کئی سال قبل میرے ایک کولیگ ریٹائرڈ میجر صاحب تھے، مرحوم کو اللہ غریقِ رحمت کرے، فرمایا کرتے تھے:اس کے بعد میجر رینک میں سٹاف کورس کرنے کی باری آتی ہے، جس کا انٹرنس ایگزم ہی اتنا سخت ہے کہ تقریباً 50 فیصد سے زائد امیدوار پاس ہی نہیں ہو پاتے۔
پاکستان میں ووٹر اور نمائندے کی تعلیم کی کمی پر جو زور دیا جاتا ہے وہ کچھ صحیح نہیں۔ پڑھا لکھا ہونا سیاسی شعور کی نشانی نہیں ہےگو میں خود انھیں ایف اے پاس ہی سمجھتا ہوں (ازراہ تفتن) لیکن پہلے تو یہ غلط فہمی دور کر لیتے ہیں کہ کوئی جرنیل صرف ایف اے پاس ہوگا۔ بطور کیڈٹ بھرتی ہوتے وقت تعلیمی معیار کی کم از کم حد ایف اے /ایف ایس سی ہی ہوتی ہے۔
تقریباً 20 سال قبل اور اس سے پہلے تک زیادہ تر کیپٹن رینک میں اور کبھی کبھار لیفٹیننٹ رینک میں جس بھی شعبے سے تعلق ہو کے بارے میں تین سے چار سال پر محیط گریجویشن کروائی جاتی تھی۔ (مثلاً انجئینرز کورز میں سول انجئینر اور ای ایم ای کورز میں مکینیکل و الیکٹرکل انجئینرز وغیرہ وغیرہ)۔ البتہ اب کچھ ٹیکنیکل محکموں میں گریجویٹ ڈگری حاصل کر چکنے کے بعد ہی کیڈٹ کو پی ایم اے میں فائنل ٹریننگ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
اس کے بعد میجر رینک میں سٹاف کورس کرنے کی باری آتی ہے، جس کا انٹرنس ایگزم ہی اتنا سخت ہے کہ تقریباً 50 فیصد سے زائد امیدوار پاس ہی نہیں ہو پاتے۔ سٹاف کورس ایک طرح کی ماسٹر ڈگری ہے کہ دو سال کامیابی سے مکمل کر لینے پر ’ایم ایس سی وار سٹڈیز‘ کی ڈگری دی جاتی ہے۔ یعنی جس بھی آفیسر نے کرنل کے بعد مزید اگلے عہدوں پر ترقی پانی ہے اسے سٹاف کورس یا ایم ایس سی وار سٹڈیز کی ڈگری لینی پڑتی ہے۔
کورسز / کلاسز یہاں ختم نہیں ہو جاتے، بلکہ جاری رہتے ہیں۔ بہت سے ذہین فطین آفیسرز کو دوست ممالک (برطانیہ، امریکہ، انڈونیشیا، آسٹریلیا، ترکی وغیرہ) کے سٹاف کالجز میں مزید پڑھائی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ کرنل اور اس سے اوپر کے وہ آفیسرز جو سٹاف کورس مکمل کر چکے ہوتے ہیں کو مزید ترقی حاصل کرنے کے لیے نیشنل ڈیفنس کالج اسلام آباد میں بھی کورسز کرنے پڑتے ہیں۔
جرنیل تو ایک طرف رہے کوئی بریگیڈئیر بھی اس وقت ایم ایس سی سے کم تعلیم یافتہ نہیں ہوگا۔
بالکل۔ ذات، برادری، مسلک، فوج دشمنی، قیمے والے نان کی بنیاد پر ووٹ ڈالنا ہی تو سیاسی شعور کی اصل نشانی ہے۔پاکستان میں ووٹر اور نمائندے کی تعلیم کی کمی پر جو زور دیا جاتا ہے وہ کچھ صحیح نہیں۔ پڑھا لکھا ہونا سیاسی شعور کی نشانی نہیں ہے
قیمے والا نان اور بریانی تو ہر سیاسی پارٹی فراہم کرتی ہے۔ کیا الیکشن کے دنوں میں بھی غریب عوام بھوکوں مر جائے؟بالکل۔ ذات، برادری، مسلک، فوج دشمنی، قیمے والے نان کی بنیاد پر ووٹ ڈالنا ہی تو سیاسی شعور کی اصل نشانی ہے۔
یہ بھی پری پول دھاندلی ہی ہے کہ غربا کو دور دراز علاقوں سے گاڑیوں میں بھر بھر کر ووٹنگ اسٹیشن لایا جائے۔ اور پھر ان کے قیمتی ووٹ کے عوض ایک پلیٹ بریانی یا قیمہ والا نان کھلا کر چلتا کیا جائے۔قیمے والا نان اور بریانی تو ہر سیاسی پارٹی فراہم کرتی ہے۔ کیا الیکشن کے دنوں میں بھی غریب عوام بھوکوں مر جائے؟
یعنی کہ آپ سمجھتے ہیں کہ تحریکِ انصاف بریانی اور قیمے والے نان کے زور پر بر سر اقتدار آئی ہے۔یہ بھی پری پول دھاندلی ہی ہے کہ غربا کو دور دراز علاقوں سے گاڑیوں میں بھر بھر کر ووٹنگ اسٹیشن لایا جائے۔ اور پھر ان کے قیمتی ووٹ کے عوض ایک پلیٹ بریانی یا قیمہ والا نان کھلا کر چلتا کیا جائے۔
یاد رہے کہ عام انتخابات میں حصہ لینا قومی فریضہ ہے جہاں آپ مکمل آزادی کے ساتھ اس نمائندہ کو چنتے ہیں جو آپ کی نظر میں اگلے ۴ سال عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرے گا۔ اگر وہ نمائندہ اس کام کی ابتدا ہی نان اور بریانی کے ذریعہ آپ کا ضمیر خرید کر کر رہا ہے تو آگے جا کر کیا کیا نہیں کرے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیاست جو کہ حقیقتا عبادت ہے کو اپنے نجی کاروبار میں بدل دیا ہے۔
کاروباری سیاست دان ہر جگہ ہیں۔ تحریک انصاف میں بھی ہیں۔ جہاز ترین، علیم خان، اعظم سواتی (نام تو سنا ہوگا)یعنی کہ آپ سمجھتے ہیں کہ تحریکِ انصاف بریانی اور قیمے والے نان کے زور پر بر سر اقتدار آئی ہے۔
نہیں! تحریکِ انصاف والے شاید فوجی دلیہ اور فوجی فوڈز بانٹتے رہے ہیں جنہیں بوجوہ بریانی اور قیمے والے نان کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہے۔کاروباری سیاست دان ہر جگہ ہیں۔ تحریک انصاف میں بھی ہیں۔ جہاز ترین، علیم خان، اعظم سواتی (نام تو سنا ہوگا)