فرقان احمد
محفلین
ایک بھی بڑی پارٹی الیکشن کا بائیکاٹ کر دے تو اگلی حکومت عدم استحکام کا شکار رہے گی۔ یہ بات تو کافی حد تک طے شدہ ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ اور مارشل لاء کے لیے بھی زمین ہموار نہیں ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ سول اور ملٹری قیادتوں کے مابین اختلافات کم سے کم ہوں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اگلی حکومت مسلم لیگ ن کی نہ ہو۔ تاہم، اگر پنجاب نون لیگ کے ہاتھ رہا تو مرکزی حکومت کے لیے کافی حدتک مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ ہماری چھٹی حس کہتی ہے کہ میاں صاحب آ گئے تو شاید الیکشن تک جیل کی صعوبت برداشت کر لیں۔ الیکشن میں اپنا شیئر وصول کرنے کے بعد صدر ممنون حسین کے ذریعے سزا معاف کروا کر شاید وہ ایک بار پھر بیرون ملک روانہ ہو جائیں۔ یعنی اس وقت سیاسی قیادتوں کے پاس بھی بہت سے آپشن ہیں۔ دیکھیے، کیا صورت حال سامنے آتی ہے۔ ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔تاہم، اتنی سی بات ضرور ہے کہ اس وقت جو کچھ ہنگامہ بپا ہے، وہ زیادہ تر عام انتخابات کے نتیجے میں ملنے والے اقتدار کے ممکنہ کیک میں سے بڑا حصہ لینے کے لیے ہے۔اگر ایک جماعت بائیکاٹ کرے تو ضرور نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
لیکن اگر دو ہیوی ویٹ جماعتیں بائیکاٹ کر دیں تو اگلی آنے والی حکومت کی کریڈیبلٹی کافی کمزور ہو جائے گی۔