شادي شدگان کے مسائيل اور انکا حل

مہ جبین

محفلین
عبرت تو کیا ہوگی زبیر مرزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس سبق ان پچھلے صفحات میں یہی ملتا ہے کہ چاہے کوئی بھائی اپنے گھر میں کتنی ہی خوشحال ، مطمئن اور آسودہ زندگی گزار رہے ہوں مگر اس طرح کی بات چیت میں وہ اللہ کی ناشکری ضرور کرتے ہیں اور مبالغہ آمیزی یا دروغ گوئی کی انتہا کردیتے ہیں ۔
یعنی کہ انسان تحدیثِ نعمت کے طور پر بھی اللہ کی ان نعمتوں کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتا۔۔۔۔۔:(
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم
شمشاد بھائی 49 صفحات پر پھیلے ہوئے مسائل پڑھنے کے بعد کون ظالم شادی کرے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
و علیکم السلام

تو آپ غیر شادی شدہ اور ان کے مسائیل والا دھاگہ دیکھ لیں، پھر آپ فوراً شادی کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شادی شدہ مردوں کا کوئی ایک مسئلہ ہو تو بتائیں بھی، یہاں تو مسائل کے انبار ہیں بقول شاعر "حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں"
 

سیما علی

لائبریرین
شوہر:
بیوی سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ شادی اپنی فطرت میں نہ خوبی ہی نہ خامی ہے
بیوی:
شوہر سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ مرد اپنی فطرت میں، ہیں سیدھے بھی اور ٹیڑھے بھی
 

سیما علی

لائبریرین
ایک ٹی وی مشاعرے میں سرفراز شاہد نے ایک مزاحیہ غزل پڑھی جس میں مندرجہ بالاشعر بھی شامل تھا۔ اگلے روز مسز سرفراز اپنے کالج گئیں تو ان کی ایک ساتھی استاد نے کہا کہ تم اپنے شوہر نامدار کو جاکر یہ شعر ضرور سنانا

جب سے چشمہ لگا ہے نظر والا
زہر لگنے لگا ہے گھر والا
 

سیما علی

لائبریرین
میاں بیوی کا رشتہ جملہ انسانی رشتوں میں اپنی نوعیت کا واحد اور انوکھا ”رشتہ“ ہے، جو انسان خود ”بنا“ بھی سکتا ہے اور خود ہی ”ختم“ بھی کرسکتا ہے۔ کسی اور انسانی رشتہ کو نہ تو اپنی مرضی سے بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
یہ رشتہ دیگر رشتوں کے مقابلہ میں سب سے ”زیادہ مضبوط“ اور سب سے ”زیادہ قریبی“ ہونے کے باوجود ”سب سے زیادہ نازک“ بھی ہوتا ہے کہ اسے ٹوٹنے اور ختم ہونے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔
 

سیما علی

لائبریرین
تمام رشتوں کے درمیان ایک خاص ”حد فاصل“ ہوتا ہے۔ اسی ”فاصلہ“ کی وجہ سے عام رشتہ دار اپنے اپنے ”عیوب اور دیگر متنازعہ معاملات“ ایک دوسرے سے چھپا کر بھی رکھ سکتے ہیں۔ خفا ہوں تو ایک دوسرے سے ”دور“ رہ سکتے ہیں۔ جبکہ میاں بیوی کے رشتہ کے درمیان ”کوئی پردہ اور کوئی فاصلہ“ نہیں ہوتا۔ اور چونکہ یہ دونوں ایک جیتے جاگتے مکمل مگر الگ الگ انسان بھی ہوتے ہیں، جن کے سوچنے سمجھنے کا الگ الگ انداز ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ”دو منفرد انسان“ جب ایک ”کھونٹے“ سے ایک ساتھ باندھ دیئے جاتے ہیں تو ان کے درمیان لمحہ بہ لمحہ ”اختلافات رونما“ ہونے لگتے ہیں۔ جو زبانی جنگ کے آغاز سے ہاتھا پائی تک بلکہ اس سے آگے بھی پہنچ سکتے ہیں بلکہ کبھی کبھار پہنچ بھی جاتے ہیں۔
 
Top