جاسم محمد
محفلین
سارا ٹبر چور ہے۔۔۔۔۔۔سلطانوں سے مانگنا تو پیشہ ہے ۔۔
سارا ٹبر چور ہے۔۔۔۔۔۔سلطانوں سے مانگنا تو پیشہ ہے ۔۔
گیلپ سروے کے مطابق تو گلگت بلتستانی تحریک انصاف کو ہی ووٹ دینے جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے یہ سروے بھی سوشل میڈیا پر کروایا گیا ہو۔
GB Election 2020: Surveys reveal PTI ahead of PPP, PML-N
جی بالکل۔ اسٹیبلشمنٹ نیازی کو گھر بھیج کر اسی اپوزیشن کو اقتدار دے گی جس نے قومی خزانہ کو مثبت 8 ارب ڈالر سے منفی 8 ارب ڈالر پر کر کے نیازی کے حوالہ کیا تھا۔
لیں اب اور سن لیں۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔ توبہ ہے
جی بالکل۔ اسٹیبلشمنٹ نیازی کو گھر بھیج کر اسی اپوزیشن کو اقتدار دے گی جس نے قومی خزانہ کو مثبت 8 ارب ڈالر سے منفی 8 ارب ڈالر پر کر کے نیازی کے حوالہ کیا تھا۔
جب آپ شادی والے گھر کی مرمت ڈھیر سارا ادھار یا قرض لے کر کرتے ہیں تو مستقبل میں ہونے والی زیادہ تر گھریلو آمدن اس ادھار یا قرض کی واپسی میں نکل جاتی ہے۔ یوں گھر کے دیگر اخراجات میں کمی لانی پڑتی ہے اور ماضی میں کی جانے والی عیاشیاں ترک کرنی پڑتی ہیں۔جس نے قومی خزانو کو منفی کیا وہ سڑکیں بھی بنا گیا ترقیاتی کام بھی کر گیا یہاں تو عمران خان نیازی ایک بھی سنگل میگا پراجیکٹ نہیں لاسکا۔
جس اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا ہے اسی اسٹیبلشمنٹ کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے “مزاکرات” کی دعوت دی جارہی ہےباقی رہا اسٹیبلشمنٹ کا کردار تو اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن مولانا کی پوری کوشش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے سیاست کو پاک کر کے آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کی جاسکتے ۔
جس اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا ہے اسی اسٹیبلشمنٹ کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے “مزاکرات” کی دعوت دی جارہی ہے
امریکہ اور دیگر جمہوریتوں میں وزارت دفاع عسکری بجٹ کا ہر سال آڈٹ کرواتا ہے جس کی رپورٹ پر عوامی نمائندگان پارلیمان میں جرح کر سکتے ہیں۔ جس دن افواج پاکستان وزارت دفاع کے نیچے آئیں گے اس دن آپ کا یہ والا خواب بھی پورا ہو جائے گالیکن 1400 ارب میں اب تک کیا کسی عوامی رہنما یا پارلیمنٹ کو کوئی حساب دیا گیا ہے؟؟
جب آپ شادی والے گھر کی مرمت ڈھیر سارا ادھار یا قرض لے کر کرتے ہیں تو مستقبل میں ہونے والی زیادہ تر گھریلو آمدن اس ادھار یا قرض کی واپسی میں نکل جاتی ہے۔ یوں گھر کے دیگر اخراجات میں کمی لانی پڑتی ہے اور ماضی میں کی جانے والی عیاشیاں ترک کرنی پڑتی ہیں۔
پاکستان اس وقت اسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ پچھلی حکومت نے قومی خزانہ میں ریکارڈ خسارے کر کے اور قرضے لے کر ملک کی مرمت یعنی سڑکیں،میٹرو، بجلی گھر وغیرہ تو بنا کر دے دیے۔ اب ان ریکارڈ خساروں اور قرضوں کی واپسی موجودہ حکومت کو کرنی پڑ رہی ہے جس کے بعد قومی خزانہ میں کچھ بچے تو عوام کو ریلیف دے۔
آئین و قانون کے تحت افواج پاکستان کا سیاست میں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جب آپ ان غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو جانے یا انجانے میں ان کی سیاسی قوت کو تسلیم کرتے ہیں۔آرٹیکل 244 کا اطلاق وردی والوں پر ہوتا ہے۔ سیاست دان پر نہیں خصوصا جب آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات ہو تو ہر فریق سے آئین کی متعین کردہ حدود کے مطابق بات کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں۔
ان سے مذاکرات کا مقصد سیاست میں مداخلت بند کروانا اور ان کو آئینی حدود میں واپس جانا ہے؟آئین و قانون کے تحت افواج پاکستان کا سیاست میں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جب آپ ان غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو جانے یا انجانے میں ان کی سیاسی قوت کو تسلیم کرتے ہیں۔
ریکارڈ خساروں و قرضوں میں جکڑا ملک آپ دنیا کے بہترین سے بہترین ایڈمنسٹریٹر کے حوالہ کر دیں، نتیجہ ایک جیسا ہی نکلنا ہے۔ معیشت کا سادہ سا بین الاقوامی اصول ہے کہ ہمیشہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ۔ اگر آپ کے ملک کے خرچے آمدن سے پورے نہیں ہو رہے تو مزید خرچے بڑھانے سے پہلے آمدن بڑھانے پر کام کرنا چاہیے۔تو میرے خیال میں جب عمران خان کی اوقات نہیں تھی حکومت چلانے کی تو نیا پاکستان کے دل فریب نعرے کیوں لگائے۔
وہ 200 ماہر معاشیات کہاں گئے؟
200 ارب ڈالر کہاں گیا
ریکارڈ خساروں و قرضوں میں جکڑا ملک آپ دنیا کے بہترین سے بہترین ایڈمنسٹریٹر کے حوالہ کر دیں، نتیجہ ایک جیسا ہی نکلنا ہے۔ معیشت کا سادہ سا بین الاقوامی اصول ہے کہ ہمیشہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ۔ اگر آپ کے ملک کے خرچے آمدن سے پورے نہیں ہو رہے تو مزید خرچے بڑھانے سے پہلے آمدن بڑھانے پر کام کرنا چاہیے۔
سابقہ حکومت نے قومی آمدن (ایکسپورٹ) بڑھانے کی بجائے ملک کو مزید خرچوں (امپورٹس) کے رستہ پر ڈال دیا تھا۔ یہاں تک کہ ۲۰۱۸ میں تجارتی خسارہ ۴۰ ارب ڈالر تک پہنچا دیا گیا تھا۔ جس ملک کی سالانہ ایکسپورٹ آمدن ۲۰ ارب ڈالر اور ترسیلات زر ۲۰ ارب ڈالر ہوں وہاں ۶۰ ارب ڈالر کی امپورٹ ہو جائے تو جاری کھاتوں کا سالانہ خسارہ ۲۰ ارب ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔ جسے پورا کرنے کیلئے حکومت کو سالانہ ۲۰ ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑتا ہے۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ اگر یہی ن لیگی معاشی ماڈل پانچ سال مزید چلتا رہتا تو آج ملک کی کیا مالی حالت ہوتی؟
جناب وہ لوگ ملک کے ہر ادارہ اور محکمہ پر کسی نہ کسی شکل میں ۷۰ سال سے قابض ہیں۔ مذاکرات تو تب ہوتے اگر عوامی جمہوری انقلاب (جیسا کہ مشرقی پاکستان میں آیا) کے بعد ان کو عملا شکست ہو جاتی اور وہ سرنڈر کرتے۔ان سے مذاکرات کا مقصد سیاست میں مداخلت بند کروانا اور ان کو آئینی حدود میں واپس جانا ہے؟
کیا یہ ایک معجزہ سے کم ہے کہ جو ملک ۲۰۱۸ میں عملا دیوالیہ ہو چکا تھا۔ جس کے زرمبادلہ کے ذخائر منفی ۸ ارب ڈالر تھے۔ اور قومی کرنسی فری فال میں تھی۔ وہ اس حکومت کی معاشی و مالی اصلاحات کے بعد اپنے آپ مستحکم ہو رہی ہے۔جب پتہ تھا کہ ملک خسارے میں ہے اور روزانہ بیٹھ کر ٹی وی پر 12 ارب روزانہ کرپشن کے نقصانات گنواتے تھے تو وہ بارہ ارب روزانہ کرپشن کی بچت کہاں گئی۔ اور جب اوقات اور سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ ایک ملک چلا سکے تو پھر بونگیاں مارنے کی کیا ضرورت تھی؟
جب معیشت خراب تھی تو سونا 52 ہزار جب ٹھیک ہونے لگی تو 123 ہزار پر کیوں چلا گیا؟کیا یہ ایک معجزہ سے کم ہے کہ جو ملک ۲۰۱۸ میں عملا دیوالیہ ہو چکا تھا۔ جس کے زرمبادلہ کے ذخائر منفی ۸ ارب ڈالر تھے۔ اور قومی کرنسی فری فال میں تھی۔ وہ اس حکومت کی معاشی و مالی اصلاحات کے بعد اپنے آپ مستحکم ہو رہی ہے۔