عبد الرحمٰن
محفلین
بیگم کے سسرال جانے کے بعد کل شام میں گھر میں بیٹھا بیگم کی غیر موجودگی کو انجوائے کر ہی رہا تھا کہ اچانک ڈوربیل بجی۔ ایک دم ہڑبڑا کر اٹھ گیا کہ کہیں بیگم تو واپس نہیں آ گئی۔ جلدی سے دروازہ کھولا تو سامنے ایک خاتون کھڑی تھیں۔ مودب انداز میں سلام کیا اور آنے کا مقصد پوچھا۔ چہرہ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔ آدھا چہرہ ان کا دوپٹے میں چھپا ہوا تھا۔ پہلے سوچا کہ شاید بیگم کی کوئی جاننے والی ہیں لیکن آواز غیر مانوس لگی تو پوچھ لیا
"جی بہن آپ کو کس سے ملنا ہے" ؟ ابھی اتنا ہی پوچھا تھا کہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس خاتون نے رونا شروع کر دیا۔ ان کی بڑی بڑی غزالی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو تھے۔ میں گھبرا گیا کہ پتہ نہیں شاید مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی۔ میں نے دوبارہ کہا "دیکھیے بہن !! میں اس وقت گھر میں اکیلا ہوں، خاتونِ خانہ اپنے والد کے گھر ہیں، اگر گھر میں کوئی خاتون ہوتی تو میں آپ کو اندر آنے کی دعوت دے دیتا، اس لیے دروازے پر کھڑے رہ کر بات کرنا میری مجبوری ہے۔ آپ بتائیے کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں"
یہ سن کر خاتون کو کچھ ڈھارس بندھی، انہوں نے پلو کھول کر کچھ دستاویزات نکلالی، جن میں سے کچھ ایکسرے اور کچھ طبی معائنے کی رپورٹس تھیں۔ میں نے ایک اچٹتی نظر ان پر ڈالی اور سمجھ گیا کہ معزز خاتون کو علاج کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں نے جیب سے پانچ سو روپے نکال کر معزز خاتون کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ پیسے دیکھ کر اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں پھر سے موٹے موٹے آنسو ابھر آئے۔ شاید اتنے زیادہ پیسوں کی وہ مجھ سے توقع نہیں کر رہی تھی۔ آنسوؤں سے تر آنکھیں لیے وہ مسلسل انکار میں سر ہلا رہی تھی۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے کیا چاہیے ؟
"مجھے پیسے نہیں چاہیے" ۔۔۔۔۔۔۔۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی تھی، بس یہی چند الفاظ مجھے سمجھ لگے کہ "مجھے پیسے نہیں چاہیے" ۔۔۔۔۔۔۔ میں حیران کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ "ارے بی بی پیسے نہیں چاہیں تو پھر کیا چاہیں" میں نے اونچی آواز میں استفسار کیا۔ اس نے جلدی سی پلو سے اپنے آنسو صاف کیے اور سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھے دیکھنے لگی۔ میں اس انتظار میں تھا کہ وہ ابھی اپنا مدعا بیان کرے گی۔ لیکن یہ کیا !!! وہ ایک دم دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ میں حیران پریشان اسے دیکھتا رہا ۔۔۔ یا خدایا میں اب کیا کروں ؟ اسے کیسے چپ کرواؤں ؟ لیکن وہ خاتون مسلسل روئے جا رہی تھیں۔
میں جلدی سے اندر گیا پانی کا گلاس لے کر آیا، معزز خاتون کو پانی پلایا، اب اس کی ہچکی رک چکی تھی، میں نے کہا "دیکھو بہن جو ہو سکا وہ مدد کروں گا لیکن اگر پیسے نہیں چاہیں تو پھر کیا چاہیے" ۔۔۔۔۔۔ اس نے پھر سے سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھے دیکھا اور کہا "ووٹ چاہیے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ میں حیرت سے چیخا۔ "کیا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ ؟ "
وہ رندھی ہوئی آواز سے بولی، "پیسے نہیں چاہیں، ووٹ چاہیے۔ یہ میری ماں کا کینسر کی رپورٹ ہے، یہ ساتھ والا کاغذ باپ کی اوپن ہارٹ سرجری کا ہے، یہ والا کاغذ میری کفالت کا ہے، اس کاغذ کے مطابق میرا خاوند تیس سال سے پندرہ سو ریال پر گھرداماد کی نوکری کر رہا ہے۔ ہم بہت مجبور ہیں، ہم سے ہماری شہنشاہی چھن گئی ہے، بادشاہی لٹ گئی ہے۔ لوگوں مین شعور بیدار ہو گیا ہے، جہاں جاتے ہیں چور چور کی آوازیں لگتی ہیں، سیاست کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ اگر ہم یہ الیکشن ہار گئے تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے، ہم برباد ہو جائیں گے۔ خدا کے لیے بھائی ہم کو بچا لو، ہم کو پیسے نہیں چاہیں، پیسے تو ہمارے پاس بہت ہیں، پورے ملک کو ہم چالیس سالوں سے دنوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں، پیسوں کی فکر نہیں ہے۔ ہم کو ووٹ چاہیے، ہم کو ہماری بادشاہی واپس چاہیے، خدا کے لیے ہماری مدد کرو"
یہ دکھ بھری داستان سن کر مجھے چکر آنے لگے، میں زمین پر گرنے لگا، گرتے گرتے پوچھا "میری بہن تو ہے کون" ۔۔۔۔۔۔ بس جو آخری الفاظ کانوں سے ٹکرائے وہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھ تے گئے ہوو گے
"جی بہن آپ کو کس سے ملنا ہے" ؟ ابھی اتنا ہی پوچھا تھا کہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس خاتون نے رونا شروع کر دیا۔ ان کی بڑی بڑی غزالی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو تھے۔ میں گھبرا گیا کہ پتہ نہیں شاید مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی۔ میں نے دوبارہ کہا "دیکھیے بہن !! میں اس وقت گھر میں اکیلا ہوں، خاتونِ خانہ اپنے والد کے گھر ہیں، اگر گھر میں کوئی خاتون ہوتی تو میں آپ کو اندر آنے کی دعوت دے دیتا، اس لیے دروازے پر کھڑے رہ کر بات کرنا میری مجبوری ہے۔ آپ بتائیے کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں"
یہ سن کر خاتون کو کچھ ڈھارس بندھی، انہوں نے پلو کھول کر کچھ دستاویزات نکلالی، جن میں سے کچھ ایکسرے اور کچھ طبی معائنے کی رپورٹس تھیں۔ میں نے ایک اچٹتی نظر ان پر ڈالی اور سمجھ گیا کہ معزز خاتون کو علاج کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں نے جیب سے پانچ سو روپے نکال کر معزز خاتون کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ پیسے دیکھ کر اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں پھر سے موٹے موٹے آنسو ابھر آئے۔ شاید اتنے زیادہ پیسوں کی وہ مجھ سے توقع نہیں کر رہی تھی۔ آنسوؤں سے تر آنکھیں لیے وہ مسلسل انکار میں سر ہلا رہی تھی۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے کیا چاہیے ؟
"مجھے پیسے نہیں چاہیے" ۔۔۔۔۔۔۔۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی تھی، بس یہی چند الفاظ مجھے سمجھ لگے کہ "مجھے پیسے نہیں چاہیے" ۔۔۔۔۔۔۔ میں حیران کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ "ارے بی بی پیسے نہیں چاہیں تو پھر کیا چاہیں" میں نے اونچی آواز میں استفسار کیا۔ اس نے جلدی سی پلو سے اپنے آنسو صاف کیے اور سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھے دیکھنے لگی۔ میں اس انتظار میں تھا کہ وہ ابھی اپنا مدعا بیان کرے گی۔ لیکن یہ کیا !!! وہ ایک دم دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ میں حیران پریشان اسے دیکھتا رہا ۔۔۔ یا خدایا میں اب کیا کروں ؟ اسے کیسے چپ کرواؤں ؟ لیکن وہ خاتون مسلسل روئے جا رہی تھیں۔
میں جلدی سے اندر گیا پانی کا گلاس لے کر آیا، معزز خاتون کو پانی پلایا، اب اس کی ہچکی رک چکی تھی، میں نے کہا "دیکھو بہن جو ہو سکا وہ مدد کروں گا لیکن اگر پیسے نہیں چاہیں تو پھر کیا چاہیے" ۔۔۔۔۔۔ اس نے پھر سے سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھے دیکھا اور کہا "ووٹ چاہیے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ میں حیرت سے چیخا۔ "کیا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ ؟ "
وہ رندھی ہوئی آواز سے بولی، "پیسے نہیں چاہیں، ووٹ چاہیے۔ یہ میری ماں کا کینسر کی رپورٹ ہے، یہ ساتھ والا کاغذ باپ کی اوپن ہارٹ سرجری کا ہے، یہ والا کاغذ میری کفالت کا ہے، اس کاغذ کے مطابق میرا خاوند تیس سال سے پندرہ سو ریال پر گھرداماد کی نوکری کر رہا ہے۔ ہم بہت مجبور ہیں، ہم سے ہماری شہنشاہی چھن گئی ہے، بادشاہی لٹ گئی ہے۔ لوگوں مین شعور بیدار ہو گیا ہے، جہاں جاتے ہیں چور چور کی آوازیں لگتی ہیں، سیاست کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ اگر ہم یہ الیکشن ہار گئے تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے، ہم برباد ہو جائیں گے۔ خدا کے لیے بھائی ہم کو بچا لو، ہم کو پیسے نہیں چاہیں، پیسے تو ہمارے پاس بہت ہیں، پورے ملک کو ہم چالیس سالوں سے دنوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں، پیسوں کی فکر نہیں ہے۔ ہم کو ووٹ چاہیے، ہم کو ہماری بادشاہی واپس چاہیے، خدا کے لیے ہماری مدد کرو"
یہ دکھ بھری داستان سن کر مجھے چکر آنے لگے، میں زمین پر گرنے لگا، گرتے گرتے پوچھا "میری بہن تو ہے کون" ۔۔۔۔۔۔ بس جو آخری الفاظ کانوں سے ٹکرائے وہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھ تے گئے ہوو گے