ان کو زندگی میں تجارت کے اصولوں کو واضح کر دیتے ہیں ۔ یہ تو کبھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بے لوث محبت پائی جاتی ہے ۔ ہاں ! والدین کی محبت کو چھوڑ کر ۔۔ اور یہ بھی درست ہے کہ پاکستان کی 20٪ والدین میں بچوں کو قربان کرنے اور تجارت کرنے کے رحجانات بڑھ رہے ہیں ۔ زندگی میں طلب اور رسد دو اصول ہیں معاشیات کے ہیں ۔ اگر رسد کی کمی ہو اور وسائل موجود ہوں تو انسان رسد ان وسائل سے بڑھا کر اپنی رسد میں اضافہ کرتا ہے ۔ بے لوث محبت تو والدین کی بھی نہیں ہوتی ہے ۔ بچہ پیدا ہوتا ہے سب سے پہلے اس سے امید لگائی جاتی ہے وہ ہمارا سہارا ہوگا یا سہارا بنے گی ۔ بے لوث میں کبھی تبادلہ نہیں ہوتا ہے ۔۔ جب ہم خدمت مستقبل کی امید باندھ کر تے ہیں تو ہم نفع چاہ رہے ہوتے ہیں ۔ اس صورت میں مذہب کو پرے رکھیں ۔ اور مذہب کو بیچ میں لایے تو اللہ نے ایمان والوں کو نیک اعمال سے تجارت کا کہا ہے ۔جنت و دوزخ کا تصور ۔۔سزا و جزا۔۔معاشرہ ہمیں اسی بنیاد پر سزا دیتا ہے ۔ بچے مرضی کریں گے تو معاشرتی دباؤ کا سامنا کریں گے ۔ اور اگر ہر حد سے گزر جائیں گے تو والدین اس اولاد کو جس کو قربانی دے کر پالا گیا ہے ، اس سے قطع تعلق کرلیتے ہیں یا اولاد کرلیتی ہے ۔ اس صورت میں انا کی جنگ بھی رشتوں میں چلتی ہے ۔ آپ کہتے ہیں انا نہیں ہوتی ہے ۔اصل میں انا ہی رشتوں کو قربان کرکے دنیادار انسان بنادیتی ہے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
پاکستانیوں کی اکثریت ستم رسیدہ اورمفلوک الحال لوگوں پر مشتمل ہے جو پاکستان کو ایک غریب ملک کی پہچان دیتے ہیں۔ فیوڈل لارڈز دیہی زندگی کی غالب اقلیت ہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی دم توڑتی بادشاہتوں کے ٹوٹتے نشے میں سامنے لکھا نوشتہء دیوار پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ آزادئ رائے اور میڈیا کی ترقی سے آنے والی چند دہائیوں میں وہ مزید کمزور ہو جائیں گے۔ معاشرہ ایک مبہم تصور ہے اور اکثر ہم اس تصور سے منسلک ابہام میں اپنی ناکامیاں چھُپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین غلط ہو سکتے ہیں لیکن اُن کے خلوص میں کوئی شک نہیں ہو سکتا وہ اپنے ویژن کے مطابق آپ کے لیے بہترین چاہیں گے۔ شہری دیہاتی کی کیا تخصیص جِس کے ساتھ بھی پاپی پیٹ لگا ہے وہ کم ہو یا زیادہ بالآخر دُنیا دار ہی ہے۔ اولاد کی ناکامی والدین کی سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے اور اِسی طرح والدین کی معاشی ، جذباتی اور معاشرتی ناکامی بچوں کے لیے بدترین مصائب کا در کھول دیتی ہے۔

اگر ہم شماریات پر جائیں تو پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہیں جہاں آبادی کا 66٪ حصہ نوجوان اور 20٪ ادھیڑ عمر افراد پر مشتمل ہے ۔ شہر کی بات کریں یا دیہات کی ، سرمایہ کار شہر میں اور فیوڈل لاڑدز دیہاتوں میں استحصال کرتے نظر آتے ہیں ۔ مسئلہ یہی ہے کہ اس دنیادرا ی میں بچے یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ دنیا درا نہیں ہے ۔ والدین پر الزام کیوں دھر رہے ہیں؟ اس وجہ سے کہ ان کو تجارت یا منوپلی کا اندیشہ ہے ۔ اس صورت میں پاکستان کے اخبارات بہت سی ایسی خبریں شائع کر رہے ہیں جہاں ایک لڑکی جس کی عمر 20 سال 30 سال تک ہے اپنا علیحدہ سیٹ اپ چلا رہی ہے ۔ کراچی میں یہ رحجان سب سے نمایاں ہے ۔ایسا کیوں ہے ؟ بچے اس حد تک باغی ہیں یا ان کو سماج نے آلہ کار بنایا ہے ؟ یا خاندانی نظام توٹ رہا ہے ۔ یہاں والدین کے نفع و نقصان پہنچانے یا ان کا فائدہ حاصل کرنے کی بات ہے ، وہ کس حد تک دور اندیش ہے ؟ کیا وہ اپنے بارے میں دور اندیشی سے کام لیتے ہیں یا بچوں کے بارے میں یا وہ ہر ذمہ داری سے بریءالذمہ ہیں ۔ یہ مثالیں تو آج کل کے دور میں جگہ جگہ پائی جارہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ والدین ناکام کیوں ہیں؟
 

آوازِ دوست

محفلین
رائیگاں تو کوئی بھی چیز نہیں جاتی ہے
اِک ذرا سی غلطی سے زندگیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں کوئی چیز تو پھر چیز ہے۔
۔ انسان بڑا جلدباز بھی ہے اور کبھی کبھی مثالی اپروچ غلط ہوجاتی ہے ۔
انسان صابر بھی تو ہے اور بدقسمتی کی بات ہے کہ مثالی اپروچ اکثر غلط ثابت ہوتی ہے۔
اختلاف کا طول استقامت و ہمت مانگتا ہے ۔
یہ رواداری اور بیدار مغزی کا متقاضی ہے۔
۔آپ کی نظر ایک مسافر کی سی ہے جو تماشہ دیکھتا ہے اور ہنستا بھی اور سبق لیتا ہے
تماشا ہی تو نظر نہیں آتا اَب اور یوں" ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے" والی بات بھی ٹھیک ہے۔
جس بے لوث محبت کی بات آپ نے کی ہے وہ اس انا کو ختم کرکے ہی حاصل ہوتی ہے
اَنا، احساسِ برتری سے پیدا ہوتی ہے۔ محبتیں بے لوث ہی ہوتی ہیں اور جہاں ایسا نہ ہو وہاں محبت نہیں ہوتی۔
ہ تو کبھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بے لوث محبت پائی جاتی ہے
ماں باپ کی اولاد سے محبت بے لوث ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک سہارے کی بات ہے پیدائشی معذور بچہ بھی اپنے ماں باپ کی آنکھ کا تارا ہی ہوتا ہے۔
ور اگر ہر حد سے گزر جائیں گے تو والدین اس اولاد کو جس کو قربانی دے کر پالا گیا ہے ، اس سے قطع تعلق کرلیتے ہیں یا اولادی کرلیتی ہے
والدین کی تربیت وہ بنیاد ہے جِس پر بچے کی ساری زندگی کے اعمال اُستوار ہوتے ہیں بچوں کے اچھے بُرے اعمال اُن کے والدین کی تربیت کا آئینہ ہیں باقی عوامل بھی اثرانداز ہوتے ہیں مگر یہ فیکٹر سب سے زیادہ فیصلہ کُن ہے۔
بچے مرضی کریں گے تو معاشرتی دباؤ کا سامنا کریں گے ۔
آپ معاشرے کو تقلید پر مجبور کر دیں بجائے اِس کے کہ آپ کسی دباؤ کا سامنا کریں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے فیصلے کتنے معتبر ہیں آپ کی سوچ کتنی پُختہ ہے اور آپ اپنے فیصلوں کے ممکنہ غلط نتائج سے عہدہء برا ہونے کے قابل ہیں یا نہیں۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
اگر ہم شماریات پر جائیں تو پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہیں جہاں آبادی کا 66٪ حصہ نوجوان اور 20٪ ادھیڑ عمر افراد پر مشتمل ہے ۔ شہر کی بات کریں یا دیہات کی ، سرمایہ کار شہر میں اور فیوڈل لاڑدز دیہاتوں میں استحصال کرتے نظر آتے ہیں ۔ مسئلہ یہی ہے کہ اس دنیادرا ی میں بچے یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ دنیا درا نہیں ہے ۔ والدین پر الزام کیوں دھر رہے ہیں؟ اس وجہ سے کہ ان کو تجارت یا منوپلی کا اندیشہ ہے ۔ اس صورت میں پاکستان کے اخبارات بہت سی ایسی خبریں شائع کر رہے ہیں جہاں ایک لڑکی جس کی عمر 20 سال 30 سال تک ہے اپنا علیحدہ سیٹ اپ چلا رہی ہے ۔ کراچی میں یہ رحجان سب سے نمایاں ہے ۔ایسا کیوں ہے ؟ بچے اس حد تک باغی ہیں یا ان کو سماج نے آلہ کار بنایا ہے ؟ یا خاندانی نظام توٹ رہا ہے ۔ یہاں والدین کے نفع و نقصان پہنچانے یا ان کا فائدہ حاصل کرنے کی بات ہے ، وہ کس حد تک دور اندیش ہے ؟ کیا وہ اپنے بارے میں دور اندیشی سے کام لیتے ہیں یا بچوں کے بارے میں یا وہ ہر ذمہ داری سے بریءالذمہ ہیں ۔ یہ مثالیں تو آج کل کے دور میں جگہ جگہ پائی جارہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ والدین ناکام کیوں ہیں؟
ہماری نوجوان آبادی کی اکثریت تعمیری فکر و عمل کے لیے درکار وسائل سے محروم ہے یہ وسائل مادّی بھی ہیں اور نظریاتی بھی سو خام افرادی قوت تہذیب سے زیادہ تخریب کی معاون ہے۔ والدین اگر سخت گیر معلّم کی بجائے بچوں کے دوست اور غم گُسار بن جائیں تو بچے اُن سے اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کی وجہ سے دور نہیں بھاگیں گے بلکہ ہر مُشکل میں اُن کا ساتھ تلاش کریں گے اور زندگی کی ہر کامیابی سے زیادہ اُن کی خوشی سے خوش ہوں گے۔ والدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کامیابی کو اپنے بچوں سے زیادہ اہم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور اُن کے حساب سے اُن کے بچوں کے بہترین مفادمیں کیا گیا یہ کام بچوں کو اُن سے دور کر دیتا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اِک ذرا سی غلطی سے زندگیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں کوئی چیز تو پھر چیز ہے۔

رائیگاں تو کوئی بھی چیز نہیں جاتی ہے ۔ استعمال کرنے پر منحصر ہے اس کو کیسے استعمال کرتے ہیں
آپ نے آدھی بات اقتباس میں لی ہے ۔ میں نے بھی یہی کہا استعمال پر منحصر ہے

ا
نسان صابر بھی تو ہے اور بدقسمتی کی بات ہے کہ مثالی اپروچ اکثر غلط ثابت ہوتی ہے۔۔

مثالی اپروچ آپ کی ہے ۔ اس لیے آپ کو ہی کہا جن باتوں کو آپ کہتے ہیں ، حقائق اس سے مختلف ہیں ۔ زندگی کو آپ اپنی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ میں دوسروں کی نظر سے دیکھتی ہوں اور معاشرے کو دیکھتی ہوں
دوسروں کے لیے سب کُچھ کر گزرنے کا جذبہ جِس میں موجود ہو

آپ کو نہیں لگتا دنیا میں ٪100 میں سے 1٪ یا 2٪ لوگ بے لوث ہیں ۔ یہ مثال ہی تو ہوئے ۔ مثالی اپروچ خیال پر مبنی ہوتی ہے
یہ رواداری اور بیدار مغزی کا متقاضی ہے۔
مستقیم بندھے دور اندیش ہوں تو منزل پاتے ہیں ۔
تماشا ہی تو نظر نہیں آتا اَب اور یوں" ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے" والی بات بھی ٹھیک ہے۔
تماشا نظر آئے تو مداری بھی ہونا چاہیے ۔ جس تماشے کی بات آپ کرتے ہیں ۔مجھے آپ سے عقیدت ہے اس بنیاد پر۔ کچھ ذکر کریں سابقہ تماشوں کا۔
اَنا، احساسِ برتری سے پیدا ہوتی ہے۔ محبتیں بے لوث ہی ہوتی ہیں اور جہاں ایسا نہ ہو وہاں محبت نہیں ہوتی۔
انا کبھی بھی برتری سے پیدا نہیں ہوتی ہے ۔ یہ پیچیدگی سے پیدا ہوتی ہے ۔ چاہے احساس کمتری ہو یا برتری دونوں پیچیدگیاں ۔ سے ہمارے اردگرد 90٪ افراد انا والے ہیں ۔ محبت ہوتی ہے اور اصل ہوتی ہے ۔ ماں کی یا باپ کی ۔ اس لیے تو حضرت یعقوب ّ کا ذکر تو ہے مگر بھائیوں کی انا نے ان کو مکار بنادیا تھا۔ یہی رشتے اور ان کا اصل ہے
ماں باپ کی اولاد سے محبت بے لوث ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک سہارے کی بات ہے پیدائشی معذور بچہ بھی اپنے ماں باپ کی آنکھ کا تارا ہی ہوتا ہے۔
معذور بچے کو ترجیح زیادہ ملے گی یا صحت مند کو۔ اس پر نیٹ انکم خرچ جب زیادہ ہوگی تو پریشان ہو کر کس کی محبت نفرت میں بدل سکتی ہے ۔ایک شوہر جو اپنی بیوی سے محبت کرتا تھا جب وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑا . تو بیوی ہی اس کی موت کی دعا مانگنے والی تھی . اور جنازے پر بیوی کی خوش دیدنی تھی . محبت کی اصل تو یہ ہے جو حقیقت نے مجھے دکھائی ہے .
والدین کی تربیت وہ بنیاد ہے جِس پر بچے کی ساری زندگی کے اعمال اُستوار ہوتے ہیں بچوں کے اچھے بُرے اعمال اُن کے والدین کی تربیت کا آئینہ ہیں باقی عوامل بھی اثرانداز ہوتے ہیں مگر یہ فیکٹر سب سے زیادہ فیصلہ کُن ہے۔
اکثر یہ سنا جاتا ہے والدین کے کیے کی سزا اولاد کو ملتی ہے . اس ضمن میں مثالیں ہیں کہ مجرم کا بیٹا جیل جاتا ہے َ ، والدین کے اعمال ،اولاد کے لیے اور اولاد کے والدین کے لیے میزان ہیں . ان سے ہی تربیت بنتی ہے اور معاشرہ فلاح پاتا ہے یا بگڑتا ہے

آپ معاشرے کو تقلید پر مجبور کر دیں بجائے اِس کے کہ آپ کسی دباؤ کا سامنا کریں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے فیصلے کتنے معتبر ہیں آپ کی سوچ کتنی پُختہ ہے اور آپ اپنے فیصلوں کے ممکنہ غلط نتائج سے عہدہء برا ہونے کے قابل ہیں یا نہیں۔

متفق ! جناب ہر کوئی لیڈر نہیں ہوتا
 

نور وجدان

لائبریرین
والدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کامیابی کو اپنے بچوں سے زیادہ اہم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور اُن کے حساب سے اُن کے بچوں کے بہترین مفادمیں کیا گیا یہ کام بچوں کو اُن سے دور کر دیتا ہے۔

میں نے بھی یہی بات کی تھی کہ وہ سوچتے ہیں بچوں کا مفاد کیا ہے ۔یہی تو والدین کی انا ہے ۔ جہاں انا ہو وہاں محبت اصل میں ختم ہوجاتی ہے ۔ آپ والدین انا والے ہوں اور بچے بھی تو معاشرہ تنزلی کا شکار ہی ہوگا نا
 

آوازِ دوست

محفلین
تماشا نظر آئے تو مداری بھی ہونا چاہیے ۔ جس تماشے کی بات آپ کرتے ہیں ۔مجھے آپ سے عقیدت ہے اس بنیاد پر۔ کچھ ذکر کریں سابقہ تماشوں کا۔
وہ کہتے ہیں نا کہ آفتاب آمد دلیل آفتاب تو مداری کی شرط رہنے دیں ہم تماشے سے ہی بہل جائیں گے۔ آپ اپنی عقیدتیں اتنی بے مایہ نہ کریں ہم تو خود تہی داماں ہیں۔ عظمتِ رفتہ کے ترانوں میں بہت دِن بیت چُکے تو اَب عہدِ نو کی نئی جنتّیں تلاش کرتے ہیں :)
 

شزہ مغل

محفلین
میں نے جب سے دُنیا دیکھی ہے مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ سارا میلہ میری دِلچسپی کے لیے ہی لگایا گیا ہے اور پھر میں نے یہ جانا کہ مُجھ سمیت ہر شخص کم و بیش ایسا ہی سوچتا ہے۔ آپ کو ایسا کیوں نہیں لگتا کہ آپ سب کُچھ کر سکتی ہیں۔ ہم دوسروں سے جو چاہیں وہ کروا سکتے ہیں لیکن تب جب ہم بھی ایسا دِل رکھتے ہوں کہ دوسروں کے لیے سب کُچھ کر گزرنے کا جذبہ جِس میں موجود ہو پھر جہاں بات اپنے گھر کی ہو تو یہ سارا کام کافی آسان ہو جاتا ہے۔ خلوص ایسی چیز نہیں ہے جو زیادہ وقت تک بے اثر رہے۔ بعض جگہوں پر پر ہم دوسروں سےاچھائی میں پہل کی اُمید رکھتے ہیں اور دوسری طرف بھی یہی انتظار ہوتا ہے لیکن جیت اُسی کی ہوتی ہے جو پہل کر جائے اور وہ بھی ناکام نہیں رہتا جو توقعات کے سفر میں ساتھ چلتا رہے۔ اچھی سوچ اور اچھے عمل خوشبو کی طرح ہوتے ہیں یہ دوسروں پر مسلط نہیں ہوتے بلکہ اُن کے دِل میں گھر کر لیتے ہیں۔ اللہ جو ہر چیز پر قادر ہے اُس کے لیے کیا مُشکل تھا کہ وہ دُنیا میں اختلاف کا وجود ہی پیدا نہ کرتا، ظلم کا نشان ہی نہ ہوتا تکلیف کا احساس ہی نہ ہوتا کل کی جنت ہمیں آج ہی دے دی جاتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بلا قیمت کُچھ نہیں ہے تو ہم اپنی مُشکلات میں ثابت قدمی اور ایثار و قُربانی کے چھوٹے بڑے سِکّے جمع کرتے کرتے بالآخر بڑی بڑی چیزیں خریدنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
شکریہ حوصلہ افزائی کا
 

نور وجدان

لائبریرین
وہ کہتے ہیں نا کہ آفتاب آمد دلیل آفتاب تو مداری کی شرط رہنے دیں ہم تماشے سے ہی بہل جائیں گے۔ آپ اپنی عقیدتیں اتنی بے مایہ نہ کریں ہم تو خود تہی داماں ہیں۔ عظمتِ رفتہ کے ترانوں میں بہت دِن بیت چُکے تو اَب عہدِ نو کی نئی جنتّیں تلاش کرتے ہیں :)

نئے سفر کا اذن لیے بغیر نئی جنتوں کی تلاش کر رہے ہیں ۔ یا آپ عہد نو سے حال کی توڑ جوڑ میں مصروف ہیں۔ عقیدت تو پھول ہے ۔ پھول کو لوگ مسل بھی دیتے ہیں، تنے سے جڑا رہنے دیتے ہیں یا گلدان میں سجا دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جب آپ کو نئی جنت نوازے تو ہم جیسوں کے لیے دعا کردیجئے گا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
نئے سفر کا اذن لیے بغیر نئی جنتوں کی تلاش کر رہے ہیں ۔ یا آپ عہد نو سے حال کی توڑ جوڑ میں مصروف ہیں۔ عقیدت تو پھول ہے ۔ پھول کو لوگ مسل بھی دیتے ہیں، تنے سے جڑا رہنے دیتے ہیں یا گلدان میں سجا دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جب آپ کو نئی جنت نوازے تو ہم جیسوں کے لیے دعا کردیجئے گا۔
جُستجو صدیوں سے یہیں ہے، اِسی کو رہنما کر کے دیکھتے ہیں ۔شاخوں کے پھول شاخوں پر بھی مختصر لمحوں کے مہمان ہوتے ہیں اِن کا غنُچہء دِل سے کیا مقابلہ جِس میں آ آ کر بہاروں کے قافلے ٹہرتے ہیں اور وقت دم سادھ لیتا ہے، میں ساری چاہتوں، عقیدتوں اور کہی ان کہی تمناؤں کے گُلاب یہیں رکھتا ہوں یہ ہمیشہ تروتازہ رہتے ہیں اور اپنے وابستگان کی خوشبو دیتے رہتے ہیں ۔ خُدا کرے زندگی آپ پر ہمیشہ آسان اور مہربان رہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
پاکستانیوں کی اکثریت ستم رسیدہ اورمفلوک الحال لوگوں پر مشتمل ہے جو پاکستان کو ایک غریب ملک کی پہچان دیتے ہیں۔ فیوڈل لارڈز دیہی زندگی کی غالب اقلیت ہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی دم توڑتی بادشاہتوں کے ٹوٹتے نشے میں سامنے لکھا نوشتہء دیوار پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ آزادئ رائے اور میڈیا کی ترقی سے آنے والی چند دہائیوں میں وہ مزید کمزور ہو جائیں گے۔ معاشرہ ایک مبہم تصور ہے اور اکثر ہم اس تصور سے منسلک ابہام میں اپنی ناکامیاں چھُپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین غلط ہو سکتے ہیں لیکن اُن کے خلوص میں کوئی شک نہیں ہو سکتا وہ اپنے ویژن کے مطابق آپ کے لیے بہترین چاہیں گے۔ شہری دیہاتی کی کیا تخصیص جِس کے ساتھ بھی پاپی پیٹ لگا ہے وہ کم ہو یا زیادہ بالآخر دُنیا دار ہی ہے۔ اولاد کی ناکامی والدین کی سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے اور اِسی طرح والدین کی معاشی ، جذباتی اور معاشرتی ناکامی بچوں کے لیے بدترین مصائب کا در کھول دیتی ہے۔
بھیا اتنی مشکل باتیں؟؟؟؟
ڈکشنری کھولنی پڑی آپ کی بات سمجھنے کے لیے۔:)
 

شزہ مغل

محفلین
معذور بچے کو ترجیح زیادہ ملے گی یا صحت مند کو۔ اس پر نیٹ انکم خرچ جب زیادہ ہوگی تو پریشان ہو کر کس کی محبت نفرت میں بدل سکتی ہے ۔ایک شوہر جو اپنی بیوی سے محبت کرتا تھا جب وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑا . تو بیوی ہی اس کی موت کی دعا مانگنے والی تھی . اور جنازے پر بیوی کی خوش دیدنی تھی . محبت کی اصل تو یہ ہے جو حقیقت نے مجھے دکھائی ہے .
یہ سب 2٪ لوگوں کی حقیقت ہے
اکثر یہ سنا جاتا ہے والدین کے کیے کی سزا اولاد کو ملتی ہے . اس ضمن میں مثالیں ہیں کہ مجرم کا بیٹا جیل جاتا ہے َ ، والدین کے اعمال ،اولاد کے لیے اور اولاد کے والدین کے لیے میزان ہیں . ان سے ہی تربیت بنتی ہے اور معاشرہ فلاح پاتا ہے یا بگڑتا ہے
صرف اولاد نہیں اولاد کی بھی اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے
 

شزہ مغل

محفلین
جُستجو صدیوں سے یہیں ہے، اِسی کو رہنما کر کے دیکھتے ہیں ۔شاخوں کے پھول شاخوں پر بھی مختصر لمحوں کے مہمان ہوتے ہیں اِن کا غنُچہء دِل سے کیا مقابلہ جِس میں آ آ کر بہاروں کے قافلے ٹہرتے ہیں اور وقت دم سادھ لیتا ہے، میں ساری چاہتوں، عقیدتوں اور کہی ان کہی تمناؤں کے گُلاب یہیں رکھتا ہوں یہ ہمیشہ تروتازہ رہتے ہیں اور اپنے وابستگان کی خوشبو دیتے رہتے ہیں ۔ خُدا کرے زندگی آپ پر ہمیشہ آسان اور مہربان رہے۔
آمین۔
دعا کی سمجھ آئی اور بس اتنا سمجھ آیا کہ پھولوں کی زندگی چھوٹی سی ہوتی ہے اور سب اوپر سے گزر گیا۔
بھیا اتنے مشکل الفاظ کہاں سے ڈھونڈ کر لاتے ہیں آپ؟؟؟
 
Top