سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
DlTUZYqW4AAilBd.jpg
 
ان لفافہ صحافیوں بس نہیں چل رہا وگرنہ یہ خبر دیتے کہ پومپیو نے سیدھا آرمی چیف سے فون پر بات کی ہے۔
او نہیں جناب۔۔۔ ہر قسم کی فارن کال وڈے تایا جی کی آشیر باد کے ساتھ ہی ملائی جاتی ہے۔ تسی صحافیوں نوں نا لتاڑو۔
 
دیکھیں حامد میرا سورس کپتان کی تقریب کے لئے درست ہے- لہذا میں ٹھیک ہوں- باقی تو تڑکے کے لئے کہا تھا-


پوری پارٹی چل ای ورک دے آسرے تے رئی-
عندلیب عباسی صاحبہ نے پہلے دعویٰ کیا پھر اور کہا مجھے تو ملیحہ ہاشمی نے بتایا تھا- اور ملیحہ ہاشمی نوں نوجوت سنگھ سدھو تے اوہناں نوں کپل دیو تے اوہناں نوں ------- وغیرہ وغیرہ

IMG_20180823_140902.jpg


Tweet about premiers’ oath expenses: Rumors travel fast through social media
 
مشہور صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی کے ساتھ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ اہل صحافت کےلئے مقامِ عبرت ہے۔ مِس رپورٹنگ کا یہی حشر ہوتا ہے۔ زرد صحافت کی نئے پاکستان میں یقیناً کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہییے۔

گلاس آدھا خالی نہیں ، نصف بھرا ہوا ہے۔ مثبت وقائع نگاروں کی بھی کمّی نہیں۔ "سبز صحافت" کے علمبردار ایک مشہور صحافی جو وزیراعظم ہاؤس میں اس روز عمران خان کے ہمراہ تھے وہ اصل رپورٹ منظر عام پہ لے آئے ہیں۔ حقائق کی اس سے اعلی تصویر شاید ہی کوئی کھینچ سکے۔

لکھتے ہیں:

" کپتان نے وزیراعظم ہاؤس کے عملے کو جمع کیا ، سادگی پر ایک مختصر تقریر فرمائی ، پھر سابق وزیراعظم کے گوشواروں کی تفصیلات منگوائیں۔

وزیراعظم یہ دیکھ کر سکتے میں آ گئے کہ نواز شریف صابن کی چکّی سے لیکر ہاضمے کی پھکّی تک سرکاری خرچ پر منگوایا کرتے تھے۔ خاتون اوّل کے دنداسے کا خرچ چار کروڑ چوراسی لاکھ نکلا۔ کل حساب 5 سال کا سوا دو ارب روپے سے کچھ زیادہ تھا۔ اس پر وزیراعِظم نے فوراً اپنے لیگل پینل سے مشورہ کیا اور کہا اگلے ہفتہ تک یہ کیس نیب کے حوالے کر دینا چاہییے۔

اس کے بعد کمرہء استراحت میں تشریف لائے۔ ایک بیش قیمت پلنگ ایستادہ تھا۔ فرمایا دوسروں کو خلفائے راشدین کی مثالیں دینے والا اس بستر پہ سوئے گا ؟ چنانچہ فوراً یہ مرصع پلنگ اٹھوایا۔ پھر نعیم الحق سے کہا کہ پتوکی میں مستری غلام دین بان کی اچھی چارپائی بناتا ہے، اسے کہو کہ وزیراعظم ہاؤس کےلئے تیار کرے،- ٹھوک میں خود لونگا۔

اس کے بعد مرکزی ہال میں تشریف لائے اور ظہرانے کا مینیو منگوایا۔ اسٹاف آفیسر نے 70 کھانوں کی فہرست فراہم کی۔ اس پر خوب جزبز ہوئے اور کہا نئے پاکستان میں یہ لطف و سرور نہیں چلے گا صرف دال مسور چلے گی۔ اس پر شیخ رشید بولے یہ منہ اور مسور کی دال ؟؟ برجستہ جواب دیا کہ جس ملک کے 70 فیصد منہ مسور کی دال کو ترستے ہوں وہاں حکمران 70 کھانے کس منہ سے کھا سکتے ہیں۔

اس پر وزراء ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

کھانے کے دوران ہلکے پھلکے موضوعات پر گفتگو جاری رہی۔ فہمیدہ مرزا سے پوچھا کہ بحیثیّت اسپیکر قومی اسمبلی آپ نے قومی بینک سے کتنا قرضہ معاف کرایا۔ انہوں نے بلا جھجھک کہا 84 کروڑ۔ اس پر ہلکا سا تبسّم فرمایا اور کہا 84 روپے 14 آنے مُلکی خزانے میں جمع کرا دینا ، مال پاک ہو جائے گا۔

اسی طرح زبیدہ جلال سے پوچھا کہ کم خوراکی کے شکار بلوچ بچوں کے بسکٹ اور دودھ پراجیکٹ میں سے کتنا کھایا- زبیدہ آپا نے شرماتے ہوئے کہا تقریباً سارا۔ اس پر ارشاد کیا کہ لیو بسکٹ کا ایک ٹکی پیک ہمراہ پاؤ والا ملک پیک امام برّی سرکار پہ چڑھا دو ، مال پاک ہو جائے گا۔

عثمان بزدار سے پوچھا کہ تمہارا خاندان دو نسلوں سے حکومت میں ہے، اپنےعلاقے میں کوئی اچھا اسکول کالج کیوں نہ بنوا سکے- وہ سادگی سے بولے ہم مدت سے منتظر تھے کہ کپتان وزیراعظم بنے اور بچے ہمارے پرائم منسٹر ہاؤس میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس پر کھلکھلا کر ہنسے اور کہا کچھ زیادہ ہی سیریس لے گئے ہو وہ ایک سیاسی پھکّڑ تھا۔

دال مسور میں قصوری میتھی کا تڑکا کچھ زیادہ ہی لگ گیا- اس پر فوراً نوٹس لیا اور کہا " کہاں سے آئی یہ میتھی ؟ کس نے منگوائی یہ میتھی ؟ کتنے میں آئی یہ میتھی ؟

اس پر حکام کی دوڑیں لگ گئیں اور عملے کا باقی وقت دال مسور سے میتھی الگ کرنے میں صرف ہوا۔

از
(ظفر اِن صافی روزنامہ ڈون )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مشہور صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی کے ساتھ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ اہل صحافت کےلئے مقامِ عبرت ہے۔ مِس رپورٹنگ کا یہی حشر ہوتا ہے۔ زرد صحافت کی نئے پاکستان میں یقیناً کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہییے۔

گلاس آدھا خالی نہیں ، نصف بھرا ہوا ہے۔ مثبت وقائع نگاروں کی بھی کمّی نہیں۔ "سبز صحافت" کے علمبردار ایک مشہور صحافی جو وزیراعظم ہاؤس میں اس روز عمران خان کے ہمراہ تھے وہ اصل رپورٹ منظر عام پہ لے آئے ہیں۔ حقائق کی اس سے اعلی تصویر شاید ہی کوئی کھینچ سکے۔

لکھتے ہیں:

" کپتان نے وزیراعظم ہاؤس کے عملے کو جمع کیا ، سادگی پر ایک مختصر تقریر فرمائی ، پھر سابق وزیراعظم کے گوشواروں کی تفصیلات منگوائیں۔

وزیراعظم یہ دیکھ کر سکتے میں آ گئے کہ نواز شریف صابن کی چکّی سے لیکر ہاضمے کی پھکّی تک سرکاری خرچ پر منگوایا کرتے تھے۔ خاتون اوّل کے دنداسے کا خرچ چار کروڑ چوراسی لاکھ نکلا۔ کل حساب 5 سال کا سوا دو ارب روپے سے کچھ زیادہ تھا۔ اس پر وزیراعِظم نے فوراً اپنے لیگل پینل سے مشورہ کیا اور کہا اگلے ہفتہ تک یہ کیس نیب کے حوالے کر دینا چاہییے۔

اس کے بعد کمرہء استراحت میں تشریف لائے۔ ایک بیش قیمت پلنگ ایستادہ تھا۔ فرمایا دوسروں کو خلفائے راشدین کی مثالیں دینے والا اس بستر پہ سوئے گا ؟ چنانچہ فوراً یہ مرصع پلنگ اٹھوایا۔ پھر نعیم الحق سے کہا کہ پتوکی میں مستری غلام دین بان کی اچھی چارپائی بناتا ہے، اسے کہو کہ وزیراعظم ہاؤس کےلئے تیار کرے،- ٹھوک میں خود لونگا۔

اس کے بعد مرکزی ہال میں تشریف لائے اور ظہرانے کا مینیو منگوایا۔ اسٹاف آفیسر نے 70 کھانوں کی فہرست فراہم کی۔ اس پر خوب جزبز ہوئے اور کہا نئے پاکستان میں یہ لطف و سرور نہیں چلے گا صرف دال مسور چلے گی۔ اس پر شیخ رشید بولے یہ منہ اور مسور کی دال ؟؟ برجستہ جواب دیا کہ جس ملک کے 70 فیصد منہ مسور کی دال کو ترستے ہوں وہاں حکمران 70 کھانے کس منہ سے کھا سکتے ہیں۔

اس پر وزراء ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

کھانے کے دوران ہلکے پھلکے موضوعات پر گفتگو جاری رہی۔ فہمیدہ مرزا سے پوچھا کہ بحیثیّت اسپیکر قومی اسمبلی آپ نے قومی بینک سے کتنا قرضہ معاف کرایا۔ انہوں نے بلا جھجھک کہا 84 کروڑ۔ اس پر ہلکا سا تبسّم فرمایا اور کہا 84 روپے 14 آنے مُلکی خزانے میں جمع کرا دینا ، مال پاک ہو جائے گا۔

اسی طرح زبیدہ جلال سے پوچھا کہ کم خوراکی کے شکار بلوچ بچوں کے بسکٹ اور دودھ پراجیکٹ میں سے کتنا کھایا- زبیدہ آپا نے شرماتے ہوئے کہا تقریباً سارا۔ اس پر ارشاد کیا کہ لیو بسکٹ کا ایک ٹکی پیک ہمراہ پاؤ والا ملک پیک امام برّی سرکار پہ چڑھا دو ، مال پاک ہو جائے گا۔

عثمان بزدار سے پوچھا کہ تمہارا خاندان دو نسلوں سے حکومت میں ہے، اپنےعلاقے میں کوئی اچھا اسکول کالج کیوں نہ بنوا سکے- وہ سادگی سے بولے ہم مدت سے منتظر تھے کہ کپتان وزیراعظم بنے اور بچے ہمارے پرائم منسٹر ہاؤس میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس پر کھلکھلا کر ہنسے اور کہا کچھ زیادہ ہی سیریس لے گئے ہو وہ ایک سیاسی پھکّڑ تھا۔

دال مسور میں قصوری میتھی کا تڑکا کچھ زیادہ ہی لگ گیا- اس پر فوراً نوٹس لیا اور کہا " کہاں سے آئی یہ میتھی ؟ کس نے منگوائی یہ میتھی ؟ کتنے میں آئی یہ میتھی ؟

اس پر حکام کی دوڑیں لگ گئیں اور عملے کا باقی وقت دال مسور سے میتھی الگ کرنے میں صرف ہوا۔

از
(ظفر اِن صافی روزنامہ ڈون )
ہاہاہا
ہاہاہاہا
:D
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top