مسلم لیگ ن کے دور میں میڈیا کو ۵۰ ارب روپے قومی خزانہ سے کھلایا گیا تھا۔ اس حکومت میں سب کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے اس لئے ماضی کی مثبت رپورٹنگ ممکن نہیں رہی۔
جناب وہ تو میڈیا پر لگاتے تھے یہ اپنے انویسٹرز پر لگاتے ہیں. فرق کیا رہ گیا؟ اور نہ نئے قرضے کم لے رہے ہیں نہ نئے پروجیکٹس زیادہ بنا رہے ہیں تو پیسا جا کدھر رہا ہے اس سوال کا جواب ابھی تک کوئی نہیں دے سکا... آپ ہی اس پر غور کر کے کچھ جواب دے دیںمسلم لیگ ن کے دور میں میڈیا کو ۵۰ ارب روپے قومی خزانہ سے کھلایا گیا تھا۔ اس حکومت میں سب کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے اس لئے ماضی کی مثبت رپورٹنگ ممکن نہیں رہی۔
مہمند ڈیم، بھاشا ڈیم، گوادر پورٹ، ایم ایل ون ریل وے ٹریک جیسے اربوں ڈالرز کے پراجیکٹس بکاؤ میڈیا نہیں دکھا رہا؟نہ نئے قرضے کم لے رہے ہیں نہ نئے پروجیکٹس زیادہ بنا رہے ہیں تو پیسا جا کدھر رہا ہے
جو قرضہ پروجیکٹ کے لئے ہوتا ہے وہ پروجیکٹ کے کھاتے میں ہی لیا جاتا ہے جیسے بی آر ٹی کا قرضہ بی آر ٹی کے لئے ہی لیا گیا تھا اسی لئے اس کو دینے والی ایجنسی اس پروجیکٹ کا آڈٹ بھی کرتی ہے اور جس کی رپورٹ پر کافی شور شرابہ بھی ہوا تھا.مہمند ڈیم، بھاشا ڈیم، گوادر پورٹ، ایم ایل ون ریل وے ٹریک جیسے اربوں ڈالرز کے پراجیکٹس بکاؤ میڈیا نہیں دکھا رہا؟
سی پیک معاہدہ کے بعد پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ تمام پراجیکٹس اسی کا حصہ ہیں۔بھاشا ڈیم کی زمین تو ن لیگ کے دور میں خرید لی گئی تھی.
گوادر پروجیکٹ تو سدا بہار پروجیکٹ ہے مشرف سے بھی پہلے کا چلا آ رہا ہے
مہمند ڈیم پر کام ضرور شروع ہوا ہے لیکن ملک کے ٤٣% قرضوں میں اضافہ صرف ایک ڈیم کے لئے؟
اور ایم ایل ١ ابھی اپپروول کے مراحل میں ہے اس کو سی پیک کا پروجیکٹ بنا دیا گیا ہے تو اس کے لئے چینی کمپنی سے قرضہ ملے گا