عبدالقیوم چوہدری
محفلین
ایم این اے و دیگر اسمبلیوں میں قانون سازی کے لیے منتخب ہوئے ہیں، ہسپتالوں کی حاظریاں چیک کرنے کے لیے نہیں۔میں اس حق میں ہوں کہ یہ ضلعی انتظامیہ کی مائی باپ بنے کیونکہ یہ عوام کے انتخاب سے اوپر آئی ہے لیکن اس کے لیے قانونی طور پر ایکٹ پاس ہونا اول شرط ہے۔ موجودہ ضلعی انتظامیہ کا نظام وہ نظام ہے جو انگریز نے طبقاتی تفریق کو بحال رکھنے اور برصغیر کی عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے یہاں لاگو کیا۔ انگریز کو گئے تو ستر سے زائد سال ہو گئے لیکن یہ نظام جوں کا توں ہے۔ اس نظام میں تبدیلی لانا اور طاقت کو روٹ لیول پہ ںلدیاتی نظام یا متبادل بہتر نظام کے ذریعے منتقل کرنا ہی اصل جمہوریت ہے تاکہ عوام کی فلاح و بہبود ہو سکے نہ کہ ساری طاقت اپنے پاس رکھ کر بادشاہی نظام اور طبقاتی تفریق کو فروغ دینا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو پاورلیس رکھ کر ساری طاقت ضلعی انتظامیہ کو سونپ دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ میری ذاتی رائے میں ساری ضلعی انتظامیہ ایم این ایز یا میئرز کو رپورٹنگ ہونی چاہیے اور لوئر لیول پہ بلدیاتی نظام مضبوط ہونا چاہیے تاکہ طاقت روٹ لیول پہ منتقل ہو سکے جو جمہوریت کی اصل روح ہے۔ ضلعی انتظامیہ محض اسسٹنس کے طور پر استعمال ہو نہ کہ ان کو مکمل اختیارات بخش کر افسر شاہی کو فروغ دیا جائے۔
کل کلاں اپوزیشن کے ایم این اے اپنے علاقے کے ہسپتالوں کی حاظریاں چیک کرنے لگ گئے تو کٹھ پتلیوں کی حکومت نے آسمان سر پر اٹھا لینا ہے۔
خدمات کے تمام شعبے ضلعی انتظامیہ کے تحت ہی چلتے رہیں تو بہتر رہے گا۔