چند روز قبل مجھے ایک بلی کا بچہ ملا۔ وہ بھوکا بھی تھا اور اسے سردی بھی لگ رہی تھی۔ میرے اندازے کے مطابق وہ ایک یا ڈیڑھ ماہ کا تھا۔ میں اسے اپنے ساتھ لے آئی۔ دھوپ میں بٹھایا اور دودھ سامنے رکھا۔ اس نے دودھ پیا اور اسی جگہ بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد میں نے مھسوس کیا کہ اس کے سانس کی آواز آ رہی ہے۔ جیسے کسی بچے کو سردی کی وجہ سے سینے میں ریشہ ہو تو اس کے سانس کی آواز آتی ہے۔ میں نے اسے اپنے پاس رکھا۔ اس کا نام کِٹی رکھا۔ میں اس کے ساتھ بہت خوش تھی۔ وہ بھی مجھ سے مانوس ہو چکی تھی۔
تیسرے دن سردی بڑھ گئی تو میں نے مناسب نہ سمجھا اسے گھر لے کر جانا۔ میں نے اسے حفاظت سے ڈبے میں ڈالا اور اپنے ایک کولیگ سے کہا کہ اگر وہ صرف اتنا کر سکے کہ جس کمرے میں وہ رات کو ہوتے ہیں اسی میں اس ڈبے کو بھی رکھ لیں اور کچھ وقت بعد دودھ پلانے کے لیے باہر نکالے۔ اور پھر صبح میں آ جاؤں گی تو دیکھ بھال کر لوں گی۔ ان حضرت نے اس وقت تو مجھے مطمئن کر کے بھیج دیا مگر نہ تو اسے دودھ دیا نہ ہی گرم کمرے میں رکھا۔
میری کِٹی اسی دن بیمار ہو گئی۔ میں نے اس کا بہت خیال رکھا مگر اس کی حالت بگڑتی گئی۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ اسے نمونیہ ہو گیا ہے تو بہت دکھ ہوا۔ اس سے بھی زیادہ دکھ ہوا سب لوگوں کے روئیے کا۔ مجھ سے کہا جانے لگا کہ یہ بلی اچھی نسل کی نہیں ہے اسے چھوڑ آؤ جہاں سے لائی ہو۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اسے اس وقت میری ضرورت ہے یہ ٹھیک ہو جائے گی اور تھوڑی بڑی ہو جائے گی تو کہیں چھوڑ دوں گی۔ مگر میرا مذاق اڑایا گیا۔
میں نے سوچا تھا کہ اس کی ویکسینیشن کروا کر پاس رکھوں گی مگر اس کی طبیعت بگڑتی چلی گئی۔ پانچویں دن کِٹی اتنی بیمار ہو گئی کہ اس سے ہلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ میں نے ایک ڈاکٹر کے مشورے سے اسے دوا دی سیریلیک دیا دودھ دیا۔ وہ خود سے کچھ کھا پی نہیں سکتی تھی اس لیے سرنچ میں ڈال کر اس کے منہ میں تھوڑا تھوڑا کھانا اور دوا دیتی رہی۔ رات کو اس کی طبیعت اتنی خراب ہو گئی کہ وہ بول بھی نہیں سکتی تھی۔ اور میرے آنسو نہیں رک رہے تھے کیونکہ میں پوری کوشش کے باوجود اس کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔ میں نے اسے چھوٹا کمبل گرم کر کے اسے اس میں لپیٹا ہوا تھا۔ کِٹی کچھ دیر بعد ہلکی سی آواز نکالتی تھی۔ اور میں تڑپ جاتی تھی۔ میں ساری رات اسے اپنی گود میں اپنے بستر میں لے کر بیٹھی رہی اور اس کی دیکھ بھال کرتی رہی۔ رات گزر گئی۔ صبح ہونے والی تھی۔ کِٹی بولی۔ میں خوش ہو گئی کہ کِٹی اب بہتر ہو رہی تھی۔ دفتر جانے کا وقت ہونے لگا تو میں نے اپنے اور اس کے دفتر جانے کی تیاری کرنی شروع کی۔ جب میں نے اس کا دوسرا کمبل تیار کیا اور اسے پہلے کمبل سے نکالا تو وہ مجھے چھوڑ کر جا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اس کی جدائی کا دکھ ہے مگر زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ سوائے میرے باس اور ایک کولیگ کے اور کسی نے بھی میری حوصلہ افزائی نہ کی۔ الٹا میرا مذاق اڑاتے رہے۔ جب کِٹی بیمار تھی تو سب اس کے مرنے کی باتیں کرنے لگے۔ مجھے اس وقت اپنے انسان ہونے پر ہی شرمندگی ہو رہی تھی کہ ہم انسانوں میں کسی ذی روح کے لیے احساس نہیں ہے۔
سوالیہ
اگر کِٹی کی جگہ کوئی رشیئن یا کسی اور نسل کی بلی ہوتی تو کیا اس وقت بھی میرے جذبات کا مذاق اڑایا جاتا؟؟؟ اگر نہیں تو ہم ذات، نسل، زبان کے تفرقات سے کب نکلیں گے؟؟؟
اگر مذاق اڑانے کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک جانور کے لیے فکرمند ہوں تو ہم کیسے اشرف المخلوقات ہونے پر فخر کر سکتے ہیں جب انسانیت ہی ہم میں نہیں؟؟؟