اس ملک میں ایف اے پاس جرنیل حکومتیں بناتے ، گراتے ہیں۔ یہ کس کھیت کی مولی ہے
گو میں خود انھیں ایف اے پاس ہی سمجھتا ہوں (ازراہ تفتن) لیکن پہلے تو یہ غلط فہمی دور کر لیتے ہیں کہ کوئی جرنیل صرف ایف اے پاس ہوگا۔ بطور کیڈٹ بھرتی ہوتے وقت تعلیمی معیار کی کم از کم حد ایف اے /ایف ایس سی ہی ہوتی ہے۔
تقریباً 20 سال قبل اور اس سے پہلے تک زیادہ تر کیپٹن رینک میں اور کبھی کبھار لیفٹیننٹ رینک میں جس بھی شعبے سے تعلق ہو کے بارے میں تین سے چار سال پر محیط گریجویشن کروائی جاتی تھی۔ (مثلاً انجئینرز کورز میں سول انجئینر اور ای ایم ای کورز میں مکینیکل و الیکٹرکل انجئینرز وغیرہ وغیرہ)۔ البتہ اب کچھ ٹیکنیکل محکموں میں گریجویٹ ڈگری حاصل کر چکنے کے بعد ہی کیڈٹ کو پی ایم اے میں فائنل ٹریننگ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
اس کے بعد میجر رینک میں سٹاف کورس کرنے کی باری آتی ہے، جس کا انٹرنس ایگزم ہی اتنا سخت ہے کہ تقریباً 50 فیصد سے زائد امیدوار پاس ہی نہیں ہو پاتے۔ سٹاف کورس ایک طرح کی ماسٹر ڈگری ہے کہ دو سال کامیابی سے مکمل کر لینے پر ’ایم ایس سی وار سٹڈیز‘ کی ڈگری دی جاتی ہے۔ یعنی جس بھی آفیسر نے کرنل کے بعد مزید اگلے عہدوں پر ترقی پانی ہے اسے سٹاف کورس یا ایم ایس سی وار سٹڈیز کی ڈگری لینی پڑتی ہے۔
کورسز / کلاسز یہاں ختم نہیں ہو جاتے، بلکہ جاری رہتے ہیں۔ بہت سے ذہین فطین آفیسرز کو دوست ممالک (برطانیہ، امریکہ، انڈونیشیا، آسٹریلیا، ترکی وغیرہ) کے سٹاف کالجز میں مزید پڑھائی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ کرنل اور اس سے اوپر کے وہ آفیسرز جو سٹاف کورس مکمل کر چکے ہوتے ہیں کو مزید ترقی حاصل کرنے کے لیے نیشنل ڈیفنس کالج اسلام آباد میں بھی کورسز کرنے پڑتے ہیں۔
جرنیل تو ایک طرف رہے کوئی بریگیڈئیر بھی اس وقت ایم ایس سی سے کم تعلیم یافتہ نہیں ہوگا۔