جاسم محمد
محفلین
اور پیشگوئی پوری ہو گئی
اور پیشگوئی پوری ہو گئی
عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کو تکلیف پہنچانے پر لیگیوں کو اتنی تکلیف نہیں پہنچتی جتنی نواز شریف، زرداری کو پہنچانے پر ہوتی ہے۔ شاید اسی لئے یہ سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
احتسابی نظام کو الگ رکھنا ملک کے لیے مفید ہے اور قانونی لحاظ سے ایسا ہی ہے۔ حکومت مسلسل یہ تاثر دے رہی ہے کہ اُن کے اشارے پر مخالفین کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے، تو اس تاثر کو پھیلانا کسی صورت مستحسن رویہ نہیں۔ میاں صاحب کو قانونی لحاظ سے یہ سہولیات دی جا رہی ہیں، تو موجودہ حکومت انہیں واپس لینے کی مجاز نہیں ہے۔ آزاد عدلیہ ہوتی تو وزیراعظم کے اس بیان کا نوٹس لے کر ان کی طلبی کا پروانہ جاری کر دیا جاتا۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ قانون شکن رویے زیب نہیں دیتے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ الگ معاملہ ہے، تاہم، اس طرح کے مسلسل بیانات دینے سے وہ کسی قانونی مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کو تکلیف پہنچانے پر لیگیوں کو اتنی تکلیف نہیں پہنچتی جتنی نواز شریف، زرداری کو پہنچانے پر ہوتی ہے۔ شاید اسی لئے یہ سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
عمران خان کا جو وعدہ تھا کہ ان کو تکلیف پہنچے گی۔ وہ ہمارے سامنے پورا ہو رہا ہے۔
اس طرح کے مسلسل بیانات دینے سے وہ کسی قانونی مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ وقت آنے پر ۔
عمران خان صاحب سیاست میں نہ آتے تب بھی اُن کا امریکا میں شو اسی طرح ہٹ ہونا تھا کیونکہ وہ ایک سیلبریٹی ہیں؛ وہ اپنے کرکٹ کے کیرئیر کے حوالے سے ایک ممتاز اور شاندار شخصیت ہیں۔ مزید یہ کہ، وہ سیاست میں آ گئے اور وزیراعظم بھی بن گئے۔ آپ پاکستان کی معروف شخصیات، خاص طور پر گلوکاروں کے امریکا اور مغربی ممالک میں کنسرٹ دیکھ لیں؛ کیا عالم ہوتا ہے! ہمیں یقین ہے کہ عاطف اسلم صاحب اگر امریکا میں کنسرٹ کریں تو اس سے زائد افراد اکھٹے ہو جائیں گے۔ تاہم، سیاسی حرکیات کا معاملہ مختلف ہے اور بین الاقوامی ایشوز کا ان جلسوں سے واقعی کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مقبولیت آسمان پر جاتی ہے تو اسی رفتار سے دھڑام بوس بھی ہو سکتی ہے؛ احتیاط لازم ہے، صاحب!اور پیشگوئی پوری ہو گئی
خیال رہے کہ مکمل آفیشل پروٹوکال کے ساتھ آخری پاکستانی وزیراعظم جو امریکہ آئی وہ بینظیر بھٹو تھیعمران خان صاحب سیاست میں نہ آتے تب بھی اُن کا امریکا میں شو اسی طرح ہٹ ہونا تھا کیونکہ وہ ایک سیلبریٹی ہیں؛ وہ اپنے کرکٹ کے کیرئیر کے حوالے سے ایک ممتاز اور شاندار شخصیت ہیں۔ آپ پاکستان کی معروف شخصیات کے امریکا اور مغربی ممالک میں کنسرٹ دیکھ لیں؛ کیا عالم ہوتا ہے! تاہم، سیاسی حرکیات کا معاملہ مختلف ہیں اور بین الاقوامی ایشوز کا ان جلسوں سے واقعی کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مقبولیت آسمان پر جاتی ہے تو اسی رفتار سے دھڑام بوس بھی ہو سکتی ہے؛ احتیاط لازم ہے، صاحب!
سیاسی طور پر، ہمارا اور ہماری فیملی کا تعلق کافی حد تک پیپلزپارٹی سے رہا ہے۔ زرداری صاحب نے اکیسویں صدی میں پیپلزپارٹی کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کو دیکھتے ہوئے جیالا پن اپنی موت آپ مر گیا۔ ہم ہمیشہ میاں صاحب کو ایک ولن گردانتے رہے یا کم از کم یہ بات زبان زد عام رہی، تاہم، حیرت ہوئی کہ پوری ریاست ایک طرف ہو گئی اور اب تک میاں صاحب کے خلاف کوئی ڈھنگ کا کیس تیار نہ ہو سکا۔ آمدن سے زائد اثاثے تو ایک مذاق ہے۔ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے فرد کے خلاف کوئی ایک کیس تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ عوام بھی ایک طرف ہو جاتی۔ پاناما کیس براہ راست میاں صاحب کی ذات سے جڑا ہوا نہیں ہے؛ کچھ بیانات کی آڑ میں انہیں گھیر لیا گیا اور یہ معاملہ بھی ان کے اپنے کاروبار سے متعلق تھا۔ ہمیں حیرت ہے کہ ایک فرد پاکستان میں آ کر قانون کے سامنے پیش ہو گیا، جیل چلا گیا، اور ملک کے وزیراعظم صاحب اب بھی انہیں فوکس کیے ہوئے ہیں۔ یہ کس کی کامیابی ہے؟ اور یہ کیسا انجانا خوف ہے جو کسی کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے! ایک کمزور، نحیف فرد کو اس کے حال پر چھوڑنا بہتر ہے! براہ مہربانی، عدالتوں کا کام انہیں کرنے دیا جائے۔ ان عدالتوں کے باعث ہی وہ جیل میں ہیں تو اب ان عدالتوں پر اعتماد کرنے میں مقتدر حلقوں کو کیا تکلیف ہے!
اب تو ہمیں یوں لگ رہا ہے کہ محمد امین صدیق بھائی نے آپ کو ہائر کرلیا۔
تو قانون میں ترمیم کر کے سہولیات ختم کر دیتے ہیں۔ یہ کونسا مشکل کام ہے؟میاں صاحب کو قانونی لحاظ سے یہ سہولیات دی جا رہی ہیں، تو موجودہ حکومت انہیں واپس لینے کی مجاز نہیں ہے۔
ایسا کر لیجیے، ممکن ہے تو! تاہم، جب تک قانون موجود ہے، تب تک اس طرح کے بیانات قانون سے کھلواڑ کے مترادف ہیں۔تو قانون میں ترمیم کر کے سہولیات ختم کر دیتے ہیں۔ یہ کونسا مشکل کام ہے؟
سابق صدر تحریک انصاف امریکہ کے مطابق عمران خان صاحب نے 2010 میں بھی جلسہ کیا تھا اور صرف 50 لوگ آئے تھےعمران خان صاحب سیاست میں نہ آتے تب بھی اُن کا امریکا میں شو اسی طرح ہٹ ہونا تھا
آمدن سے زائد اثاثے تو ایک مذاق ہے۔
آمدن سے زائد اثاثے بنانا ہی تو کرپشن کی اصل نشانی ہے۔عمران خان نے کہا کہ 23 سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار میں آیا تو مجھے لگاکہ میں سیاسی جماعتوں سےنہیں بلکہ مافیاسےنبردآزماہوں، پچھلی دو حکومتوں نے ریکارڈ قرضے حاصل کیے، گزشتہ 10سالوں میں قرضہ 6ٹریلین سے 30ٹریلین پرپہنچ گیا ، جب ہم احتساب کی بات کرتے ہیں تو یہ دونوں پارٹی کہتی ہیں سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔
نشانی، علامت، وغیرہ پر سزا نہیں بنتی اور اگر نیب کچھ اور نہیں لائے گی، تو اعلیٰ عدلیہ سے میاں صاحب کو رہائی کی صورت میں ریلیف ملنے کا قوی امکان ہے۔ اے سی اور ٹی وی چھوڑ کر وہ یہاں آئے ہیں؛ نیتوں کا حال اوپر والا جانتا ہے۔ فی الحال وہ جیل میں رہ کر بھی حکومتِ وقت کے اعصاب پر سوار ہیں؛ کوئی تو وجہ رہی ہو گی۔آمدن سے زائد اثاثے بنانا ہی تو کرپشن کی اصل نشانی ہے۔
نواز شریف نے پاناما کیس چلنے کے بعد ایک نجی محفل میں جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا کہ "اگر میرے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا؟" اب جیل میں بغیر اے سی اور ٹی وی کے سوچئے گا اس شدید تکبر کا انجام۔
نیب کی جس شق کے تحت میاں صاحب کو سزا ئیں ملی ہیں۔ اس میں بار ثبوت میاں صاحب پر ہے۔نشانی، علامت، وغیرہ پر سزا نہیں بنتی اور اگر نیب کچھ اور نہیں لائے گی، تو اعلیٰ عدلیہ سے میاں صاحب کو رہائی کی صورت میں ریلیف ملنے کا قوی امکان ہے۔
ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں نیب کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ریلیف مل سکتا ہے۔ نیب کا قانون ذرا سخت ہے نا!نیب کی جس شق کے تحت میاں صاحب کو سزا ئیں ملی ہیں۔ اس میں بار ثبوت میاں صاحب پر ہے۔
اگر میاں صاحب پاناما لیکس میں پکڑے جانے والے لندن فلیٹس سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کر دیتے تو معاملہ وہیں ختم ہو جانا تھا۔ لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ پہلے اسمبلی اور بعد میں قوم سے خطاب میں ان کی ملکیت تسلیم کر بیٹھے۔ اور پھر خود ہی کیس سپریم کورٹ بھجوا دیا کہ کر لیں میرا احتساب۔ سو ہو گیا احتساب۔ اب کس چیز کا رونا باقی ہے؟